تحریر۔دانش علی انجم
ایتھوپیا کا نام ذہن میں آتے ہی آپ کا خیال کس طرف جاتا ہے؟ 80 اور 90 کی دہائی کے لوگ شاید خانہ جنگی اور قحط سالی کا نام لیں، اگر کسی کے ذہن میں مثبت بات آئی بھی تو وہ اولمپکس میں میراتھون جیتنے والے ایتھوپیائی ایتھلیٹ ہی ہوں گے لیکن آج کل ایتھوپیا ایک اور مثبت وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں جگہ بنا رہا ہے۔
حال ہی میں ایتھوپیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے ملک میں رکازی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی لگا دی ہو۔ جی ہاں آپ نے بالکل درست پڑھا، صاف ستھرے ماحول کی جانب یہ اہم ترین قدم کسی ترقی یافتہ مغربی ملک نے نہیں لیا بلکہ ماضی میں جنگوں سے تباہ حال اس افریقی ملک نے لیا ہے۔
اس وقت ایتھوپیا کی سڑکوں پر لگ بھگ ایک لاکھ برقی گاڑیاں موجود ہیں اور حکومت کو امید ہے کہ 2032 ء تک یہ تعداد چار گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے درآمدی گاڑیوں پر محصول بھی کم و بیش ختم ہی کر دیا ہے۔ رکازی ایندھن والی گاڑیوں پر پابندی لگنے سے قبل یہ محصول 200 فیصد تھا لیکن اب مکمل طور پر تیار شدہ برقی گاڑیوں پر یہ محض 15 فیصد ہے۔ محصول میں یہ ڈرامائی کمی حکومت کے ان اقدامات کا حصہ ہے جن کے تحت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو برقی گاڑیاں استعمال کرنے پر راغب کیا جا رہا ہے۔
کم محصولات کی بدولت کئی مقامی کاروباری ادارے جیسے کہ بیلاینیھ کنڈل گروپ بیرون ملک (چین) سے پرزے منگوا کر انہیں ملک میں ہی تیار کرنے کی جانب راغب ہوئے ہیں جس سے برقی گاڑیوں کی قیمتیں مزید کم ہوئی ہیں۔ یہاں کے لوگ عموماً ہلکی گاڑی پسند کرتے ہیں اور ان کی طلب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
ایتھوپیا میں اس ڈرامائی تبدیلی کی ایک وجہ تو رکازی ایندھن کی بڑھتی قیمتیں ہیں جبکہ ملک کی 96 فیصد بجلی صاف ستھری پن بجلی سے حاصل کی جاتی ہے۔ جب ایتھوپیائی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ ان کے پاس تو توانائی کے قابل تجدید ذرائع وسیع تعداد میں موجود ہیں تو انہوں نے فوراً برقی گاڑیوں کے استعمال پر توجہ دینا شروع کر دی۔ (ظاہر ہے کہ کوئی بدترین نا اہل حکومت ہی ملک میں توانائی کے ایسے قابل تجدید ذرائع ہوتے ہوئے بھی رکازی ایندھن سے بجلی تیار کرے گی اور رکازی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں پر ہی توجہ مرکوز رکھے گی) یوں یہ ایتھوپیا کے ماحول کے ساتھ ساتھ معیشت کی بھی کامیابی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سال جنوری میں ایتھوپیا کی جانب سے رکازی ایندھن والی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی نے خطے کے کئی ممالک کو حیرت زدہ ضرور کیا۔
آج کل صورتحال یہ ہے کہ ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں پیٹرول سٹیشن پر لمبی قطاریں بننا ایک معمول کی بات بن چکا ہے جس کی وجہ پیٹرول کی دستیابی میں کمی اور قیمت میں اضافہ ہے۔ لیکن برقی کار کے مالک میکائیل بیلے نیھ ذرا بھی پریشان نہیں، وہ کہتے ہیں :
”اب مجھے کبھی بھی پیٹرول کے لیے قطار میں نہیں لگنا پڑتا کیونکہ میری ٹویوٹا bz 4 x کا ایک چارج دو دن کے لیے کافی ہوتا ہے“
ایتھوپیا کی سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد 12 لاکھ ہے جو اب بھی کافی کم ہے، یعنی ہر 1000 افراد کے لیے 1 گاڑی۔ اس کے برعکس امریکہ میں 91 فیصد شہری کم از کم ایک گاڑی کے مالک ضرور ہوتے ہیں۔ براعظم افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائیجیریا میں ایک کروڑ 18 لاکھ گاڑیاں ہیں جو فی ہزار شہریوں کے لیے 54 بنتی ہیں۔ (ماضی میں ایتھوپیائی حکومتوں نے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی جانب راغب کرنے کے لیے ذاتی گاڑیوں پر بھاری محصولات عائد کر رکھے تھے ) اچھی بات یہ ہے کہ ایتھوپیا کی سڑکوں پر آج کل رکازی ایندھن پر چلنے والی پرانی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ برقی بسیں، 15 مسافروں والی ”منی بس“ ، برقی کاریں اور برقی موٹرسائیکل بھی نظر آنے لگے ہیں۔
ادیس ابابا میں شہری حکومت نے عام موٹر سائیکلوں پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں جن میں ایسی بائیکس کو لائسنس جاری نہ کرنا بھی شامل ہے۔ حکومت نے ایسی بائیکس کے مالکان کو اپریل تک کی مہلت دی تھی کہ وہ انہیں برقی موٹرسائیکل سے تبدیل کرا لیں۔ اسی سال مارچ میں ادیس ابابا کی حکومت نے عوامی آمدورفت کے لیے برقی بسوں کا پہلا بیڑا بھی متعارف کرایا تھا۔
حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں چھوٹ اور بعض حالات میں خاتمے کے باوجود برقی گاڑی خریدنا اب بھی خاصا مہنگا ہے۔ ”برقی گاڑیوں کے زیادہ تر خریدار اب بھی آسودہ حال گھرانے ہی ہیں“ یہ کہنا ہے ایمان ابوبکر کا جو ایک عالمی غیر منافع بخش ادارے کے لیے کام کرتی ہیں، اس ادارے کا مقصد دنیا بھر میں آمدورفت کے ذرائع کو قابل تجدید بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ادارہ ایتھوپیائی حکومت کے علاوہ خطے کی دیگر حکومتوں کو قائل کر ریا ہے کہ وہ عوامی آمدورفت کے لیے برقی بسوں میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں تاکہ محدود آمدن رکھنے والے لوگ بھی ایسی گاڑیوں استعمال کر سکیں۔
2022 ء میں ایتھوپیائی حکومت کی جانب سے اگلے دس سال میں کم از کم ایک لاکھ برقی گاڑیاں سڑکوں پر لانے کا عزم ظاہر کرنے بعد سے ہی مہنگی ہونے کے باوجود برقی گاڑیوں کی فروخت میں تسلسل سے اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ کل فروخت شدہ گاڑیوں کا 10 فیصد بن چکی ہیں۔
ایتھوپیائی حکومت پرعزم ہے کہ وہ رکازی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں سے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ضرور کرے گی۔
ہر چند کہ ایتھوپیا رکازی ایندھن پر چلنے والی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگانے والا اب تک کا واحد ملک ہے لیکن خطے کے دیگر ممالک میں ایسی پابندی کے بغیر ہی برقی گاڑیوں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ نیروبی، کینیا میں برقی موٹر سائیکل بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اُوُبر نے پچھلے سال یہاں پیلی بائیکس کا ایک بیڑا متعارف کرایا جسے مقامی لوگ پیار سے ”بوڈا بوڈا“ کہنے لگے ہیں۔ یہ سب کینیائی حکومت کی جانب سے برقی گاڑیوں پر محصولات میں چھوٹ دینے سے ممکن ہوا اور محض ایک سال میں سڑکوں پر موجود برقی موٹرسائیکلوں کی تعداد میں 500 فیصد اضافہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ تعداد اب بھی نیروبی کی سڑکوں پر موجود 2 لاکھ موٹرسائیکلوں کی تعداد کا ایک معمولی سا حصہ ہی ہے لیکن ابھی سے اس نے شہر کے بعض علاقوں میں صوتی آلودگی بہت کم کر دی ہے۔ نیروبی کی سڑکوں پر اب امریکی طرز کی برقی بسیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔
ایک حکومتی اہلکار کہتے ہیں، ”میں برقی گاڑیوں کو بعینہ اسی نظر سے دیکھتا ہوں جیسے 30 سال قبل ہم موبائل ٹیلیفون کو دیکھا کرتے تھے“ ۔ ”جب پوری دنیا موبائل فون کو اپنا رہی تھی تب افریقہ میں اس کے استعمال کنندہ بہت محدود تھے جس کی وجہ بنیادی ڈھانچے کی کمی تھی۔ آج نیروبی میں آپ کو شاید ہی کوئی فرد بغیر موبائل فون کے ملے“