کینیڈا میں دہشت گردی، بھارتی سفارتکار بے دخل

کینیڈا سے چھ انڈین سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعد اوٹاوا میں نیشنل پولیس ہیڈ کوارٹر میں منعقد ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں پولیس سربراہ مائک ڈیوہیم نے الزام لگایا کہ ’بھارتی حکومت کے ایجنٹ کینڈا میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جس سے مقامی معاشرے اور شہریوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ملک کی مختلف سیکورٹی فورسز کی مشترکہ تفتیش کے بعد رائل ماؤنٹد پولیس کے سربراہ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ پولیس کو حاصل ہونے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی حکومت کے ایجنٹ کینڈا میں قتل اور پرتشدد وارداتوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔پولیس کی تفتیش سے انکشاف ہوا کہ کینڈا میں تعینات بھارتی سفارتکار اور قونصل خانوں کے اہلکار اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر خفیہ سرگرمیوں میں ملوث تھے جن میں براہ راست یا اپنے مخبروں کے ذریعے رضاکارانہ یا جبر کے ساتھ انڈین حکومت کے لیے معلومات حاصل کرنا شامل تھا۔کچھ شہریوں اور کاروبار کرنے والوں کو بھارتی حکومت کے لیے کام کرنے کے لیے دھمکایا اور مجبور کیا جاتا تھا اور بھارت کی حکومت ان افراد سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر جنوبی ایشیائی نژاد شہریوں کو ٹارگٹ کرتی تھی۔کینیڈا میں سنگین نوعیت کے مجرمانہ کیسوں میں مبینہ طور پربھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے کئی معاملات کی تفتیش چل رہی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ خالصتان کے حامیوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ’جرائم پیشہ گینگ کا استعمال کیا جاتا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ میں خاص طور سے بشنوئی گینگ کا نام لینا چاہوں گی وہ بھارتی ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ یاد رہے کہ لارنس بشنوئی بھارت کا ایک گینگسٹر ہے جو گجرات کی ایک جیل میں قید ہے۔ لارنس بشنوئی پر پنجابی گلوکار سدھو موسے والا سمیت درجنوں افراد کے قتل کا الزام ہے اور حال ہی میں فلمی اداکاروں خاص طور پر سلمان خان سے قریب سمجھے جانے والے ممبئی کے سیاسی لیڈر بابا صدیقی کے قتل میں بھی بشنوئی پر ہی شک کیا جا رہا ہے۔ کینڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کے وقت کے مطابق رات دیر گئے وزیر خارجہ اور عوامی سلامتی کے وزیر کے ہمراہ اوٹاوا میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ وہ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے لیکن بھارت اس سلسلے میں تعاون نہیں کر رہا۔انھوں نے الزام لگایا کہ ہفتے کے روز کینڈین اہلکاروں نے پولیس کی تفتیش سے حاصل ہونے والے شواہد بھارت کو فراہم کر دیے تھے جن کے مطابق بھارت کے چھ سفارتکار مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت تھے لیکن بھارت کی حکومت نے ہم سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کینڈا نے بھارتی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما سمیت 6 سفارتی اہلکاروں ملک بدر کر دیا۔کینڈا کی حکومت نے پولیس کی جانب سے نئی رپورٹس موصول ہونے کے بعد بھارت کے خلاف انتہائی قدم اٹھایا کیونکہ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کینڈا میں بھارت کی پْرتشدد سرگرمیاں جاری ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے علیحدگی پسند سکھوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کینڈا پہلے بھی بھارت کو خبردار کرچکا تھا۔ کینڈا سے بے دخلی کی اطلاع پر بھارت نے ہائی کمشنر اور سفارتی عملے کو واپس بلوالیا۔ کینڈا کی پولیس کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ان اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد مل گئے تھے۔ سکھ فار جسٹس کے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنوں بھارتی قتل کی سازش سے بال بال بچے تھے۔اْدھر کینڈا کی حکومت نے گزشتہ ہفتہ نئے شواہد سے متعلق بھارت کو آگاہ بھی کردیا ہے۔ کینڈا کی جانب سے سکھ رہنما قتل کیس میں بھارتی ہائی کمشنر سمیت دیگر سفارت کاروں کو شامل تفتیش کرنے پر مودی سرکار تلملا اْٹھی اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق کینڈین سفارت کاروں کو ہی ملک بدر کردیا۔کینڈا نے بھارتی ہائی کمشنر سمیت 6 اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا تاہم بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ان سفارت کاروں کو سکیورٹی خدشات کے باعث بھارت واپس بلا لیا۔ بعد ازاں مودی سرکار نے نہ صرف کینڈین ناظم الامور کو طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا بلکہ کینڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر سمیت 6 اعلیٰ سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم بھی دیا۔ 45 سالہ خالصتان رہنما ہردیب سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں مسلح افراد نے کینڈا کے علاقے کولمبیا میں قتل کر دیا تھا۔کینڈا نے اس قتل کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسی را پر عائد کرتے ہوئے بتایا تھا کہ تفتیش سے معلوم ہوا اس میں بھارتی سفارت کار بھی ملوث تھے۔ جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں اور متعدد بار ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکے ہیں۔ کینڈا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں بھارتی عہدیداران کے ملوث ہونے کے الزامات کے بعد ایک نیا سفارتی تنازع جنم لے رہا ہے جس کے دوران پہلے کینڈا کی حکومت نے بھارت کے ہائی کمشنر سمیت پانچ دیگر سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور بعد میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت نے بھی کینڈا کے چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑ دینے کی ہدایت کی۔ کینڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں 18جون کو خالصتانی رہنما 45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ممکنہ ملوث ہونے کے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے دھماکہ خیز الزامات کے بعد بھارت اور کینڈا کے درمیان کشیدگی پیداہو گئی تھی۔ جبکہ چند روز قبل ہی کینڈا کے شہر ونی پگ میں ایک اور سکھ علیحدگی پسند رہنما سکھدول سنگھ عرف سکھا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کینڈین وزیراعظم نے کہا تھا کہ سکھ رہنما کے قتل میں ممکنہ طور پر بھارتی ایجنٹ ملوث ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 1.4 سے 1.8 ملین کے قریب بھارتی نژاد کینڈین شہری ہیں۔ بھارت میں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں ہی ہے۔ بھارت میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *