ترتیب .نظام الدین
دنیا کی گمشدہ تہزیبوں، زبانوں پرانی روایتوں رسموں کے وقار اور احترام کو اصل صورت میں بحال رکھنے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر ایک دن منایا جاتا ہے جسے انگریزی میں “ڈے” کہتے ہیں، مثلا “
فادر ڈے ، مدرڈے ، لیبر ڈے،
ان دنوں کو منانے کا مقصد ماضی میں ہونے والے واقعات کو یاد رکھنا اور اس سے جڑے رہنا ہے ، ان میں ایک دن مادری زبانوں کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے مادری زبان کا تعلق بچے کا مان کی آغوش میں سنے والی لوریوں اور گھر میں ابتدائی چیزوں کے ناموں سے جڑا ہوتا ہے ، یہ دن 21 فروری کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس کی نسبت 21 فروری 1952 کے ایک واقعہ سے ہے جب مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی مادری زبان کی جگہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا جس پر بنگال میں فسادات کے دوران دفعہ 144 کے باوجود ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا جس پر پولیس نے گولی چلا دی اس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے ۔ مگر پھر چار سال بعد بنگالی زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن؟ اس کے 19 سال بعد پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا اس طرح 21 فروری کو بنگلہ دیش میں یوم شہدا منایا جانے لگا اور پھر کچھ بنگالی دانشوروں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو بنگلہ زبان کو اجاگر کرنے کے لیے خط لکھے جس پر یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا اور 2010 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مادری زبانوں کے عالمی دن کو منانے کی منظوری دے دی ،،، تب” سے “اردو” کا بھی دن دنیا بھر میں فارسی کے شاعر علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش 9 نومبر پر منایا جائے لگا
“اسی طرح” اردو ادب کی ایک عالمی کانفرنس دسمبر میں پاکستان کے شہر کراچی کے آرٹ کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقد کی جاتی ہے،
2024 کو 17 ویں اُردو اَدب کی کانفرنس 5 دسمبر کو شروع ہوئی جو 8 تاریخ تک جاری رہی ،
راقم” جب آرٹ کونسل پہنچا تو وہ ہی رنگارنگ فیشن شو اور پرانے چہرے جو ہر سال اس کانفرنس میں نظر آتے ہیں ان میں سے تو اکثریت خوشامدی ٹولے کی ہوتی ہے جس میں بہت
سے تو کسی بھی قسم کے فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے سے تعلق تک نہیں رکھتے ؟ اور احمد شاہ آرٹ کونسل کے وہ بادشاہ ہیں جو دل کھول کر اپنوں میں ریوڈییاں بانٹتے ہیں ؟ جبکہ” بہت سے بے لوث ادبی طور پر مستحکم صاحب فنکار، اُردو دان اور سائنسدانوں کو نظر انداز،کیا جاتا ہے ؟ جبکہ ” سائنسی ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایسے نئے الفاظوں کو جنم دیا ہے جن کو اردو نے اپنا بنالیا یا اپنے مزاج کے سانچے میں ڈھال لیا ہے ، اسے اُردو آئے گئے الفاظ کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے ان میں سے کچھ تو پہنچانے جاتے ہیں اور کچھ بالکل اجنبی معلوم ہوتے ہیں ، ان اردوائے گئے الفاظوں کا ایک الگ سبجیکٹ ہے ” جسے دماغ اپنے مشاہدے سے اور کچھ مطالعے سے حاصل کرتا ہے ، دراصل سائنس دانوں نے جب دماغ پر تحقیق کی تو معلوم ہوا انسانی دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں جس میں بایاں حصہ زبانوں کو سمجھنے اور بولنے میں کام آتا ہے اور شعوری سوچ کو بیدار کرتاہے ، دیایاں حصہ شعور تو رکھتا ہے مگر اس میں بولنے کی پراسیسنگ نہیں ہوتی دیایاں دماغ کا حصہ بائیں حصے سے مواصالت قائم تو کرتا ہے لیکن دائیں حصے کی ہر سوچ بائیں حصے تک نہیں پہنچ پاتی ؟ اور اگر کبھی اتفاق سے کسی انسان کے دائیں حصے کی سوچ بائیں حصے تک پہنچ جاتی ہے تو اس انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اچانک کسی مسئلے کا نیا حل نکل آیا ہے آگر چہ دیاں حصہ بولنے پر قادر نہیں رکھتا لیکن لکھتے وقت دائیں اور بائیں حصے کی مواصالت بہتر ہو جاتی ہیں یہ ہی وجہ ہے شاعر ، ادیب ، یا سائنس دان عام انسانوں کی نسبت نئی سوچ یا کسی نئی تخلیق کے زیادہ قابل اور موجد ہوتے ہیں ،، لکھنے والوں کے لیے نئے خیالات کی آمد یا انسپریشن بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے ک عموماً دائیں حصے کے خیالات سے عام انسان آگاہ نہیں ہو پاتا ، لیکن لکھتے وقت دائیں اور بائیں حصے کی مواصالت بڑھ جاتی ہے جس وجہ سے انسان کے دماغ میں نئے خیالات آنے لگتے ہیں ، اور اسی طرح زبانوں میں ارتقاء کا عمل بھی جاری رہتا ہے ، یہ ہی وجہ ہے آج دنیا بھر میں سات ہزار بولی جانے والی زبانوں کو دس بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں زبانوں کا سب سے بڑا خاندان انگریزی ،اردو، ہندی ، بنگالی ، پنجابی ، فارسی ، سنسکرت اور لاطینی زبانیں شامل ہیں۔ گو عربی زبان کا تعلق دوسرے خاندان سے ہے لیکن اردو اور فارسی سے اس کی دور کی رشتے داری بنتی ہے۔ زبانوں کے دوسرے بڑے خاندان میں چین کی مندری ، آسام، تبت ، اور برما کی زبانیں ہیں جن کا لہجہ ایک جیسا ہے۔ زبانوں کے تیسرے خاندان میں آرامی ، اسیری ، سمیری ، اکادمی اور کنعانی زبانیں شامل ہیں جن میں اب عربی اور عبرانی مشہور ہیں۔ بارویں سے تیرویں صدی میں مغلیہ دور تک برصغیر میں مغربی ایشیاء سے آنے والے لشکروں اور صوفیوں کے باعث عربی ، فارسی ، ترکی اور ہندی کے مرکب سے اردو زبان تشکیل پائی جس میں اب انگریزی طرز کی سائنسی زبان بھی شامل ہو چکی ہے۔ اسی طرح زبان کے درجنوں لہجے ہوتے ہیں اور کئی زبانوں سے مل کر کوئی نئی زبان بھی تخلیق پا جاتی ہے ، مختلف قوموں اور برادریوں کے الگ الگ لہجوں سے الفاظ تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں نقل مکانی سے بھی مادری زبان تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہٹلر کے ظلم سے امریکہ برطانیہ میں نقل مکانی کرنے والے جرمنوں کی مادری زبان جرمنی کی بجائے اب انگریزی ہے۔ برطانیہ میں دنیا کی 300 زبانیں بولی جاتی ہیں امریکہ کی 32 کروڑ آبادی میں سے صرف چھ کروڑ انگریزی بولتے ہیں باقی لوگ دوسری زبانیں بولتے ہیں جن میں اکثریت ہسپانوی زبان کی ہے۔ امریکہ کے اندر جنوبی ہند کی زبانیں ہندی ، اردو ، گجراتی ، تیلگو ، بنگالی ، تامل ، عربی ، چینی اور ہیٹی بھی بولی جاتی ہیں ۔ اور اب تو دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے مارکیٹیں نیشنل سے انٹرنیشنل ہو چکی ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ لشکری زبان کے اندر انگریزی طرز کی سائنسی زبان کو عالمی سطح پر پھیلاﺅ میں زبان کے معیار کا تعین کون کرے گا؟ اور کیسے ہوگا؟ جبکہ تحریری سطح پر کیا ادیب اور شاعر نئے معیار کا تعین کریں گے؟ کیا یہاں سائنسدانوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ ۔ کیونکہ زبان میں تبدیلی کا یہ عمل صرف اردو تک محدود نہیں ہے ، بلکہ خود انگریزی بھی جدید سائنسی ایجادات سے متاثر ہورہی ہے ، اور یہ ہی وجہ ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک میں سائنسی تحریریں آسان انگریزی میں سائنسدانوں سے لکھوا کر بچوں کو پڑھائی جا رہی ہیں، ۔پاکستان میں بھی اس حوالے سے پیش قدمی کی فوری ضرورت ہے، ورنہ بقول شخصے غالب، اقبال اور فیض جیسے مشاہیر کی کتابیں بھی آثار قدیمہ کی زینت بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی،