ترتیب .نظام الدین
ضلع گھوٹکی جانے کا دوستوں کوبتایا تو کہنے لگے وہ تو “نوگوایریا ” ہے
میں نے انہیں یاد دلایا ہماری تو پیدائش “نوگوایریا” کی ہے, یعنی، ( لائینز ایریا)
، عام طور پر “نوگو ایریا” اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد یا ڈاکوؤں کی پناہگاہ ہوں , حکومتی رٹ قائم نہ ہو عام شہری تو دور کی بات پولیس بھی اس جگہ داخل نہ ہوسکیں یا پھر جس جگہ کسی گروہ یا افراد نے غیر قانونی غیر اخلاقی طور پر قبضہ کر رکھا ہو؟ اسی لیے اس اصطلاح کا استعمال کراچی کی پرتشدد سیاست کے تناظر میں بھی کیا جاتا رہا ہے ، اگر چہ “نو گو ایریا” کے تصور کو اس استعارہ کے طور پر اور سمجھ کر بات کریں تو پاکستان کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں عام شہری کے جانے پر پابندی عائد ہے ؟
انگریزوں کے دور حکومت میں تو “نوگوایریا” عوام کو اپنی اوقات میں رہنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ، اسی لیے انگریزی میں اسے ایک محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا ورنہ؟ اُردو میں تو ممنوعہ علاقے کہا جاتا ہے ؛؛
جہاں داخلہ ممنوع والی لکیریں کھنچی دیواریں نظر آئیں وہ “نوگوایریا” کہلا تے ہیں
دراصل “نوگوایریا” کی
اصطلاح “نو گئیر یا ” سے ہے
جس کی ابتدا منگول زبان سے ہوتی ہے، جس میں ” نو گئی” کا مطلب ہے “کتا” اور ” یریا ” کا مطلب ہے “زمین” یا “علاقہ
“نو گئیر یا ” سے مراد “نوگئی” لوگ ہیں، جو ایک ترک نسلی گروہ جو نوگائی میں رہتا تھا، یہ علاقہ شمالی قفقاز سے روس میں دریائے وولگا تک پھیلا ہوا تھا۔ نوگئی لوگ گولڈن ہارڈ کی اولاد تھے اپنے خانہ بدوش طرز زندگی گھوڑوں کی افزائش اور تیر اندازی میں مہارت کے لیے مشہور تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ، “نوگوایریا ” کی اصطلاح “نوگائی” زبان کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے، جس کا تعلق ترک زبان کے خاندان کی کیپ چک شاخ سے ہے۔آج بھی روس، ترکی اور دنیا کے دیگر حصوں میں نوگائی قوم کی کمیونیٹیز آباد ہیں اور ان کی زبان اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں!!!
ایک جائزہ لیتے ہیں ان قومی شاہراہوں کا جو کراچی کو پاکستان کے دور دراز علاقوں سے جوڑتی ہیں، نمبر ایک (N-25): یہ شاہراہ کراچی، سندھ کو کوئٹہ، بلوچستان سے جوڑتی ہے، حیدرآباد، مورو اور خضدار کے شہروں سے گزرتی ہے۔
نمبردو (N-10): یہ شاہراہ کراچی، سندھ کو گوادر، بلوچستان سے جوڑتی ہے، لسبیلہ اور تربت کے شہروں سے گزرتی ہے۔
نمبر تین ، انڈس ہائی وے (N-55): یہ شاہراہ جامشورو، سندھ کو کوئٹہ، بلوچستان سے جوڑتی ہے، جو سہون، دادو اور خضدار کے شہروں سے گزرتی ہے۔
نمبر چار (M-8) موٹروے: یہ موٹروے کراچی، سندھ کو گوادر، بلوچستان سے جوڑتی ہے، لسبیلہ اور تربت کے شہروں سے گزرتی ہے۔
اسی طرح (RCD) ہائی وے
(علاقائی تعاون برائے ترقی):
یہ شاہراہ کراچی، سندھ کو کوئٹہ، بلوچستان سے جوڑتی ہے، حیدرآباد، مورو اور خضدار کے شہروں سے گزرتی ہے۔
راقم ان شاہراہوں پر بے شمار مرتبہ سفر کرتا رہا ہے اور یہاں
“نو گو ایریا” کی دیواریں کھڑی دیکھیں ہیں ،
یعنی (ممنوعہ علاقہ)
آج کا سفر بھی ایم فائیو موٹر وے کے زریعے ضلع گھوٹکی تھاجو سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر واقع ہے۔ جو قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہے، بڑی بڑی کھاد کی فیکٹریاں کپاس گندم اور چاول کی پیداوار کے لئے مشہور ہے،، یہاں سے گزرنے والے دریائے سندھ کے دونوں اطراف کچے کی زمینے ہیں ،
ان زمینوں پر مختلف سیاسی وڈیروں کا قبضہ ہے ، یہ وڈیرے اپنے مفادات کی خاطر ایک ہیں، آن وڈیروں کا انتظامیہ پولیس بشمول ڈاکوؤں پر اثر رسوخ حاصل ہے ، کچے کے ڈاکو الیکشن والے دن ان وڈیروں کو ووٹ ڈلوانے ، مخالفین ووٹروں اور پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنے کا کام انجام دیتے ہیں ، عام دنوں میں ان وڈیروں کی کچے کی زمینوں کی حفاظت کرتے ہیں،
مجھے گھوٹکی ایک کھاد کی فیکٹری جانا تھا ،
میرے دوستوں نے مشورہ دیا تھا وہاں مٹ جانا جو علاقے “نوگوایریا” ہیں ؟
لیکن “نوگوایریا” کی دلچسپی مجھے وہاں لے گئی جس کو ( کچے) کا علاقہ کہتے ہیں ،
جہاں نیشنل ہائی وے پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ایک بلوچ سردار کا بیٹا قتل ہوگیا تھا میں اس مقام پر بھی گیا ،
یاد رہے نیشل ہائی وے پر ہولیس اور رینجرز ہر وقت موجود رہتی
اس شاہراہِ سے گزر کر مقتول
بلوچ کا باپ قتل کا بدلہ لینے اپنے رضاکاروں کے ساتھ کچے کے علاقے میں پہنچا تھا یہ تمام بلوچ افراد راکٹ لانچرز، مختلف اقسام کے راکٹ، کلاشنکوف، جی تھری رائفلز، اسنائپر رائفلز،
مارٹر گنز بمعہ شیلز، اور MG 34 مشین گنز وغیرہ سے لیس ان میں بہت بڑی تعداد ممنوعہ بور کے اسلحہ کی بھی تھی ؟
اپنے علاقے سے کچے کے علاقے تک آنے میں راستے بھر ہولیس رینجرز کے ناکے اور “نوگوایریا”
یعنی (ممنوعہ علاقہ)کی دیواریں بھی ہیں، ان بلوچ سرداروں نے سندھ میں داخل ہو کر ان ڈاکؤوں پر حملہ کردیا کچھ ڈاکو مارے بھی گئے ڈاکوؤں نے بلوچ سردار کے ساتھ بیٹھ کر جرگہ بھی کیا اور ڈاکوؤں نے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر یقین دلایا انھوں نے سردار کے بیٹے کو نہیں قتل کیا (پھر قتل کس نے کیا؟)
کچھ بااثرافراد بھی اس صلح صفائی میں موجود تھے؟ ڈاکوؤں ، بلوچ سردار، ان کے مسلح رضاکاروں کو کھانا کھلایا گیا، رضاکار رفع حاجت سے فارغ بھی ہوئے ، اور پھر
جرگے کے بعد سردار صاب خراماں خراماں بمعہ اپنے مسلح رضاکاروں کے، ناکے چوکیاں “نوگوایریا” کراس کر کے، وہیں چلے گئے جہاں سے آئے تھے.
اب کوئی بس یہ بتا دے کہ جب ایک پورا مسلح جتھہ اپنا بدلہ لینے اس علاقے میں جا سکتا ہے اور فائرنگ، راکٹ، مارٹر وغیرہ فائیر کرنا شروع کر دیتا ہے، ڈاکوؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرتا ہے، تو ریاست اور پولیس وہاں کیا تماشہ لگائے بیٹھی ہے؟
کیا یہ تماشہ اسی طرح جاری رہے گا یا کوئی فیصلہ کیا جائے گا ؟