تحریر ۔ نظام الدین
(قسط نمبر 2)
محمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں پاکستان کی اپنی فوجی ناکامیوں ، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں ، اور پاکستان کے خلاف نقصان دہ مواد کا انکشاف کیا ہے ، مگر انڈیا پر برائے راست کوئی الزام نہیں لگایا؟ صرف بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھارت کی شمولیت کا مختصر زکر کیا ہے انڈیا کے خلاف کوئی دھماکہ خیز ثبوت حمود الرحمن کمیشن کے پاس کیا نہیں تھا ؟ “جبک” ا حمود الرحمن کمیشن کی خفیہ رپورٹ پاکستان میں پبلیشرز ہونے سے پہلے بھارت سے نشر ہوچکی تھی ؟ اصل غدار وہ کردار ہیں جنہوں نے اس خفیہ رپورٹ کو انڈیا پہنچایا، جن کے چہروں سے نقاب اُٹھانے کا وقت آگیا ہے ؟
عالمی سطح پر انڈین خفیہ ایجنسیوں کا کردار ، تاریخی ریکارڈ بحث کا موضوع بنتا ہے مکتی باہنی ، بنگلہ دیش آزادی پسندوں کو انڈیا کی حمایت ، کا بڑے پیمانے پر اعتراف کیا جاتا ہے, بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کا تاریخ دانوں اور اسکالرز کے درمیان بحث کا موضوع بھی رہتا ہے
پاکستان جنہیں غدار قرار دیتا ہے ، آنڈین ایجنسی را انہیں ہیرو بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے ،
جس میں سب سے پہلا نام تاج الدین احمد کا ہے جو عوامی لیگ کا جنرل سیکرٹری تھا وہ
31 مارچ 1971 کو عوامی لیگ کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ “را” کے ایجنٹ کے ساتھ مشرقی پاکستان کی سرحد پار کرکے کلکتہ پہنچا جہاں اس کی ملاقات آنڈین بارڈر سیکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل ،
کے ایف رستم جی سے کرائی گئی رستم جی اپریل کی صبح تاج الدین کو لے کر ایک فوجی طیارے کے زریعے دہلی پہنچا اسی شام تاج الدین کو انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ان کے دفتر میں ملاقات کرائی گئی جہاں تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست اندرا گاندھی کو دی، فہرست کا مطالعہ کرنے کے بعد اندرا گاندھی نے تاج الدین سے سوال کیا وہ جلا وطنی میں حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ تاج الدین نے کہا ’بنگلہ دیش کی حکومت پہلے سے موجود ہے۔
لیکن اندرا گاندھی نے دلیل دی کہ اس حکومت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان کرانے کے لیے کچھ بڑے کام بین الاقوامی میڈیا کے سامنے کرنا ضروری ہیں ، آپ لوگون کو اپنی پہچان کرانے کے لیے عالمی سطح پر کچھ اہم کام کرنا ہونگے ، جس کی تفصیل وقفہ وقفہ سے آپ لوگوں کو ملتی رہے گی ،
سب سے پہلے آپ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے حکومت بنانے کا حلف اٹھائیں اور وہ بھی مشرقی پاکستان میں اس کام میں حکومت تمہارے ساتھ مکمل تعاون کرئے گی ، اندرا گاندھی نے وہاں موجود افسران بالخصوص رستم جی سے کہا کہ وہ تاج الدین احمد کو ہرقسم کی مکمل مدد فراہم کریں ، اسی رات دہلی میں تاج الدین احمد نے ایک تقریر ریکارڈ کی۔
11 اپریل 1971 کو یہ تقریر بی ایس ایف کی طرف سے آزاد بنگالی وائرلیس سینٹر سے نشر ہوئی جس میں تاج الدین نے بتایا کہ ایک طاقتور فوج بنائی جاچکی ہے ،جس میں ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہی شامل ہیں ،
9 اپریل کو تاج الدین کلکتہ واپس آیا جہاں بنگال سے آئے عوامی لیگ کے رہنماؤں کو ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا
ان کی تعداد 50 کے قریب تھی یہاں ایک میٹنگ میں۔ ملک کے نام “بنگلہ دیش” پر اتفاق رائے ہوا ، عبوری حکومت کے لیے صدارتی نظام کا انتخاب کیاگیا ،
اسی میٹنگ میں ملک کے قومی ترانے ٹیگور کے گیت پر اتفاق ہوا اور بنگلہ دیش کے نام کو عالمی سطح پر اوجاگر کرنے کے لیے کچھ فیصلے ہوئے ،
تاج الدین اسی دن بی ایس ایف کی طرف سے فراہم کردہ ڈکوٹا فلائٹ میں میگھالیہ پہنچا وہاں عوامی لیگ کے رہنما سید نذر الاسلام سے ملاقات کی تاکہ ان کو جلاوطن حکومت کا قائم مقام صدر بننے پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ عوامی لیگ کے دیگر سینئر رہنماؤں کو ڈھونڈنے کے لیے کئی مہاجر کیمپوں میں گیا اور حلف برداری کی تقریب کی دعوت دی،
حلف برداری کی تقریب کے لیے آس جگ کا انتخاب کیا جو مکتی باہنی کے زیر کنٹرول تھی
یہ جگہ مغربی بنگال کا ایک ضلع تھا جو مہر پور شہر کے قریب بیدیا ناتھل میں گھنے جنگلات کے درمیان میں واقع تھی ، “منش گھوش” بارڈر سکیورٹی فورس کے افسر نے 16 اپریل کی شام کو کلکتہ میں موجود تمام غیر ملکی صحافیوں سے رابطہ کیا اور انہیں 17 اپریل کی صبح 4 بجے کلکتہ پریس کلب میں جمع ہونے کو کہا۔ حلف برداری کی تقریب کے لیے غیر ملکی صحافیوں کو بتایا گیا کہ انھیں ایک خاص خبر کے لیے کسی نامعلوم مقام پر لے جایا جائے گا۔
تقریباً 200 صحافیوں کو حلف برداری کی تقریب میں لے جانے کے لیے 60 کاروں کی ضرورت تھی۔ رستم جی نے اس مقصد کے لیے گولوک مجمدار جو ایک “ایجنٹ” تھا اس کی مدد سے ایک ٹرانسپورٹ نہار چکرورتی سے ایک دن کے لیے ڈرائیوروں سمیت 60 کاروں کا بندوبست کیا یہ کاریں صبح 4 بجے اپنی منزل کے لیے روانہ ہوئیں۔ رستم جی اور مجمدار کی گاڑیوں کے بالکل پیچھے عوامی لیگ کے ان رہنماؤں کی کاریں تھیں جو حلف اٹھانے والے تھے۔
جب موٹروں کا قافلہ 11 بجے وہاں پہنچا تو بی ایس ایف کے جوانوں نے وہاں پوزیشنیں سنبھال لی تھیں۔
اینٹی ائیر کرافٹ گنیں نصب تھیں اور انڈین فضائیہ کے طیارے آسمان میں چکر لگا رہے تھے۔ خدشہ تھا کہ پاکستانی طیارے اس جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ یہ جگہ انڈین سرحد سے چند سو گز کے فاصلے پر تھی۔ جب غیر ملکی صحافی وہاں اترے تو ان کو سمجھ نہیں آئی کہ انھیں اتنی دور کیوں لایا گیا؟‘ وہاں ایک طرف خاکی وردیوں میں ملبوس مشرقی پاکستان رائفلز کا ایک دستہ گارڈ آف آنر دینے کی مشق کر رہا تھا۔ دوسرے طرف کچھ لوگ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ گانے کی مشق کر رہے تھے۔ بیٹری سے چلنے والا ساؤنڈ سسٹم لگایا گیا تھا، لکڑی کا ایک عارضی چبوترہ بنایا کر آٹھ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ بانس کی مدد سے بنگلہ دیش کے جھنڈے لگانے گئے تھے ، رستم جی اور گولوک انڈین سرحد کے اندر ہی رہے۔
نذر الاسلام سے پہلے پروفیسر یوسف علی نے عہدے کا حلف لیا ۔اس کے بعد نذر اسلام نے تاج الدین احمد اور دیگر وزراء سے حلف لیا۔ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ گایا گیا اور قومی پرچم لہرایا گیا۔ اس کے بعد دینج پور سے عوامی لیگ کے رکن قومی اسمبلی پروفیسر یوسف علی نے سٹیج سنبھالا اور اعلانِ آزادی پڑھنا شروع کیا۔ جلاوطنی میں کام کرنے والی بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے یہ پہلا اعلان تھا۔ بیدیا ناتھ تال کا نام بدل کر ’مجیب نگر‘ رکھا گیا۔ اس وقت وہاں تقریباً 10000 لوگ موجود تھے۔ انھوں نے ایک آواز سے ’جوئے بنگلہ‘ کا نعرہ بلند کیا۔حلف لینے کے بعد تمام وزرا شام 6.30 بجے کلکتہ واپس لوٹ گئے۔ وزیروں اور ان کے اہل خانہ کو کلکتہ میں مختلف جگہوں پر رہنے کے لیے مکانات دیے گئے۔ 25 اپریل کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر کے ذریعے کلکتہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں تک مسلسل نشریات پہنچائی جاتی رہیں ،
جسٹس ابو سعید چودھری کو مجیب نگر حکومت کا خصوصی ایلچی بنایا گیا اور انہیں بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے لیے بین الاقوامی امداد اور ہمدردیاں حاصل کرنے کی زمہ داری سونپی گئی ،
رستم جی اور گولوک مجمدار کلکتہ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کے بنگالی ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو وفاداری بدلنے کی مہم میں مصروف رہے اور پھر تاج الدین کی حسین علی پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن اور
ریزرو بینک کے گورنر سے ملاقات کرائی 17 اپریل کو کلکتہ کے امریکن بینک میں ڈپٹی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ سے تین کروڑ روپے نکال کر اسٹیٹ بینک کی چورنگی برانچ میں جمع کرائے گئے۔
دو دن بعد ڈپٹی ہائی کمشنر کا نئے بنگلہ دیش کے نام پر اکاؤنٹ کھولا گیا۔ حکومت پاکستان کو آس کاروائی کا علم ہوچکا تھا اس لیے حسین علی ڈپٹی ہائی کمیشن اور بنگالی عملے کو اسلام آباد 18 اپریل کو طلب کرلیا ؟ لیکن 18 اپریل کو عالمی میڈیا کے سامنے حسین علی اپنی بیوی اور 65 بنگالی ملازمین کے ساتھ ہائی کمیشن کی بلڈنگ کی چھت پر آیا ’جوئے بنگلہ‘ کا نعرہ لگایا اور پاکستانی پرچم اوتار کر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا یہ پہلا موقع تھا جب کسی بیرونی سرزمین پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس طرح پاکستان کا ڈپٹی ہائی کمیشن تاج الدین حکومت کا پہلا دفتر خارجہ بن گیا۔
آس کے بعد انڈیا پاکستان کے خلاف مسلسل اس طرح کی کارروائیاں کرتا رہا ،
( جاری ہے)