(ترتیب)
(نظام الدین)
1990 کی دہائی کراچی برگیڈ پولیس اسٹیشن میں تعینات
“ایس ایچ او” چھودری عبدل لطیف جو اس وقت اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے مشہور تھے صبح صبح پریس کانفرنس میں؟ انکشاف کر رہے ہیں کہ میں اپنی پولیس پارٹی کے ساتھ جٹ لائن معمول کے گشت پر تھا کہ مراد پریڈی جو پولیس کو اقدام قتل اور دیگر جرائم میں ملوث تھا رکھنے کے لیے کہا تو اس نے پولیس پر فائرنگ کردی جس کی فائرنگ سے ایم کیو ایم کا کامران ہلاک ہوگیا؟ اور پولیس کی جوابی فائرنگ سے مراد پریڈی بھی مارا گیا؟
یہ وہ دن تھا جب صبح کے اخبارات کی خبروں میں مراد پریڈی کے ساتھ کامران اور ایاز کے قتل کو ایک سیاسی تنظیم کے دو گروپوں “چاچا منصور” اور “جاوید لنگڑے ” کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کا زمہ دار قرار دیا گیا تھا؟
جبک” دوپہر کے اخبارات اور خصوصی ضمیمے میں مراد پریڈی کے پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے کی خبر لگی تھی ؟ مراد پریڈی کا جنازہ محمود آباد جبک کامران اور ایاز کا لائینز ایریا سے اٹھایا گیا تھا ، مراد پریڈی خود ایک رٹائرڈ پولیس سب انسپکٹر عبدل رسول خان زادہ کا بیٹا تھا اور وہ چھودری عبدل لطیف کا دوست بھی تھا،، مراد پریڈی کا پولیس کے ہاتھوں ہلاکت قرار دینا پولیس پر ایک سیاہ داغ تو لگا ہی ؟ مگر پولیس کی اندرونی کمزوریوں خامیوں کی وجہ بھی بنا، اور کراچی کا کریمنل جسٹس سسٹم ہی برباد ہو کر رہے گیا ،
اور پھر سیاسی جماعتوں کی پائپ لائن میں مختلف جرائم پیشہ مافیاز نے اپنا راستہ بنالیا جس کے نتیجے میں پولیس فورس کے اندر وسیع پیمانے پر بدعنوانی نے مؤثر قانون کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالنا شروع کر دی جس نے مجرمانہ سرگرمیوں کو ہوا دی ۔ گینگ وار: حریف گروہوں اور شہر کے انڈرورلڈ پر کنٹرول کے لیے کوشاں دھڑوں کے درمیان جھڑپیں پرتشدد تصادم کا باعث بنیں۔
90 کی دہائی تک انتظامی لحاظ سے کراچی کے شرقی ضلع کی گنجان آباد بستی لائینز ایریا ہمیشہ ہی کم آمدنی والے محنت کش طبقے کا علاقہ رہی ہے یہاں وہ محلہ بھی تھا جہاں ایک تنگ گلی میں جاوید لنگڑے نے اپنا بچپن گزارا، انٹر تک تعلیم حاصل کرنے والا جاوید لنگڑا حیرت انگیز طور پر مہاجر قومی موومنٹ کی سیاست کے افق پر ابھر کر بلدیہ شرقی کی مخصوص نشست پر کونسلر منتخب ہو کر اسٹیبلشمنٹ ، قانون اور مالیات کا چیرمین مقرر ہوگیا تھا ؟
گیارہ سال طول مارشل لاء کے بعد 2 دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت قائم ہوچکی تھی ، مارشل لا کے اثرات معاشرے میں پوری طرح موجود تھے۔ اسلحہ بے انتہا عام ہو چکا تھا۔ مسلح جتھّوں اور تنظیموں کی سرکاری سرپرستی کی وجہ سے طلبا سیاست کے ساتھ علاقائی سطح پر بھی تشدد کے رجحانات فروغ پا چکے تھے۔
ذرا ذرا سی بات اور معمولی سے اختلاف پر بھی اسلحہ نکل آتا، گولیاں چلنے لگتیں اور نوبت قتل و غارت تک پہنچ جاتی۔ اسلحے کے بَل پر چلنے والی سیاست میں آئے دن مسلح تصادم ہوتے رہتے تھے ،
یہ ہی وہ زمانہ بھی تھا جب ایم کیو ایم کی مقبولیت عروج پر تھی اور شہر میں قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ تقریباً بلدیہ کی تمام نشستوں پر ان کے نمائندے کامیاب ہوچکے تھے “تب” کراچی کی سیاست دہشت اور طاقت کے زور پر ایک نئی کروٹ لے رہی تھی طاقت کی سیاست کے یہ اثرات حکمراں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی صفوں میں بھی نمودار ہو چکے تھے ، سرکاری حکام کی جانب سے یہ انکشاف کیا جانے لگا کہ مُلک میں موجود بیشتر سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ، قوم پرست یا علیحدگی پسند جماعتوں اور جہادی تنظیموں سے منسلک عناصر اندرون و بیرون ملک پاکستانی یا غیرملکی خفیہ اداروں کے ’تربیتی مراکز میں دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔
تواتر سے عوامی سطح پر عائد کیے جانے والے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر فوجی و غیر فوجی خفیہ اداروں کے یہ الزامات سنسنی خیز شہہ سرخیوں کے ساتھ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر کو دہشت گردی کے لیے افغانستان، انڈیا اور کشمیر میں قائم تربیتی مراکز میں مسلح کارروائیوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض سرکاری حکام اور دیگر افراد جاوید لنگڑے گروپ کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ بھارتی تربیتی مرکز میں اسلحے اور مسلح کارروائیوں کی تربیت کے لیے آتے جاتے رہے۔ لیکن” اس میں سے اہم جو بات وہ بھارت کی جعلی کرنسی تھی جو بھارت کے شہر دہلی کے علاقے جاندی چوک کے الفا پرنٹنگ پریس سے چھپ کر حاجی عثمان کے زریعے پاکستان میں جاوید لنگڑے کے پاس آتی اور پھر پورے پاکستان میں پھیلا دی جاتی ، جس کا انکشاف میں 90 کی دہائی میں فرائیڈے میگزین میں کرچکا تھا ، یہ وہ دور تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوچکی تھی ، جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اور ایم کیو ایم کے بانی لندن منتقل ہونے کی تیاری کررہے تھے، ، ،اور کراچی میں جرائم پیشہ مافیاز نے افراتفری پیدا کی ہوئی تھی ، سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت اس قدر سرایت کر چکی کہ پولیس تھانوں تک محدود ہو کر رہے گئی تھی ، جس کی وجہ سے کراچی میں آپریشن کی ضرورت محسوس کرکے رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا یہ” آپریشن مختلف وقتوں میں مختلف انداز میں کیا گیا ، کچھ گرفتار ہوکر جیل چلے گئے کچھ ملک سے فرار ہوگئے اور کچھ مارے گئے، بہرحال رینجرز نے کراچی میں آمن قائم کردیا ، لیکن حکمرانوں نے پولیس میں اصلاحات کے بارے کوئی قانون سازی نہیں کی جبک دنیا کی ہر ریاست میں پولیس کا ادارہ بنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کا کاروبار پرامن طور پر چلایا جا سکتا ہے اور جرائم پر کنٹرول کیا جاتا ہے مگر افسوس پاکستان میں پولیس کی اہمیت کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا اور تاریخ میں اکثر دیکھا یہ گیا کہ جب بھی کوئی بحران پیدا ہوا تو پولیس اس میں ناکام نظر آئی اور ہر حکومت کو امن و امان کے قیام کیلئے فوج کو ہی طلب کرنا پڑھتا ہے ،
90 کی دہائی کی طرح ایک بار میں پھر مختلف سیاسی جماعتوں کے جرائم پیشہ مافیاز کو کمزور سیاسی جماعتوں کے پائپ لائنوں سے نکل کر ؟
پیپلز پارٹی کی پائپ لائن میں موجود مافیاز کے آگے پولیس اور سرکاری افسران کو بے بس دیکھ رہا ہوں وہ زمینوں پر قبضوں کا مسلئہ ہو ، منشیات اور گٹکے کی فروخت ہو، یا پھر علاقے میں اپنی بدمعاشی قائم رکھنا ہو ؟
جس”کی “مثال” برگیڈ پولیس اسٹیشن کی حدودِ میں آئے دن اسلحے کے آزادانہ استعمال کے بعد امن و امان خراب کرنے والے ملزمان کے خلاف پولیس کی مدعیت میں “ایف آئی” آر درج کرنے کے بجائے پولیس کے اعلیٰ افسر کا وہاں پہنچ کر صلح صفائی کرانا اس بات کی تصدیق ہے کہ یآ تو پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس کا علم نہیں؟ یا پھر یہ مافیاز بہت زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں ؟
اس طرح کے عناصر آہستہ آہستہ پورے کراچی میں پھیل رہے ہیں،
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ کیا تھا جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پولیس ریفارمز کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں نیک نام اور اہل نوسابق آئی جی پولیس شامل کیے گئے اور موجودہ آئی جی پولیس کو بھی اس کمیٹی کا رکن بنایا گیا ۔ اس کمیٹی نے پولیس ایکٹ 2002 کی روشنی میں نئے تجربات اور مشاہدات کے مطابق 5 ماہ کے اندر اپنی سفارشات مرتب کرلیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ موجودہ حکومت ان سفارشات پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام رائج ہے جس میں اراکین اسمبلی بڑے طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں حکومت بنانے اور توڑنے کا اختیار انکے پاس ہوتا ہے۔ اراکین اسمبلی کو اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے پولیس کی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اراکین اسمبلی پولیس میں اصلاحات کی مخالفت کرتے رہے ہیں تاکہ
اسٹیٹس کو قائم رہے اور پولیس کا نظام انکے اپنے کنٹرول میں رہے اور وہ بلا رکاوٹ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور اپنے اپنے علاقوں میں انکی حکمرانی قائم رہے اس طرح کا۔ سیاسی اور جمہوری نظام عوام دوست پولیس نہیں دے سکتا لہذا اسے تبدیل کرنا قومی اور عوامی مفاد میں ہے۔ عوام بیدار باشعور اور منظم ہو کر عوام دشمن پولیس قوانین سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور ایک ایسی پولیس فورس تشکیل دی جا سکتی ہے جو بااثر افراد کی بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہو-
ابھی تو فی الحال رینجرز ایسے جرائم پیشہ مافیاز کے خلاف قانونی کارروائی کریں جو کراچی شہر کا آمن خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،
وہ جرائم پیشہ عناصر ڈھکے چھپے نہیں صرف سیاسی چھتری تلے چھپے ہیں ،،