وطن فروش

تحریر۔نظام الدین

کراچی: شہر کی عوام کے لیے ہر نئی صبح خدشات اور شام الجھن چھوڑ کر جاتی ہے،اس شہر کے باشندے گزشتہ کئی دہائیوں سے متعدد مسائل کا سامنا کررہے ہیں ان مسائل میں سب سے اہم مسلئہ صحت کے شعبے کا بھی ہے ، جس پر حکومت وقت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ آئے روز نت نئے قسم کے امراض کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہو جاتا ہے ، کراچی میں اس وقت بھی ایک عجیب و غریب بخار پھیلا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں اور نجی کلینکس پر مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ سینہ جکڑنا، کھانسی، پورے جسم میں شدید درد منہ میں چھالے جیسے بخار نے شہریوں کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے ، اس بخار کو کچھ ڈاکٹر ملیریا ، کچھ ڈینگی ، اور کچھ چکن گنیا بتارہے ہیں ڈاکٹروں کے مطابق اس وبائی بخار میں مبتلا شخص آگر بروقت علاج نہ کرائے تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے،
کراچی شہر میں تازہ بخار کی سنگین صورتحال پر تحقیق اور مشاہدہ کرنے سے معلوم یہ ہوا عید الاضحی کے موقع پر بھارت کی جانب سے ہزاروں قربانی کے جانوروں کی مضافاتی مویشی منڈی میں آمد سے یہ بیماری شہریوں تک پھیلی کیونکہ” بھارت سے آنے والے جانوروں میں اس بخار کا وائرس موجود تھا، جبکہ اس کے علاج کے لیے کوئی خاص اینٹی وائرل ڈرگ اورویکسین موجود نہیں ہے ، اور جب اس کی تشخص کے لیے مریض سرکاری اسپتال جاتے ہیں تو انکے خون کے نمونے ٹیسٹ کے لیے تو جاتے ہیں مگر ٹیسٹ کرانے والوں کو بتایا یہ جاتا ہے کہ رپورٹ دس سے پندرہ دن بعد آئے گی ، جبکہ مرض کا دورانیہ ایک ہفتے کا ہوتا ہے المیہ یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے اس عجیب پراسرار بخار کی موجودگی سے انکار کردیا ، یہان تک کہ عالمی ادارہ صحت کے پاکستانی نمائندے بھی اس بخار کی موجودگی سے انکاری تھے، مگر نجی لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کرانے والے مریضوں کے خون میں اس بخار کے وائرس کی تصدیق ہوگئی کہ یہ وائرس بھارت سے آنے والے جانوروں سے کراچی تک پہنچا ہے ، جو آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے صوبوں میں منتقل ہو رہا ہے
یہاں تک تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کی کوئی ویکسین نہیں اس لئے اس کا علاج
” ﷲ تعالی” پر چھوڑ دیا گیا، مگر اس پر نہ تحقیق کی گئی نہ ہی اس کے اسباب کو دور کرنے کی کوشش کی گئی؟بلکہ یہ بخار “عطائی ڈاکٹروں” کے لئے ایک تاریخی سیزن بناہوا ہے، ان عطائی ڈاکٹرز کے ہاتھوں لاتعداد ایسے مریض جاں بحق ہوچکے ہیں ، جو اگر مستند ڈاکٹرز سے علاج کراتے تو یقینی طور پر اکثریت کی زندگیاں بچ سکتی تھیں ۔ عطائی ڈاکٹرز اسے اﷲ کی رضا قرار دیکر خود کو بری الزما قرار دے دیتا ہے ۔ یہاں ایک اور قابل افسوس صورتحال یہ ہے کہ کمیشن کے چکر میں وہ ایسی کمپنیوں کی ادویات کو اپنے کلینک میں قائم اسٹورز سے فروخت کرتے ہیں ، جو صورتحال کو مزید خراب کرتی ہیں ۔ باقی رہی سہی کسر جعلی ادوایات پوری کردیتی ہے،
تحقیق سے معلوم یہ ہؤا کہ بھارت سے ہزاروں وائرس زدہ جانوروں کی آمد سے پھیلنے والے بخار سمیت مختلف بیماریوں کے علاج کی ادویات کا خام مال کا تقریباً پچاس فیصد حصہ بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے ، آٹھ سو بیس کیمیکلز ایسے ہیں جو پاکستان کی درآمد کا حصہ ہیں کیونکہ یہ کیمیکل پاکستان میں تیار نہیں ہوتے اگر کبھی بھارت سے خام مال منگوانے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے تب یہ اسمگلنگ کے زریعے منگوائے جاتے ہیں ، کیونکہ ادویات سازی کے عمل میں سب سے زیادہ اہمیت خام مال کو حاصل ہوتی ہے خصوصا دوا میں شامل کیمیکل کا مؤثر جز کا آلودگی سے پاک اور کسی اچھی فارماسیوٹیکل کمپنی کا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کام کرنے والی قومی اور کثیر القومی کمپنیاں بھارتی ان کمپنیوں سے ادویات کا خام مال خریدتے ہیں جن کے سرٹیفکیٹ “ایف ڈی اے” اور عالمی ادارہ برائے صحت کی جانب سے منسوخ کیے جاچکے ہیں ، جبکہ دوسری طرف بھارت سے عیدالاضحی کے موقع پر وائرس سے متاثرہ جانوروں کی آمد پر کوئی حکومتی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے ، یعنی بھارت سے وائرس زدہ جانور کراچی پہنچ رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے سرمایہ دار بھارت کے سستے خام مال سے ادویات تیار کرکے مہنگی ترین فروخت کرتے ہیں ان دونوں صورتوں میں زرمبادلہ بھارت کو حاصل ہو رہا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ سے آنے والا خام مال مہنگا تو ہوتا ہے لیکن اس کی کوالٹی بہت اچھی ہوتی ہے. ان کی بہ نسبت بھارت سے آنے والے مال کی کوالٹی پچاس فیصد تک کم ہوتی ہے.ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سستی میڈیسن بنانے والی کمپنیاں زیادہ تر کوالٹی پر توجہ نہیں دیتیں. وہ اکثر ایکسپائر مال کی میڈیسن بناکر سپلائی کرتے ہیں. انہیں چیک کرنے والا کوئی نہیں؟ کیونکہ چیک کرنے والے اس کی قیمت وصول کرلیتے ہیں پھر عوام مرے کھپے ان موت کے سوداگر وطن فروشوں کو کیا فرق پڑنا ہے. ؟
حالیہ دنوں عالمی ادرارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق بھارتی مینو فیکچرز میڈن فارماسیوٹیکل لمیٹڈ کے تیار کردہ شربت میں مہلک زہریلے کیمیکل ایتھیلین گلانکول ، اور ڈائیھلین گلانکول شامل تھا ان اجزاء کو بدعنوان عناصر پروپیلین گلانکول کے متبادل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، یہ غیر معیاری اور زہریلے متبادل کیمیکل کمپنیاں ان کی کم قیمت کے پیش نظر استعمال کرتی ہیں ، اس بھارتی سیرپ کے استعمال سے گیمبیا میں ستر سے زائد بچے موت شکار ہوگئے تھے یہ سیرپ دہلی میں واقع گوئل فارما کیمیکل کمپنی سے آیا تھا جسے جنوبی کوریا کی کمپنی “کار ایس کے سی” کمپنی لمیٹڈ سے درآمد کیا گیا تھا ، عالمی ادارے صحت دو اور بھارتی دوا سازوں کی سپلائی چین کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جنہوں نے ازبکستان ، مارشل ائی لینڈز پاکستان اور مائیکرونیشیا میں یہ زہریلے کھانسی کے شربت فروخت کیے تھے ،
آب سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے اس جانب توجہ مبذول کی ہے؟ کہ نہیں؟ کیونکہ بھارت نے بخار کا وائرس جانوروں میں دانستہ طور پر انجیکٹ کرکے اس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں بھیجا جب کروڑوں لوگ قربانی کا جانور خرید کر اپنے گھر کے دروازے پر باندھتے ہیں اور ان جانوروں میں ہی وائرس موجود تھا اس وائرس کے پھیلاؤ کو کیمیای دہشت گردی کہا جاسکتا ہے، کیمیائی دہشت گردی سے مخالف اقوام کو نیست و نابود کرنے کا قدیم فلسفہ ہندو مفکر چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر میں موجود ہے جس پر بھارت کی خفیہ ایجنسی “را”عمل پیرا ہے,,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *