ترتیب ; نظام الدین
یوں تو اکثر میں شاہراہِ فیصل سے گزرتا ہوں۔لیکن آج 23مئی 2020 کو میری منزل وہ مقام ہے جہاں ایک دن پہلے یعنی 22مئی کو
( پی۔ آئی ۔ اے ۔) کے
جہاز 8303 کو افسوسناک حادثہ پیش آیا تھا وہاں میرے دوست میرا انتظار کررہے تھے ۔
شاہراہ فیصل کے آج کے اس سفر میں مجھے یہ بلند بالا عمارتیں بہت کچھ سوچنے اور تحریر کرنے پر مجبور کررہی ہیں
آج مجھے ائیرپورٹ کے اردگرد بنی یہ عمارتیں کبھی اتنی پراسرار محسوس نہیں ہوئیں جتنی آج لگ رہی ہیں ۔
جب میں ائیرپورٹ کی قریب پہنچا تو مجھے بلکل سامنے کئی منزلہ عمارتیں قطار میں کھڑی نظر آئیں .
ایک طرف ائیرپورٹ اور ایک طرف یہ عمارتیں.
زرا انکے مالکان کا پتہ تو کیجے ان کے مالکان کون ہیں؟
پھر کینٹ کی طرف جاتے ہوئے رن وے کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک پر سے گزراتو سڑک کے ایک طرف رن وے ہے دوسرے کنارے گھر اور عمارتیں ہی نہیں، شادی ہال، ریسٹورینٹ، پیٹرول پمپ، پرائمری اسکول اور زیر تعمیر شاپنگ مال و پلازوں کے پروجیکٹس دکھائی دیے ۔
آج جب ان کے درمیان سے گزرا تو ا ایسا محسوس ہوا کہ جہاز ہماری گاڑی کے اوپر سے گزرکر ان عمارتوں سے رگڑ جائے گا.
کیونکہ یہی لینڈنگ پوائنٹ ہے جہاں لینڈنگ کی کوشش میں حادثہ ہوا ہے. یہاں جہاز کی اونچائی کا فاصلہ اتنا کم رہ جاتا ہے کہ اگر کوئی خدانخواستہ تخریب کاری کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا
اب زرا پتہ تو کیجیے کہ رن وے کے کنارے موجود یہ مال کس مائی کے لال کا ہے؟
پھر اسی رن وے کے ساتھ ساتھ ہائی وے کی طرف جانے کے لیے اور آگے بڑھو تو رن وے کی کشادگی کو گولف کلب فضائیہ کی رہائشی کالونیوں اور نت نئی عمارتوں نے گھیرا ہوا ہے.
یہاں تک کہ آپ ہائی وے پر پہنچ جائیں.
اگر یہ مال سندھ حکومت کا ہے تو سندھ حکومت سے جواب طلب کیا جائے ؛
اگر یہ مال کسی مائی کے لال کا ہے تو اس سے
؛اب؛ نہیں تو کب؛
جواب طلب کیا جائے گا ؟؟؟
کراچی ائیرپورٹ کی لوکیشن پر زراغور کریں: تو ایسا محسوس ہوگا کہ کنویں کے بیچ ایک زمین ہے جہاں ہزاروں لاکھوں افراد روزانہ جہازوں میں بیٹھ کرموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں ۔۔
کیا ان عمارتوں کی تعمیر
کی اجازت دیتے وقت
سول ایوی ایشن کے حکام نے قوانین پر عملدرامد کا جائزہ لیا تھا ؟
کیا این او سی جاری کی گی؟
اگر نہیں تو یہ عمارتیں
کس کی اجازت اور اتنی اونچائی پر کیوں تعمیر
کی گئین ؟
سول ایوی ایشن کے قوانین کے مطابق کسی بھی ہوائی اڈے کے پنررہ کلو میٹر کے فاصلے میں تعمیر کے لیے سول ایوی ایشن سے این او سی لینا لازمی ہے ۔
جبکہ نیشنل ائیرفیلڈ پالیشی کے مطابق رن وے کے 900میٹر کے علاقے میں تو کسی قسم کی بھی تعمیر کی اجازت نہیں صرف ایئرپورٹ کی عمارات جیسا کہ واچ ٹاوَر وغیرہ ۔
اسکے بعد بیرونی عمودی سطح ہوتی ہے جس میں رن وے کے ریفرنس پوائنٹ سے 1500 میٹر اور 50 ہزار فٹ کے علاقے کو ایک مخرطی حساب سے خالی ہونا چاہیے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔
اس طرح کسی بھی انٹرنیشنل ائرپورٹ کے بارے میں عالمی قوانین موجود ہیں جسے گوگل پر سرچ کیا جاسکتاہے،
کیا ان قوانین پر عمل کیا گیا ؟
؛ بہرحال؛ جب میں اپنے دوست رفیق خان کے پاش پہنچا جو حادثے کے مقام سے کچھ فاصلے پر رہتے ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس وقت مسجد میں نماز پڑھ کر باہر آرہے تھا جب لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا جہاز آرہا ہے میں نے اس طرف دیکھا جہاز زمین سے آدھا کلو میئر اوپر ہوگا وہ ایک دم کہی گھروں کے اوپر آکر’ گرا؛ جو کاظم آباد کی آخری گلی اور بلال مسجد کی پہلی گلی ہے۔ اس کے بعد ہم سب علاقے کےلوگ امدادی کاموں میں مصروف ہوگے ۔
اس طرح وہاں دیگر دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی سب نے اپنے اپنے غمون کو بیان کیا یہ ایک لمبی داستان ہے جو پھر کبھی کے لیے چھوڑ دیتا ہوں
اس وقت صرف ہوائی حادثے پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتاہے ان میں کچھ حادثات وقوع پذير ہونے کے بعد پراسرار نوعیت اختیار اس وقت کرجاتے ہیں؛
جب حادثے کی تحقیقات اکثر ایک موڑپرآکررک جاتی ہے ۔ماہرین یہ تو معلوم کرلیتے ہیں کہ ،کیا، ہوا تھا؛ مگر ،کیون،ہوا؟ اس پر کسی ایک فرد کو موردالزام ٹھہراکر کمزور کرپٹ سسٹم کی پردہ پوشی کردی جاتی ہے ۔اور اس طرح کے حادثات کو بھی عام واقعہ سمجھ کر وقت کے ساتھ فائلوں میں دبادیا جاتاہے اس کی تحقیقاتی رپورٹ سے قوم کو آگاه کیا جاتاہے نہ ہی منتخب ایوانوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ نتیجے میں اس طرح کے حادثات؛ و ؛واقعات سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدامات ممکن نہیں ہوپاتے ،
کہنے کو ۔اے 21- 320- کمرشل ائیر کرافٹ ؛
انجن کے فیل ہونے کی صورت میں پائلٹ کے پاش دوممکنہ آپشن ہوتے ہیں RATکوڈیپلائی کیا جائے یا پھر گلائیڑنگ کے سہارے سے جہاز کو لینڈ کرایا جاسکے RAT کافی حد تک انرجی فراہم کرتا ہے جس سے اس امکان میں اضافہ ہوجاتاہے کہ سیفلی لینڈ کرجائےگا؛
اس طرح کے جہاز جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوتے ہیں اس لیے اس جہاز میں ایک وقت میں تین چار بڑے مسائل کا پیدا ہوجانا بہت الارمنگ صورت حال ہوتی ہے ۔
بیلی لینڈنگ یا کریش لینڈنگ زیادہ تر اس وقت ہی کی جاتی ہے جب جہاز کےلینڈنگ گیئرزپھنس گئے ہوں جس پر پائلٹ گو اراؤنڈ کرتا ہے۔۔
،، متبادل،، ٹیکنیکس سے انہیں کھولنے کی کوشش کرتا ہے اگر وہ نہ کھلیں تو وہ جہاز کا فیول جلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جہاز کا وزن بھی کم ہوسکے اور کریش لینڈنگ کے وقت آگ لگنے سے کم سے کم نقصان ہو۔۔
کریش لینڈنگ بذات خود ایک
بڑاحادثہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں جہاز کےستر فیصد سے بھی زائد حصے کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔۔
لیکن کراچی کے اس حادثہ سے پہلے ہونے والی
پائلٹ اور ٹاور کی دستیاب بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پائلٹ کو گو اراؤنڈ کا موقع ہی نہیں ملا وہ پہلے ہی دوہزار فٹ کی بلندی سے بھی نیچے آچکا تھا۔۔ ساتھ ہی اس نے دونوں انجن کے ختم ہوجانے کا پیغام بھی دیا ۔۔ لینڈنگ گئیرز کے ساتھ دونوں انجن کا سیز ہوجانا حیران کن معاملہ ہے۔۔
انجن کے فیل ہونے کی بڑی وجوہات میں ایک پرندے کا اس کے اندر چلے جانا ہوتا ہے، لیکن یہاں کوئی ایسی اطلاع نہیں ۔ پھر بیک وقت دونوں انجن سے پرندے کیسے ٹکرا سکتے ہیں ؟
لیکن ایک آدھ پرندے کے ٹکراجانے سے بھی انجن بالکل فیل نہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ اسکے بلیڈ ٹوٹ جاتے ہیں ۔۔
پھر ایک وجہ انجن میں آگ لگنے کی ہوسکتی ہے۔۔ لیکن آگ بھی عمومی طور پر ایک انجن میں لگتی ہے۔۔ ساتھ ہی کاک پٹ میں بھیانک قسم کا الارم بجتا ہے، ایک وارننگ جنریٹ ہوتی ہے پائلٹ اسی وقت فائر ہینڈل کھینچتا ہے جس سے آگ بجھانے والے آلات اپنا کام شروع کردیتے ہیں اور انجن میں چھوٹی موٹی آگ بجھ جاتی ہے،، فیول کی سپلائی اس خراب انجن کو رک جاتی ہے۔ انجن ایک دوسرے سے مکمل آزاد ہوجاتے ہیں۔ دوسرا انجن کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہاں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا ۔۔
پھر ایک وجہ انجن کو فیول کی سپلائی کا معطل ہوجانا ہے ۔۔
لیکن ماڈرن جہازوں میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہاز میں تین فیول ٹینکس تھے۔ جس سے بیک وقت دونوں انجن کو بلاتعطل فیول سپلائی جارہی تھی۔ اگر کسی ٹینک یا پرزے مین کوئی مسئلہ آبھی جائے تو کراس فیڈ کے ذریعے ایک فیول ٹینک دونوں انجن کو اپنی سپلائی پہنچا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے خراب تیل آجائے تو لائن میں لگے ہوئے فیول فلٹرز اسے فلٹر کرکے آگے بھیجتے ہیں اگر مقررہ معیاد سے بڑھ جائے تو یہ کلاگ بند ہوجاتے ہیں۔ پھر متبادل سورس سے سپلائی ملتی رہتی ہے۔۔
لیکن یہاں یہ تمام امکانات بھی معدوم نظر آرہے ہیں
پائلٹ نے آخری حربے کے طور پر گلائیڈ کی کوشش کی لیکن چونکہ اسکے جہاز کے انجن لینڈنگ کے دوران کم بلندی پر بند ہوگئے تھے اس لیئے گلائیڈ کے دوران یہ مزید نیچے آتا گیا اور ایک تین منزلہ عمارت کے ٹاور سے ٹکرا گیا۔۔
اس کا ایک پہلو سوچنے:
کا یہ بھی؛ بنتا ؛ہے کہ یہ کوئی جدیدٹیکنالوجی کے زریعے
؛خفیہ؛ تخريب کاری :
ہوسکتی ہے ؛
جہاز میں اتنی ساری خرابياں ایک ساتھ ہونا ممکن نہیں ۔
ہوسکتا ہے اس کے پیچھے کچھ لوگوں کا ہاتھ ہو؟
لینڈنگ گیئر خراب ۔
دونوں انجن خراب ۔
مسافروں کے ساتھ
سول آبادی پر
جہاز کا گرنا ۔
کررونا کی وجہ سے لمبے عرصےتک جہاز کا *گرونڈ پر
رہنے کے بعد;
رمضان کی 27تاریخ!;
اسلامی حساب سے پاکستان کی آزادی کا دن۔.
یہ وہ عوامل ہیں جن سے دماغ میں منفی خیالات آرہے ہیں ۔۔
جہاز کی تبائی سے سرمائے کے نقصان کے ساتھ انسانی ہلاکتیں دشمن کا مقصد یہ ہی ہوتاہے ؛؛
جبکہ ماضی میں کراچی ائیرپوٹ سے جہاز اغواه اور تخریب کاری بھی ہوچکی ہے!؛
یہ معلوم کرنا کہ یہ حادثہ ہے
یا تخريب کاری اس کے لیے اب سب سے اہم جہاز کا ۔
الیکٹرونک فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈر (یعنی) بلیک باکس ہے۔ جس کا مقصد یہ معلوم کرناہے کہ حادثہ کس وجہ سے پیش آیا ہر ہوائی حادثے کی مکمل تحقیقات بلیک باکس کی مدد سے کی جاتی ہے
یہ دو حِصوں پر مُشتمل ہوتا ہے ایک حِصے کو فلائیٹ ڈیٹا ریکارڈر FDR اور دُوسرے حِصے کو کاک پِٹ ووئیس ریکارڈر یا CVR کہا جاتا ہے ۔ بلیک باکس کِسی بھی کمرشل ، نجی یا فائیٹر طیارے میں لازماً نصب ہوتا ہے اور عُموماً جہاز کی ٹیل میں یا ٹیل کے قریب نصب کِیا جاتا ہے ۔ ایف ڈی آر حِصہ ہوا میں یعنی دورانِ پرواز طیارے کی آگے بڑھنے کی رفتار ، اُس کی بُلندی ، ہوا کی رفتار ، درجہ حرارت ، فیول لیول ، آٹو پائلٹ اسٹیٹس سمیت دیگر بہت سارے پہلوؤں اور عوامل کو نوٹ کرتا ہے ۔ ماڈرن ایف ڈی آر سیکڑوں پیرامیٹرز کو اپنے پاس ریکارڈ کرتے ہیں اور یہ ریکارڈنگ کم از کم پچیس گھنٹوں کا بیک اَپ رکھتی ہے ۔
۔ آج کل کے ڈیجیٹل ریکارڈرز کاک پِٹ کی دو گھنٹوں کی گفتگو ریکارڈ کرتے ہیں اور یہ اُس کے بعد اوور رائیٹ ہوجاتی ہے ۔ اِس ریکارڈنگ میں طیارے کے اندر ہونے والی گفتگو ، بیک گراؤنڈ آوازوں سمیت کریو کا آپس میں انٹریکشن اور طیارے کی کنٹرول ٹاور سے ہونے والی بات چِیت وغیرہ ریکارڈ ہوتی رہتی ہے ۔ ۔
بلیک باکسز ٹائٹینئیم یا سٹین لیس سٹیل جیسی دھاتوں کی دوہری تہوں میں محفوظ ہوتے ہیں ۔ اِن کو طیاروں میں نصب کرنے سے قبل کریش ٹیسٹ کِیا جاتا ہے کہ یہ کِتنے دباؤ اور حادثے کی شدد
کو برداشت کرسکتے ہیں ۔
آگ میں جلنے کی صُورت میں یہ گیارہ سو ڈگریز تک درجہ حرارت کو ایک گھنٹے سے زائد وقت کے لیے برداشت کر سکتے ہیں جبکہ پانی میں گِرنے کی صُورت میں چھ ہزار میٹر گہرے پانی کا دباؤ بھی برداشت کرسکتے ہیں ۔ گہرے سمندر میں اگر بلیک باکس ڈُھونڈنا پڑے تو اِن کے ساتھ ایک ڈیوائس بِیکن لوکیشن لوکیٹر نصب ہوتی ہے جو بیس ہزار فِیٹ یا چار کلومیٹر گہرے پانی تک بخوبی کام کرتی ہے اور ہر سیکنڈ میں ایک بار پِنگ ساؤنڈ بمعہ لوکیشن دیتی ہے اور اِس کی بیٹری 30 دِن سے لے کر 90 دِن تک کام کرسکتی ہے ۔
بلیک باکس کی تفتیش عُموماً وُہی کمپنیز کرتی ہیں جِن کا طیارہ ہوتا ہے جیسے ائیربس کے بلیک باکس کو ائیربس کمپنی تفتیش کرے گی۔
اس لیے کوئی کمپنی اپنے تیار کردہ جہاز کی کسی فننی خرابی کی زمیہ داری نہیں لیتی
بدقسمتی سے ہمارے تفتیشی ادارے ائیربس کمپنی کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرسکیں گے ۔
جبکہ دنیا ایسے حادثات سے سبق حاصل کرتی ہے کیونکہ ایسی غلطیوں کی دوباره گنجائش نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں تو ہر شعبہ غلطیوں اور بدنظمی کا شکار ہے زمینی سفر سے لیکر ہوائی سفر تک محفوظ نہیں ہے شہروں میں ہر روز درجنوں افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک اور زخمی ہوجاتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی یہاں ٹریفک کے قواعدوضووابط تک نافذ نہیں ہوپارہے ۔مقتررحضرات چونکہ خود مکمل پروٹوکول کے درمیان محفوظ راستہ بنا کرگزرتےہیں اس لیے انہیں عوام الناس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیئے۔۔