تاریخ کے گمشدہ واقعات

قسط نمبر دو،(2)
ترتیب@
نظام الدین@

(نائن زیرو)

گزشتہ کالم تاریخ کے گمشدہ واقعات کے حوالے سے لائنز ایریا کے حقائق کو بیان کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے بانی پرکالم کا اختتام کیا تھا، اور آس کالم میں یہ بتانا ضروری تھا کہ لائنز ایریا کے جس کوارٹر میں ایم کیو ایم کے بانی اور انکا خاندان رہائش پذیر تھا وہ انکے ماموں کا تھا، سزایافتہ جب وہ ہوئے تب” انکی رہائش عزیزاباد میں تھی مگر گرفتار وہ قائد اعظم کے مزار پر مظاہرہ کرنے پر ہوئے تھے، برگیڈ پولیس اسٹیشن اور گواہ منور خان کا تعلق بھی لائنز ایریا سے تھا ، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بانی ایم کیو ایم سزایافتہ ہونے سے پہلے 1970 میں نیشنل سروس کیڈٹ سے فارغ ہوکر پاکستانی فوج بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوگئے تھے !!
بہرحال یہاں یہ کالم ختم ہوگیا تھا!! لیکن کچھ دوستوں کی فرمائش تھی کہ لائنز ایریا کے گمشدہ واقعات کو روکنا نہیں، کیونکہ میڈیا سیاست اور ریاست پر تو بہت لکھتے اؤر بولتے ہیں لیکن کراچی کے علاقوں کے ماضی پر بہت کم لکھا اؤر بولا جاتا ھے ، دراصل ایک کالم بمشکل بارہ تیرہ سو الفاظ کا ہوتا ھے جس میں کراچی جیسے شہر کے کسی بھی پرانے علاقے کی تاریخ کو بیان نہیں کیا جاسکتا،۔ فن تاریخ نگاری کا منظر نامہ لکھاری پر منحصر ہوتا ھے کہ وہ تاریخ کے مختلف پہلوؤں کو کس درجہ تخلیق کے ساتھ پیش کرتا ھے، لیکن جب کسی شہر کے علاقے کی تاریخ کا مواد موجود نہ ہو تو دیومالائی کہانیوں، حادثات، ماضی کے ہیروز، سائنسی علوم، اور عالمی ذرائع ابلاغ” کی مدد سے تاریخ کی تشکیل کا مواد” حاصل کیا جاتا ھے، جس طرح کراچی کی گمشدہ تاریخ کا علم سائنسی علوم آور محققین کی رائے سے حاصل کیا گیا تو معلوم یہ ہوا کہ کراچی برفانی دور کے خاتمے کے بعد سمندر سے نمودار ہونا شروع ہوا” تو لائنز ایریا کا علاقہ سمندر کا کنارہ ہؤا کرتا تھا ؟ “کیونکہ” مزار قائد کے ارد گرد پہاڑوں پر گول پھتر آس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کہ یہ پھتر سمندری ہیں ، اس ہی طرح کے پھتر پیراڈائز پوائنٹ اور، منوڑا کے جزائر وغیرہ کے کنارے پر پائے جاتے ہیں؟ جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے ارد گرد اور پی سی ایچ سوسائٹی بلاک (2) کی پہاڑی پر اسی ڈیزائن کے پھتر ملتے ہیں؟ان پتھروں کا برطانوی دور اقتدار میں لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوا تھا، جس کی رپورٹ بلدیہ کے کسی محکمہ میں پوشیدہ ہوگی؟ “آس” رپورٹ کا مطالعہ میں نے آس وقت کیا تھا جب میں بلدیا کی لائبریری میں ملازم تھا آس وقت کتابوں سے میری دلچسپی دیکھتے ہوئے ڈائریکٹر کتب خانہ جات نے مجھے بتایا کہ ڈپٹی مئیر صاحبہ بلدیا کے مرکزی دفتر میں کراچی کے حوالے سے برطانوی دور کی کتابیں رسالے اور نقشہ جات کو نئے طریقے سے ترتیب دینے کا پروگرام رکھتیں ہیں،، وہاں سے تم بھی کتابیں، رسالے، اور نقشوں، کی فوٹوکاپی کراکر لائبریری میں محفوظ کرلو ، تب بلدیہ کے دفتر سے کچھ کتابیں رسالے اور نقشے میں نے لائبریری میں محفوظ کرلیئے تھے ، ان میں ایک نقشے پر پرانی نمائش کے ارد گرد کے علاقے دیکھائے گئے ہیں، آج جہاں مزار قائد سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے اسکول اؤر جناح گراؤنڈ ھے ؟ آس نقشے میں آس جگہ ایک نمائش دیکھائی گئی ھے یہ نقشہ انڈیا آور دوسر ممالک سے آنے والے مہمانوں کی رہنمائی کے لیئے سنہ 1939 میں آل انڈیا صنعتی نمائش کے لیئے کراچی میونسپل کارپوریشن نے تیار کیا تھا، اس نقشے میں لائنز ایریا کے کچھ راستوں کی نشاندھی بھی کی گئی ھے، بعد ازاں پاکستان کے قیام کے بعد سنہ 1950اور 1952 میں یہ نمائش ایوب خان کے دور میں بھی قائم رہی، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی تدفین کے لیئے جب یہ جگہ منتخب کی گئی تو یہ نمائش ایکسپو سینٹر منتقل کردی گئی،، ٫٫بہرحال،، جب ہم لائنز ایریا کی تاریخ کے گمشدہ واقعات پر بات کرتے ہیں تو لائنز ایریا کے علاقے جیکب لائن کا نام برطانیہ کے کرنل جان جیکب کے نام پر رکھا گیا تھا ، سندھ کا جیکب آباد بھی انہی کے نام سے منسوب ھے، اسی جیکب لائن کے حوالے سے بی بی سی اردو سیربین سے میں نے کہی بھولی بچھڑی کہانیاں سنی تھیں اس میں ایک بابل بنگالی کی بھی کہانی تھی جو سنہ 1971 کی جنگ کے پس منظر پر ریکارڈ کی گئی تھی جب یہاں بنگالیوں سمیت متحدہ پاکستان کے تمام نسلی اکائیوں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے اس وقت گلی محلے کے لوگ باقاعدہ سے ریڈیو کے خصوصی جنگی بلیٹن اور بی بی سی اردو سیربین سنا کرتے تھے آس دور میں عقب جیکب لائن میں نو(9) برس کا بابل بنگالی رہتا تھا جس کی بنگالی ماں جنگ کے بعد اپنے بیٹے اور بہاری شوہر کو چھوڑ کر اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش چلی گئی تھی، اس بنگالن ماں کے بیٹے سے بی بی سی کے نمائندے نے سوال کیا کہ اگر تماری ماں سے کبھی ملاقات جائے تو تم آس سے کیا پوچھوں گے؟ بابل کا جواب تھا کہ میں ماں سے صرف یہ پوچھوں گا کہ کیا وطن کی محبت ممتا کی محبت پر بھاری ہوتی ھے؟۔ نہ جانے بابل کی ماں زندہ بھی ھے یا نہیں اور اگر زندہ ھے تو بنگلہ دیش میں کہاں اور کس حال میں ھے یہ الگ بات ھے، لیکن جنگیں تو ختم ہو جاتی ہیں مگر بابل جیسے لوگوں کے دلوں پر کبھی نہ مندمل ہونے والے زخم چھوڑ جاتی ہیں،
میں یہاں لائنز ایریا اور انڈرورلڈ کے افسانوی کردار گولڈ مین کی کہانی بھی سنانا چاہتا ہوں جس گولڈ مین کو پاکستان سمیت دنیا کی پولیس تلاش کررہی تھی جو انٹر پول کو بھی مطلوب تھا؟اور دنیا بھر کے اخبارات میں اسکے افسانے لکھے جاتے تھے, پاکستان میں وہ دور صدر ایوب خان کا تھا،صدر ایوب خان نے اس گولڈ مین کے سونے کے کاروبار میں اپنے بیٹے کو شریک کرنے کی کوشش کی اور” آس کے انکار کرنے پر صدر صاحب اپنے اختیار کا ناجائز استعمال کرکے اس کے کاروبار میں مشکلات پیدا کرنے لگے آور اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ گولڈ مین آپنے گھر سے روپوش ہو کر اپنا کاروبار دبئی منتقل کرنے لگا ۔سارا سونا لانچوں کے ذریعے دبئی بھجوانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔لانچیں کراچی سے روانہ ہوئیں تو مخبری پر اداروں نے گھیر لیا۔وائرلیس پر گولڈ مین کو اطلاع دی گئی تو آس نے ایک تاریخ ساز ڈائیلاگ بولا۔” شٹر کھول دو” ایسا ہی ہوا۔شٹر کھو دیئے گئے جس سے سارا سونا سمندر کی تہہ میں چلاگیا یہ اڈر آس نے گمنام جگہ سے جاری کیا تھا ؟ لیکن جب حکومتیں تبدیل ہوئیں تو اسی گولڈ مین نے آس گمنام جگہ کے بارے میں اور فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ بحری راستے سے کراچی کیسے پہنچا یا ایک انٹرویو میں بتایا!!
یہ شخص کون تھا ؟
کس گھر اور علاقے میں روپوش ریا ؟
آور کیسے پاکستان سے نکل کر دبئی پہنچا ؟
آس جیسے آور دیگر سوالات کے جوابات اگلی قسط میں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *