(ترتیب)
(نظام الدین)
شہر میں آیا تھا وہ جگنو کی طرح ؟
جگنو کے بارے میں یہ بات مشہور ہے وہ رات کے اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر پھوٹتا ہے اور بھولے بسروں کو راستہ دکھاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے شہر میں جتنا اندھیرا ہے اور جہاں سورج کا دن کے چاروں پہر دم پھولتا ہے وہاں جگنوؤں کی طرح چمکنے دمکنے والے کا کیا کام ؟
سید علی رضا عابدی جن کی ضیا پاشی سے کراچی شہر میں کئی چراغ جل رہے تھے اور وہ چراغ آ گے کئی چراغ جلانے کی جستجو کر رہے تھے کہ کچھ جانور نما انسانوں نے وہ چراغ 25 دسمبر 2018 کو ان کے اپنے گھر کی دہلیز پر بجا دیا،
یہ شہر میں پہلا قتل نہیں تھا اس سے پہلے قتل ہونے پر بھی
شہریوں کا ضمیر چیخ اٹھا تھا مظاہرے احتجاج کے علاؤہ بیانات کے انبار لگے تھے مضامین بھی لکھے گئے تھے قوانین سازی بھی ہوئی مگر اس سب کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ایسے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اصافہ ہوتا رہا ؟
مجھے آج سید علی رضا عابدی کیون یاد آئے ؟
جب میں نے ایک ٹی وی چینل پر
سینئر صحافی اور پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا دھماکہ خیز انکشاف۔۔۔۔۔ سنا جس میں وہ بتارہے تھے ک ایم کیو ایم کے رہنما سید علی رضا عابدی کے قتل کا کھرا جس رٹائرڈ آدمی تک جاتا ہے وہ جنرل فیض حمید کا خاص آدمی تھا ؟
پھر اخبارات اور میڈیا میں اس انکشاف کی تفصیل تبصرے اور تجزیے ہونے لگے ،
لیکن یہاں سوال یہ ہے 29 اپریل 2024 کو عدالت نے چار مجرمان عبدالحسیب، غزالی، محمد فاروق اور ابوبکر کو عمرقید کی سزا سناتے ہوئے ان پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا جبکہ تین مفرور ملزمان کی گرفتاری تک ان کے خلاف مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا؟ کیا وہ قاتل نہیں تھے ؟
سید علی رضا عابدی،
کے والد سید اخلاق عابدی کی جانب سے درج ایف آئی آر کے مطابق 25 دسمبر کو وہ اپنے گھر کے گراونڈ فلور پر موجود تھے کہ رات کو ساڑھے آٹھ بجے گھر کے مین گیٹ پر فائرنگ کی آواز آئی تو میں لاؤنج کا دروازہ کھول کر مین گیٹ کی طرف دوڑا،،،
اسی دوران مزید فائرنگ کی آواز سنائی دی اور جیسے ہی میں گیٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان فائرنگ کرتا ہوا بھاگ رہا ہے اور میرا بیٹا سید علی رضا عابدی سفید رنگ کی فارچونر گاڑی میں شدید زخمی حالت میں ڈرائیونگ سیٹ پر ڈھلکا ہوا ہے
لوگوں کی مدد سے اپنے بیٹے کو ساتھ والی سیٹ پر منتقل کیا اور گاڑی چلا کر پی این ایس شفا ہسپتال پہنچا ، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی جان بچانے کی کوشش تو کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا ،
عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں سب انسپیکٹر محمد زریں خان نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ محمد فاروق نامی ایک ملزم غیر قانونی اسلحے کے الزام میں گرفتار ہوا تھا جس نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ علی رضا کے قتل میں ملوث ہے۔ مزید تفتیش پر ملزم نے بتایا کہ اس نے اپنے حقیقی بھائی مصطفیٰ عرف کالی چرن اور دیگر ساتھیوں بلال، حسنین، ابوبکر، فیضان، محد غزالی اور عبدالحسیب کے ساتھ منصوبہ بندی کر کے مقتول کو 25 دسمبر کو اس کے گھر کے باہر قتل کیا۔
ملزم فاروق کے بیان کے مطابق اس کی اپنے ساتھی ملزمان ابوبکر، محمد غزالی اور عبدالحسیب سے ککری گراونڈ لیاری میں ملاقات طے تھی لیکن وہ گرفتار ہو گیا۔
ملزم کی نشاندہی پر 4 مارچ دوپہر ڈھائی بجے پولیس نے اندرون ککری گراونڈ سے تین افراد کو گرفتار کر لیا۔
علی رضا عابدی کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیرسماعت تھا جہاں چار ملزمان میں سے فاروق، غزالی اور ابوبکر جیل میں تھے عبدالحسیب ضمانت پر رہا تھا جبکہ چار ملزمان حسنین، بلال، فیضان اور غلام مصطفیٰ عرف کالی چرن مفرور تھے ،
گرفتار ملزمان کے موبائل فونز کی جیو فینسنگ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ وہ چھ ماہ سے علی رضا کی جاسوسی کر رہے تھے اور موقع پاتے ہی انھیں قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان سے جب تفتیش کی گئی تو محمد فاروق نے بتایا کہ بلال اور حسنین کے کہنے پر وہ اپنے بھائی مصطفیٰ عرف کالی چرن کے ساتھ فش ہاربر میں واقع علی رضا کے دفتر گئے اور ان کی ریکی کی اور جب ریکی مکمل ہو گئی تو 25 دسمبر کو مصطفیٰ نے بلال اور حسنین کو بلوایا۔
’رات کو مصطفیٰ اور دیگر نے مجھے بتایا کہ علی رضا کو ہم نے اس کے گھر کے باہر فائرنگ کر کے قتل کردیا ہے جبکہ واردات میں استعمال موٹر سائیکل کو لیاری میں آگ لگا دی اور اس کے بعد اسلحہ غزالی کو دے دیا۔‘
پولیس کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ملزم محمد غزالی نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ اس کو بلال نے لیاری بلایا اور آٹے کی تھیلی دے کر اسے اپنے گھر میں رکھنے کے لیے کہا۔ تین روز بعد بلال کا دوبارہ فون آیا کہ وہ تھیلی لیاری میں آنکھوں کے ہسپتال کے پاس فیضان کو دے دو۔ محمد غزالی ملزم ابوبکر کے ہمراہ تھیلی، جس میں اسلحہ تھا، فیضان کو دیکر آئے۔
گرفتار ملزم ابوبکر نے بھی محمد غزالی کے ساتھ جانے کی تصدیق کی۔
علی رضا عابدی کے قتل کی سپاری آٹھ لاکھ روپے لی گئی تاہم یہ کس نے دی پولیس تاحال معلوم نہیں کر سکی؟۔
پولیس کے مطابق ملزم عبدالحسیب نے بتایا کہ وہ مصطفیٰ کے کہنے پر اپنے کزن کے ہمراہ حسینی بلڈنگ گئے، جہاں پر ایک شخص
(جن کو وہ نہیں جانتے) نے انھیں آٹھ لاکھ روپے دیے جو انھوں نے لا کر مصطفیٰ کو دے دیے۔
علی رضا عابدی کے زیر استعمال دو موبائل فون تھے جو ان کی آنکھ کی پتلی (ریٹینا) کے کوڈ پر تھے لیکن وہ کھل نہیں پائے،
قتل میں استعمال کی گئی جس موٹر سائیکل کے بارے میں ملزمان نے کہا ہے کہ اس کو جلایا گیا، اس کا ڈھانچہ کہاں ہے؟ وہ کس کی ملکیت تھی ؟ کچھ علم نہیں ؟ گھر کے باہر
سی سی ٹی وی میں واضح ہے کہ ایک چھوٹی سفید رنگ کی کار گھر کے قریب آدھے گھنٹے رہتی ہے، وہ ظاہر ایسا کر رہے ہیں جیسے کوئی گھر ڈھونڈ رہے ہیں۔‘
’جس جگہ پر قاتل نے گولی چلائی تھی اس جگہ پر کچھ دیر پہلے کچھ لوگ ایک نشانی رکھ کر گئے تھے۔ اسی دوران ایک شخص چلتا ہوا آرہا ہے کہ اس کا انداز ویسا ہی ہے جو حملہ آور کا تھا۔ وہ وہاں ڈیلیوری دینے والے کی طرف دیکھتا بھی ہے لیکن اس کا پتہ نہیں لگایا گیا۔‘
’علی رضا کے گھر کے تین راستے ہیں اور ان پر چھوٹے کیمرے لگے ہیں لیکن ساتھ میں جو بڑی سڑکیں ہیں ان پر بڑے کیمرے لگے ہیں ان کیمروں کی فوٹیج کو کیوں نہیں ملایا گیا جبکہ ان سے ملزمان تک رسائی ہو سکتی تھی
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ قتل میں لیاری گینگ وار کے ملزمان کو استعمال کیا گیا جن میں سے کچھ ملزم پڑوسی ملک فرار ہو گئے
کاؤنٹر ٹیررازم محکمے نے عدالت میں ملزمان کا کال ڈیٹا ریکارڈ بھی جمع کرایا جس میں ملزمان نے کب، کس کو، کہاں کال کی اور ان کالز کا دورانیہ کیا تھا، سب تفصیلات موجود ہیں۔
اس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ غزالی، مصطفیٰ عرف کالی چرن اور فاروق کو پاکستان چوک کے قریب واقع ایک عمارت سے متعدد کالیں کی گئیں۔
عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ اس ریکارڈنگ کی (سی ڈی آر) رپورٹ کی متعلقہ محکموں سے تصدیق کرائی جائے۔
( سی ڈی آر) کے مطابق ملزمان کی علی رضا عابدی کی فیکٹری، سیون سیز اور گھر کے باہر موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے اس کے علاوہ وہ ان کے ہینڈلر کے ساتھ بھی رابطے میں رہے اور جنھوں نے رضا کو قتل کروایا، ان سے بھی ان کا رابطہ تھا (سی ڈی آر) میں وہ ٹیلیفون نمبر بھی نظر آرہے ہیں ’جن کے نمبر پہچانے نہیں جاسکے ؟
کیا ابصار عالم جس فیض حمید کے خاص آدمی کی طرح اشارہ کررہے ہیں وہ ان مفرور ملزمان میں شامل ہے جن کا مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا تھا ؟
مگر ایک سوال اور بھی ہے آخر ابصار عالم کو فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعد یہ قتل کیوں یاد آیا ؟ اب سے پہلے اس قتل کا انکشاف کیون نہیں کیا ؟
جواب کا انتظار رہے گا ؟
یہ تو ہوئی سزا قانون اور قاتل کی نشاندھی کے بارے میں، دوسری جو اہم چیز ہے ریاست کے خفیہ اداروں اور پولیس کے بگڑے افسران کی زاتی حیثیت میں سیاسی معاملات میں عام لوگوں کو ملک کے مفاد کے نام پر استعمال کرنا “یعنی” اپنا
(مخبر بنانا)جو عام لوگوں کو مجرمانہ ذہنیت بنانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پیشہ ور قاتلوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی شخصیت میں رحم ترس اور انسانیت جیسی اقتدار مفقود ہو گئیں ہیں ، میڈیکل سائنس نے بھی ایسے افراد کو انسانی جزبوں سے عاری قرار دیا ہے،