تحریر۔میر ہزار مزاری
تقریباً پچھلی دو دہائیوں سے کچے کے علاقوں میں امن دن بدن بدتر سے بدترین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج کے جدید ترین زمانے میں ہمارے ریاستی عسکری اداروں کے پاس جدید ہتھیار، نئی ٹیکنالوجی، جدید دور کے انٹیلیجنس آلات اور معلومات کی دستیابی اور سینکڑوں آپریشنز کے باوجود کچے میں مسلسل بد امنی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سوال ہر ایک شہری کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ ایسی کیا بات ہے کہ کچے کے یہ مٹھی بھر ڈاکو بجائے کم ہونے کے الٹا بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ دن بدن نئے گینگز بنتے چلے جا رہے ہیں۔ پولیس فورس کی تعداد میں بھی پہلے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور کبھی کبھی رینجرز اور پاکستان کی ریگولر آرمی بھی پولیس کے ساتھ آپریشنز میں حصہ لیتی ہے مگر کچا وہی جوں کا توں ہے۔ کبھی کہا ہے جاتا ہے کہ، یہ بیرونی سازش ہے اور کبھی ان کے تانے بانے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں سے جوڑے جاتے ہیں۔ اوپر سے ہمارا روایتی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ماشاءاللہ سے وہی روایتی تجزیے کر رہا ہے اور اچھے سے اپنا دکان چلا رہا ہے۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ کچا ہے کیا؟ کچا روایتی طور پر اس علاقے کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر دریا کے ساتھ منسلک ہو یعنی کسی بھی دریا کے اردگرد یا اس کے بیچ کے علاقے کو کچا کہا جاتا ہے۔ جس مخصوص کچے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ دریا سندھ کا کچا ہے۔ دریا سندھ پنجاب کے آخری ضلع راجن پور سے ہوتے ہوئے گڈو بیراج کے مقام سے صوبے سندھ میں داخل ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک علاقہ ہے جہاں ڈاکو راج عرصہ دراز سے فعال ہے۔ ڈاکوؤں کے یہ گینگز پنجاب کی آخری تحصیل روجھان مزاری سے شروع ہوتے ہیں اور سندھ کے ملحقہ اضلاع کشمور، گھوٹکی اور آگے شکارپور، سکھر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں کی مقامی آبادی بلوچ، سرائیکی اور سندھیوں پر مشتمل ہے۔ سوائے چند ایک کے باقی تمام تر ڈاکوؤں گینگز مختلف بلوچ قبائل کے مرہونِ منت ہیں۔
ان علاقوں کا ذریعہ معاش لائیو سٹاک اور زراعت ہے کیونکہ پانی وافر مقدار میں موجود ہے اور زمینیں زرخیز ہیں اور جب سے ان علاقوں میں شوگر ملز لگنی شروع ہوئی ہیں تب سے زیادہ تر فصل بھی گنے کی لگائی جاتی ہے۔ اور پیسے کی بھی بڑی ریل پیل ہے اس سے پہلے گندم، کپاس اور چاول جیسی فصل سے اتنا سرمایہ نہیں کمایا جا سکتا تھا۔ یہاں کی زمینیں زیادہ تر بلوچ قبائلی سرداروں کی ملکیت ہیں اور اسی وجہ سے سیاسی طور پر بھی یہی سردار بالادست ہیں۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو برطانوی سامراج سے بھی پہلے یہاں کے چھوٹے بڑے قبیلوں میں اس طرح کے عنصر پائے جاتے تھے جو چوری چکاری اور زبردستی دوسروں کا مال کھانے کے عادی تھے۔ جیسے سندھ میں میاں صاحب سرائے والے کی حکومت ہو یا کلہوڑہ سلطنت ہو یا پھر ٹالپور ہوں۔ اسی طرح پنجاب میں ملتان سے سدوزئی سلطنت کے ماتحت انتظامات ہوں یا سکھا شاہی ہو یا پھر برطانوی استعماریت ہو۔ سندھ پنجاب بارڈر پر بسنے والے یہاں کے تمام بلوچ قبائل جن میں مزاری، جتوئی، شر، لنڈ، جاگیرانی، تیغانی، سندرانی، جھکرانی، دیگر کو ملا لیں تو یہ جنگوں اور لوٹ مار کے تسلسل سے یہاں آ کر برطانوی سامراج کے دور میں مستقل طور پر آباد ہوئے۔ اس سے پہلے یہ قبائل سردار میر چاکر رند کے وقتوں میں سیوی (سبی) کے اردگرد رہتے تھے اور سندھ، پنجاب کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ انہی قبائل کے بہت سارے لوگوں نے وقت کے حاکموں کے خلاف بغاوتیں بھی کیں اور اپنی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اور آج جتنے بھی ڈاکو سندھ، پنجاب کے کچے کے علاقوں میں فعال ہیں وہ انہی قبیلوں میں سے ہیں۔
بٹوارے کے بعد پاکستان وجود میں آیا اور ان علاقوں میں چھوٹی موٹی چوری اور لوٹ مار بھی جاری رہی۔ کیونکہ، ابتدائی وقتوں میں میڈیا نہ ہونے کے برابر تھا اس لئے ذرائع ابلاغ کا دور کم تھا۔ میں اپنی ایم فل کی ریسرچ کے لئے پاکستان نیشنل آرکائیوز میں جاتا رہتا تھا ایک دن امروز اخبار 1951 پڑھتے ہوئے میری نظر ایک چھوٹی سی خبر پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ ”صادق آباد میں پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس سے پوچھ تاچھ کے بعد پتہ چلا ہے کہ اس کا تعلق لنڈ قبیلے سے تھا اور وہ سندھ سے اپنے ایک ساتھی ڈاکو کو جیل سے چھڑوانے آیا تھا جس کو اس کے اونٹ اور بندوق سمیت حراست میں لے لیا گیا ہے“ ۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے یہ ڈاکوں راج کوئی آج کی ایجاد نہیں بلکہ ان علاقوں میں یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے مگر اب کیونکہ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا زمانہ آ گیا ہے جس وجہ سے انفارمیشن منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور آج کے اس دور میں شدت اور تشدد میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ نظر آتا ہے۔
اب آتے ہیں دور جدید کی طرف، آج کے کچے کے اس ڈاکو راج کا سب سے بڑا سبب کلاشنکوف کلچر ہے جو کہ پاکستان میں 1980 کی دہائی میں پروان چڑھا۔ اسلحہ کی فراہمی نے نان سٹیٹ ایکٹرز کو مضبوط نہیں کیا بلکہ اب تو سٹیٹ ان کے رحم کرم پر ہے۔ دوسری، بڑی وجہ اندرونی قبائلی لڑائیاں ہیں جن کے دہائیوں تک جرگے نہیں ہو پاتے اور نہ ہی کورٹ ان کے فیصلے کر پاتی ہے۔ یہ لڑائیاں خونی جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور دہائیوں تک چلتی رہتی ہیں۔ مقامی پولیس سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی پارٹی کی ملی بھگت سے کمزور پارٹی پر ریڈ کرتی ہے اور اس دوران ہتھیار بند قبائلی لوگ پولیس کے خلاف مسلح مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت ان مخصوص لوگوں کو ڈاکو بننے پر مجبور کر دیتا ہے جس وقت ان کے ہاتھوں پولیس کے چند اہلکار ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پولیس مزید سخت کارروائی کرتی ہے تو مزید سخت مزاحمت دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج ہمارے آنکھوں کے سامنے ہے۔ کچے کا جنگل اور دریائی جزیرے ڈاکوؤں کے چھپنے کے لئے ان کی آماجگاہ بن جاتے ہیں۔
ان میں زیادہ تر لوگ اپنے قبائلی جھگڑوں کے سبب ڈاکو بنتے ہیں۔ جو بعد میں نہ اپنی آبائی زمینیں کاشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا روزگار۔ پھر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے اور اپنے آپ کو پولیس اور دوسرے قبائل کے خلاف مضبوط کرنے کے لئے مختلف وارداتیں کرتے ہیں جن میں ڈکیتی، اغوا برائے تاوان بھتہ لینا شامل ہیں۔ وقفے وقفے سے پولیس بھی ان کے خلاف آپریشنز کرتی ہے مگر کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ ڈاکو یا تو پولیس کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں یا پھر کچے کے وسیع تر جنگلوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ پولیس اگر ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لے تو وہ پولیس کی مختلف چوکیوں پر حملہ کر کے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ مجبوراً پولیس کو کسی مقامی سردار یا وڈیرے کے پاؤں پکڑ کر عورتوں اور بچوں کے تبادلے میں اپنے اہلکاروں کو بازیاب کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح مقامی پولیس کے ڈی ایس پی کے رینک تک کے پولیس افسر ڈاکووں سے رابطے میں رہتے ہیں تاکہ اغوا ہونے والوں اور اپنے اہلکاروں کو بازیاب کروا سکیں۔ تاوان ادا کرنے کے بعد اغوا ہونے والے لوگوں کو دریا کے کنارے لے جا کے مقامی پولیس فوٹو سیشن کرتی ہے اور میڈیا پر دکھایا جاتا ہے کہ کامیاب آپریشن کے بعد مغوی کو کچے سے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔
تاہم، آج کے سوشل میڈیا کے دور میں کچے کے نوجوان جب سوشل میڈیا پہ ان ڈاکووں کو دیکھتے ہیں تو وہ ان کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ڈاکووں کے ساتھ نہ صرف رابطے رکھتے ہیں بلکہ ان کے آلہ کار بن کے ساتھ مختلف وارداتیں بھی کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ نوجوان جو کہ ابھی اپنی عمر کے لڑکپن میں ہوتے ہیں ڈاکو بن جاتے ہیں اور یہ سلسلہ کچے کے نوجوانوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دوسری طرف اگر ڈاکووں کا کوئی سرغنہ یا ساتھی ہلاک ہو جائے تو وہ باقاعدہ اپنے ہلاک ساتھی کا پولیس پر حملہ آور ہو کر بدلہ لیتے ہیں۔ اسی بدلے کے سلسلے میں پنجاب پولیس کے 17 اہلکار صرف اگست کے مہینے میں شہید کیے گئے ہیں۔ جن میں سب سے بڑا سانحہ ضلع رحیم یار خان کے علاقہ ماچھکہ میں پیش آیا جہاں گنے کی فصل میں گھات لگا کر ڈاکووں نے 12 اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ ان کے علاوہ 6 زخمی ہوئے اور ایک اہلکار کو یرغمال بنا لیا جسے بعد میں ڈاکووں نے اپنے ایک ساتھی کو بازیاب کروانے کے بدلے میں چھوڑ دیا۔
اب پاکستان وہ ریاست بن گئی ہے جہاں پولیس اپنے ہی اہلکاروں کی حفاظت نہیں کر سکتی وہاں عوام کی حفاظت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مقامی زمیندار، تاجر اور کاروباری شخصیات ان ڈاکووں کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ اگر بھتہ نہ دیں تو ان کا علاقے میں کاروبار کرنا اور رہنا محال ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کاروباری اور عام لوگ کچے سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے بارڈرز پر رات کو لوگ سفر نہیں کرتے۔ اگر مجبوری میں سفر کریں بھی تو پولیس اور رینجرز کے باقاعدہ کانوائے لگائے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں بسنے والے عام لوگ بالکل محفوظ نہیں ہیں۔ ہر عام خاص کسی نہ کسی طرح ڈاکووں کو بھتہ دیتا ہے۔ مقامی عوام کا پولیس پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اب تو اگر کوئی چوری، ڈکیتی ہو جائے تو لوگ پولیس تھانے جانے کے بجائے ڈاکووں کے کیمپوں کا رخ کرتے ہیں اور لے دے کے اپنے معاملات سیٹل کر آتے ہیں۔
یہ نہ ختم ہونے والی بدامنی کا سدِباب کرنے کے لئے میرے خیال میں ریاست پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں۔ پہلا، آپشن مذاکرات کا ہے، جس میں ڈاکووں کے خلاف درج ناجائز ایف آئی آر ختم کی جائیں اور ان کو سرنڈر ہونے کی پیش کش کی جائے جس کے بعد اس چیز کی گارنٹی دی جائے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو تنگ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے بچوں کو تعلیم کے لئے معیاری اداروں میں داخل کیا جائے گا۔ تمام علاقائی سٹیک ہولڈرز جن میں سردار، علاقے کے پارلیمنٹیرینز، مقدم، وڈیرے، معززین کے ذمے لگایا جائے کہ ان کی قبائلی جنگوں کا جرگے کے ذریعے فیصلے کر کے ان کے درمیان صلح کروائیں۔ جو پولیس اہلکار ڈاکووں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ان کی فیملیز کا بھی جرگہ نظام کے تحت فیصلے کرائیں۔ کسی ڈاکو کا کوئی قریبی رشتہ دار پولیس کے ہاتھوں ناجائز انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے تو اسے حکومت معاوضہ دے کے سیٹل کرے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر پہلی اپروچ کام نہ کرے تو پاکستان ملٹری کو ایک سخت اور کامیاب آپریشن بیک وقت سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں میں کرنا چاہیے۔ ڈاکوؤں کے پاس یہاں نہ تو پہاڑ ہیں اور نہ کوئی خاص چھپنے کی جگہ کیونکہ، کچا میدانی علاقہ ہے ڈاکو ایک دن کی بمباری بھی برداشت نہیں کر پائیں گے اور خود سرنڈر ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔ روجھان مزاری کے کچا جمال کے علاقے میں 2016 میں پاکستان ملٹری نے آپریشن کیا تھا جہاں چند دنوں میں غلام رسول عرف چھوٹو نے اپنے 15 ساتھیوں سمیت خود کو سرنڈر کر دیا تھا۔ لہذا اگر ابھی بھی حکام بالا نے کچے کے عوام اور ریاستی رٹ کے بارے میں کوئی عملی اقدامات نہ کیے تو شاید یہ بیماری بعد میں پاکستان ملٹری سے بھی ٹھیک نہ ہو سکے۔