تحریر : جاوید کبیر رائے ونڈ
کہتے ہیں عورت اگر پہاڑ توڑ کر دوسری جگہ منتقل کر دے اور اسے اتنا کہہ دیا جائے کہ تمہارے ہاتھ سلامت رہیں تو اس کی ساری تھکاوٹ اتر جاتی ہے ایسے ہی مرد کی کمائی کے دائرے میں عورت ضرورت زندگی پر پابند و خوش ہو جائے تو اس کا ساتھ موت کے سوا کوئی چیز نہیں چھڑوا سکتی
خود مختار مرد کی زندگی میں بیوی عذاب نہیں ہوتی نا ہی دوسری عورتیں عذاب ہوتی ہیں جن کو ساس نند دیورانی کہا جاتا ہے عورت کی زندگی میں تب تک سکون نہیں آسکتا جب تک وہ اپنے خاوند اور اس کے حالات سے مخلص و متفق نہ ہو جائے عورت اپنی سوچوں کو اپنے اختیار میں رکھے جس سے اسکو اذیت نہ ہو اور مرد اپنے اخراجات کو اپنے اختیار میں رکھے جس سے اسکو اذیت نہ ہو یہ دنیا پریشانی کا نام ہے اسے کاٹنے کے لیے مرد اور عورت کا اک دوسرے کے لیے مخلص ہونا سکون حیات ہے اس دنیا میں عورتوں کو انکی سوچوں نے پریشان کر کے رکھا ہے اور مردوں کو نا خوشگوار ملکی و معاشی حالات نے کر کے رکھا ہے
خود مختار مرد کی ماں باپ بیوی بچے رشتے دار ہی نہیں بلکہ معاشرہ بھی عزت کرتا ہے مگر اس کے لیے روحانی سکون بننے والی بیوی کو اپنے مخلص ہونے کا کردار نبھاتے رہنا چاہیے خدا کے اپنے خاوند کی لاپرواہی اور عورت کی کمائی میں برکت نہیں رکھی اکیلے پن میں خود فیصلے لے کر اپنی زندگی غذاب نہ بنائیں میں شادی شدہ نہیں ہوں اللہ کے فضل سے عورت اور گھر کے سکونی مسئلوں کو بہت اچھے سے سیکھتا ہوں لوگوں کی خوشگوار زندگیوں سے مرد اپنی بیوی کو اپنا دل و جاں سمجھے اور عورت اپنے خاوند کو اپنے سر کا تاج اور اپنی حیات کی چار دیواری سمجھے خود مختاری میاں بیوی دونوں ہی زندگی کے سکون کا نام ہیں شادی کو زمہ داری سمجھیں چند دن کا شوق یا ضرورت خواہش نفس نہیں رشتے کو نبھانے چلانے کامیاب بنانے میں ہی اس کا حسن پوشیدہ ہے یہ یقین کا رشتہ ہے اس میں اپکی مایوسی اپکی نسلوں کو بھی مایوس کر منتقل کرتی ہے شادی کے بعد جو تنگیاں اتی ہے وہ مرد اور عورت کو مضبوط کرنے اتی ہے جو کوئی بھی ان دونوں میں سے پیچھے ہٹ جاتا ہے وہ اپنی زندگی کو زندہ موت بنا لیتا ہے طلاق سکون کا نام نہیں نا ہی خاتمہ مسائل حیات ہے طلاق زندہ انسان کی زور موت جیسی ازیت سے گزارنے کی کیفیت کا نام ہے جس میں بکھری زندگی اصلاح پر نا آنے کے پچھتاوے کو لے کر کوستی رہتی ہے
میاں بیوی کا رشتہِ اللہ خود بناتا ہے اور اس رشتے میں جڑے مر و عورت کی نیت دیکھ کے سکون اور اذیت کے رستے کھول دیتا ہے میاں اپنی بیوی کے بارے میں نیت اچھی رکھے اور بیوی اپنے خاوند کے بارے میں نیک و اچھی نیت رکھے پھر اچھا ہی نمودار ہوگا اور ہوتا رہے گا
بیوی بازاری عورت سے دس گناہ مہنگی پڑتی ہے اور ہم یہ قیمت حیا اور وفا کی دیتے ہیں اس تحفوں کی دیتے ہیں جو وہ ہماری نسل کی صورت میں ہمیں قدرت سے دلاتی ہے اچھی عورت کے بغیر اچھا معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا اور اچھے مرد کے بغیر اچھی عورت وجود میں نہیں آ سکتی مرد حلال کا رزق اور اچھی تربیت قبول کرتے ہوئے اس حدود میں زندگی بسر کرنا ہی اچھی عورت کی پہچان ہے اور خود کو اپنی بیوی کی امانت سمجھتے ہوئے اپنے وجود کو خیانت سے بچانا عورت کے حق کا پہرہ دینے جیسا ہے جو وفادار مرد کی پہچان ہے
چیزیں استعمال کے لیے ہوتی ہیں اور رشتے پیار کے لیے۔۔۔۔بات تب بگڑتی ہے جب رشتوں کا استعمال کیا جائے اور چیزوں سے پیار۔۔۔۔۔۔
°°°°°°°°°