امریکا بہادر اپنے عروج کو سنبھالیں


تحریر۔نظام الدین

دنیا میں دو ہزار چوبیس کا سال سیاسی طور پر سب سے اہم سمجھا جانے گا جس میں دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے قومی انتخابات میں نصف ابادی کے افراد اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرچکے ہون گے ، یہ ووٹ عالمی سطح پر جمہوریت یا آمریت کی سمت کا تعین بھی کریں گے کیونکہ” یہ انتخابات دنیا کے طاقتور ممالک میں بھی منعقد چکے ہیں، ان میں سابق سپر پاور روس اور مستقبل میں سپر پاور سمجھاجانے والے چین انتخاب کے عمل سے گزر چکا ہے ، جبکہ” حال کی دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ دو بارہ صدر منتخب ہوچکے ہیں ، اٹھارہ سو ستانوے سے لے کر دو ہزار چوبیس تک تاریخ میں یہ ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہیں ہوسکے تھے۔ اس سے پہلے گروور کلیو لینڈ نے اٹھارہ سو پچاسی اور اٹھارہ سو ترانوے میں امریکہ میں حکمرانی کی تھی وہ امریکہ کے باسوین اور چوبیسویں صدر تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ پینتالیس اور سیتالیسویں صدر ہیں۔ ابھی تک تیرا صدرو ں میں دو مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ جس میں انہیں اپنی دوسری میعاد میں مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔تھا روزویلٹ سے جارج بش تک گیارہ امریکی صدروں کو اپنی دوسری میعاد میں معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا ، حالانکہ ان کی پہلی میعاد کامیاب رہی تھی۔ دومیعاد کے لیے منتخب ہونے والوں میں جارج واشنگٹن، جیمز جیفرسن، جیمز میڈسن، جیمز مونرو، اینڈریو جیکسن، یولیس ایس گرانٹ، گروور کلیو لینڈ، وڈروولسن، وائٹ آئیزن ہاور، رونالڈریگن، بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما اور ٹرمپ۔ ، فرینکلن روزویلٹ نے تیسری میعاد مکمل کی،چوتھی بار بھی منتخب ہوئے مگر چند ماہ بعد فوت ہوگئے۔ ابراہام لنکن اور رچرڈنکسن دوسری میعاد کے لیے منتخب ہوئے لنکن ان کا قتل ہوگیا ، نکسن نے واٹرگیٹ اسکنڈل کی بنیاد پر استعفیٰ دیدیا تھا۔ روزویلٹ،کیلوین کولیج، ہیری ٹرومین، اور لندن جانسن پہلے نائب صدر منتخب ہوئے اور صدر کی موت کے بعد انہوں نے ملک کی صدارت سنبھالی، اور دوسری میعاد کا الیکشن جیتا۔” اس طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے کملا ہیرس کو شکست دیکر عالمی سطح پر کہیں مثبت تو کہیں منفی ردعمل کا سامنا کیا ،
پاکستان میں بھی کچھ لوگ خوش اور کچھ فکر مند ہیں خوش اس لیے ہیں کہ کراچی شہر سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد امریکی سلمان بھوجانی اور سلیمان لا لا نی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ریاستی حلقے سے انتخابات جیت گئے ہیں ، ،
انتخابی مہم کے دوران امریکی زوال کی پیشگوئیاں اس وقت شروع ہوئی جب ٹرمپ نے شگاگو میں سیاہ فام صحافیوں کے کنونشن میں کملا بیرس کی نسلی شناخت کے حوالے سے کہا کہ انتخابات سے پہلے وہ ہر طرح سے بھارتی تھیں مگر اچانک وہ پلٹ گئی اور سیاہ فام بن گئیں ؟ میں نہیں جانتا کہ آیا وہ بھارتی ہیں ؟یا پھر سیاہ فام نسل سے ہیں ؟
کملا بیرس نے ٹرمپ کے اس متنازع تفریق اور ہتک آمیز بیان پر کہا امریکا پر ایک نسلی امتیاز رکھنے والا جرمن مسلط ہونا چاھتا ہے ؟ جسے ماضی میں بھی اپنے کاروبار سے غرض تھا امریکا کی گرتی ہوئی معیشت سے نہیں ؟
ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم کے دوران ڈالر کے عالمی غلبے کے زوال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کی پوزیشن کا گرنا کسی بھی جنگ ہارنے سے بڑا واقع ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک بہت بڑا طاقتور ہتھیار ہمارا ڈالر ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈالر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے دوسرے ممالک اسے استعمال نہیں کرتے چیں اسے یوآن سے بدلنا چاہتا ہے یہ امریکہ کے لیے ناقابل تصّور ہے ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اب لوگ اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں ، ٹرمپ کو عالمی برادری ایک خاندانی کاروباری کے طور پر دیکھتے ہیں چنانچہ دوسری معیاد کے انتخاب کے بعد امریکی معیشت کو سنبھالنے کے لیے وہ عرب ریاستوں کی طرف دیکھیں گے کیونکہ” ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں ویسے بھی سعودی سرزمین آہستہ آہستہ امریکی سرزمین بنتی جارہی ہے۔ہر شعبہ حیات پر ان ہی کا کنٹرول ہے۔ اب تو سعودی عرب کی قدیم تہذیب عرب غیرت اور حمیت کی جگہ امریکی کلچر نے لے لی ہے۔ امریکہ بلاشبہ اپنے آپ کو سوپر پاور کہتا ہے اور اسے ثابت کرنے کیلئے اقدامات بھی کرتا ہے، حالات کیسے ہی خراب ہوں اس نے اپنی کرنسی (ڈالر) کو گرنے سے روکے رکھا ہے۔ یہ اور بات ہےکہ ہر دس برس میں کسی نہ کسی بحران کے نام پر یہ عرب ممالک سے کھربوں ڈالرس کی امداد حاصل کرتا ہے۔ امریکن یونیورسٹیز کو حالیہ عرصہ کے دوران قطر نے
527 ملین ڈالرس، عطیہ کئے سعودی عرب نے 400 ملین ڈالرس، متحدہ عرب امارات نے 108ملین ڈالرس اور کویت نے 422 ملین ڈالرس کے عطیات دیئے ہیں۔ امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے مابین 212بلین ڈالرس کی تجارت ہونی ہے،اس میں 103.6ملین ڈالرز ایکسپورٹ اور 108.5ملین ڈالرس امپورٹ پر شامل ہے۔ صرف سعودی عرب سے
2022 میں 46.6بلین ڈالرس کی تحارت ہوئی ہے۔
ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران ایران سے بھی تعلقات کسی قدر بہتر ہوئے تھے، امکان ہے کہ دوسری میعاد میں یہ تعلقات بگڑ سکتے ہیں۔ٹرمپ نے اگرچہ جنگ ختم کرنے کی بات کہی ہے، تاہم فلسطین کے ساتھ انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی، کیونکہ ان ہی کے دور میں انہوں نے ”معاہدہ ابراہیمی“ کے تحت عرب۔ اسرائیل دوستی کو پروان چڑھایا، اور اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا۔
افغانستان، پاکستان سے تعلقات کیسے رہیں گے آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ ٹرمپ کا دنیا میں آمن پسندی کا نعرہ دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے ؟ دراصل امریکا کے معیشت عرب ممالک سے کھربوں ڈالر کی امداد پر کھڑی ہے ؟
امریکن معاشی صورتحال کو بہتر رکھنے کا دوسرا بڑا زریعہ ہتھیاروں کی فروحت ہے، ہتھیار اس صورت میں فروخت ہونگے جب دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں جنگ جاری رہے” تیسرے امریکی سپر پاور کی بنیاد دہشت پر کھڑی ہے اگر دہشت نہیں ہوگی تو سپر پاور کون سمجھے گا ؟
دراصل دوہرا چوبیس کے انتخابات کے بعد آمریکا اس پوزیشن میں پہنچ گیا ہے جس میں کبھی سوویت یونین ہؤا کرتا تھا ، لیکن ابھی یہ سمجھنا قبل از وقت ہوگا کہ امریکہ اس طرح زوال پذیر ہو جائے گا جس طرح سوویت یونین کے کمیونزم کا سورج غروب ہوا تھا اب یہ نئے منتخب ہوئے والے صدر ٹرمپ کی صلاحیتوں پر منحصر ہے، کیونکہ امریکہ عروج کی اس انتہا پر پہنچ چکا ہے جس کو سنبھالنا بڑی زمہ داری والا کام ہے ،
” فارسی کی ضرب الامثال ہے کہ” “ہرعروج کو زوال اور ہر زوال کو عروج ہے” اسی فلسفے کے تحت قوموں تہذیبوں بلکہ کائنات کی ہر چیز کو عروج و زوال ایک فطری عمل ہے جس میں ہر دور کے اعتبار سے کئی اسباب ؤ عوامل کار فرما ہوتے ہیں انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی ان گنت مثالوں سے بھری پڑی ہے مثلاً
رومن ایمپائر جو تین براعظموں تک پھیلا تھا اس وقت کے شمالی افریقہ کے ایک
معمولی بربر قبائل نے رومن ایمپائر کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی تھی ،
سلطنت عثمانیہ مسلمانوں کے عروج و زوال سے بھری ہوئی داستانیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ،
انگلستان جس کی سرزمیں پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج وہاں سال میں کچھ دن کے لیے سورج طلوع ہوتا ہے ،
بیس ویں صدی میں تاریخ معیشت ، نظریات اور ٹیکنالوجی کو متاثر کرنے والا سوویت یونین جس طرح سے اچانک ایک رات میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو یہ سوچنے اور سمجھنے والوں کے لیے ایک نشانی ہے؟
تو اب امریکا بہادر اپنے عروج کو سنبھال سکتے ہیں تو سنبھال لیں،،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *