سرائیکی سماجیات
۔ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی*
altafkhandahir@gmail.com Wats app 0300 -7806375.
سرائیکی دھرتی فنون لطیفہ سے لبریز علم و دانش کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔سرائیکی لوک قصہ درحقیقت سرائیکی باشعور سرائیکی قصولیوں کی چھ ہزار سال پرانی ہاکڑہ و سندھ تہذیب وتمدن کا روحانی چولستان روہی تھل کے ریت کے ذروں اور دمان کوہ سلمان کے پہاڑوں میں چھپے قیمتی خزانوں کی طرح ارتقائی اعتبار سے نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔گنتر گراس عالمی مفکر کا کہنا ہے “اگر دنیا میں کتابیں ختم ہوجائیں گیں تو قصولی زندہ رہیں گے”۔ قصہ عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی کوئی نئی بات، واقعہ، حادثہ،داستان،ناول،کتھا، کہانی ،افسانہ، سچ و جھوٹ کا ملاپ وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔عہد جدید میں عملی پریکٹیکل پرفارمنس ڈرامہ،تھیٹر، فلم میں کرداروں، پلاٹ، کینوس کا وجود، منظر نگاری، مکالمہ نگاری، دراصل قصہ،داستان،افسانہ،ناول،کہانی کتھا کے نئے انداز میں روپ ہیں۔کائنات کی تخلیق قصہ گوئی میں محفوظ ہے۔حیوان ناطق انسان نے اشرف المخلوقات کا شرف قوت گوئی کے پہلے فن قصہ گوئی سے حاصل کیا۔قصہ علم روحانیت کی معراج ہے۔تمام علوم کی دولت قصے سے شروع قصے پر ختم ہوتی ہے۔قصہ ہر مشکل کا حل ہے۔قصہ استاد انسان ہے۔ میں قصے کا مطلب حق سچ یعنی صبح صادق ہی لوں گا۔کیونکہ رب العزت جلال کی الہامی لاریب کتاب قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ نہیں بلکہ پوری سورت کا خوبصورت نام سورہ القصص ہے۔جس میں قدیم سابقہ اقوام کے عروج و زوال کےقصے درج ہیں۔آسمانی مقدس کتابوں میں زبور، تورات،انجیل، صحیفے مبارکہ کے ساتھ دیگر معزز مذاہب کی روحانی کتب مقدسہ میں بھی قصے درج ہیں۔ موضوع ومقصد سب کا ایک انسان اور فلاح انسانیت ہے۔قصہ دراصل ایک من پسند اور آسان ترین عملی مثالی قابل فہم وشعور کا اعلی ترین نمونہ ہے۔نبی آخری زماں حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کی سیرت طیبہ میں بے شمار قیمتی سبق آموز حق سچ قصے موجود ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کے معجزات مبارکہ انسانوں کی بہترین اصلاح ، تربیت اور رشدوہدایت کے لیے ہمیشہ موجود رہیں گے۔قصے کے فن اور اس کو ہمیش عزت و توقیر ملتی رہے گی۔کیونکہ قرآن مجید کی حفاظت خود آپ نے فرمائی ہے۔جس کی ایک سورہ القصص پارہ 20 میں موجود ہے۔اب ہمیں یہ فکر ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ قصے کا وجود باقی رہے گا کہ نہیں۔ہر گزرتا لمحہ قصہ کہلاتا ہے۔قصہ گوئی کا خوبصورت آغاز کن فیکون کے حکم سے شروع لا متناہی روحانی سفر فیض اللہ پاک کے حکم سے ہمیش چلتا رہے گا۔اللہ پاک نے ہر دور میں اپنے بندوں کی خیر سلامتی اور کامیاب کونسلنگ کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا۔اب سلسلہ نبوت حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام تک ختم ہوگیا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی تعلیمات کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی اہل بیت المقدس، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، اولیاء اللہ کرام کے توسط سے تا قیامت خیر کا پیغام پہنچتا رہےگا۔حق سچ والا قصہ انسانی نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے۔قصہ ہر نسل کی تربیت و کامیابی کی کنجی ہے۔سرائیکی عالمی ادبی شخصیت ماہر سرائیکی سماجیات ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو کہتے ہیں “قصہ انسان شعور کا بنیادی بیج ہے۔سرائیکی قصولیوں نے قصے کے ذریعے آپنی قوم کے حقیقی ادب کو سینوں میں محفوظ رکھا”۔
قصوں کو مختلف دانشوروں نے اپنی عقل و دانش سے کسی نے انسانی عمری تقسیم سے،بچوں،لڑکپن، ،نوجوانوں
،بوڑھوں کے قصوں بانٹا۔کچھ ادیبوں نے اپنی شعوری پختگی سے قصوں کو متھ، لیجینڈ، ہیروز،مشاہیر، مذہبی،رومانس عشقیہ قصوں پر مشتمل اقسام گنوائیں۔سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق و نقاد محمد حفیظ خان کے مطابق “قصہ انسانی قوت گوئی کی عظیم ترین گواہی ہے۔سرائیکی قصے سے قدیم و جدید ادیبوں نے رہنمائی حاصل کی ہے”۔ سرائیکی دھرتی تصوف کے مہان کلاسیکل شاعر سئیں پروفیسر رفعت عباس کہتے ہیں ” سرائیکی لوک قصے نے سرائیکی معصوم قوم کو ہر عہد میں جینے کا فن سکھایا ہے۔شاعری کے پر اسرار رازسمجھنے کے لیے میں نے سرائیکی قصوں کی بھاشا کو اپنی طاقت بنایا”۔ قصوں کی بدولت لاکھوں سالوں میں انسانوں نے اپنی شکل،صلاحیتوں اور سماجی ساخت کو بدلا ہے۔مجھے قصے سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے۔میں نے ہر مشکل کا حل سرائیکی قصے میں موجود روحانی شخصیت کی حکمت سے سیکھا ہے۔میرے روحانی مرشد کامل حقیقی شہنشاہ تجلیات و فیضان حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع نے رب العزت جلال کے حکم سے میری روحانی راہنمائی فرمائی ہے۔قصے کے عمل نے مجھے سیدھے چلنا سیکھایا ،اوزاروں کا استعمال کرنا سکھایا کیا، آگ کو اپنا ساتھی بنایا۔غاروں میں رہنے والے انسان کو باشعور قصے کی شعوری پختگی نے تربیت کرکے محفوظ ماحول فراہم کیا۔ترقی و خوشحالی کا نیا وذڈم عطاء کیا۔پیچیدہ زبانوں کو ایجاد کیا۔ شکاری دور سے زراعت کے دور کا سفر کیا اور پھر شہر اور تہذیبیں قائم کیں۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم عمل بھی ہے جس نے انسان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔یہ سب کچھ قصوں کا سننا اور سنانا کی بدولت ممکن ہوا۔مجھے قصے کی صنف سے جنون کی حد تک لگاو اس وجہ سے ہے کہ میرا ایم فل تھیسز بعنوان ” قلعہ ڈیراور وچ وسدے لوکاں دے قصے ” پی ایچ ڈی مقالہ بعنوان ” سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات” ہے۔ ایم اے میں مقالہ ” احمدپورشرقیہ دی سرائیکی ادبی گوجھی” دراصل میرے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا قصہ ہے۔مشہور کہاوت ہے ” ضرورت ایجاد کی ماں ہے”۔عہد پتھر یعنی ابتدائی دور میں انسانوں نے خود کو دوسرے حیوانات سے تحفظ کیلئے اور سخت غذاء کو نرم کرنے کیلئے آگ کا استعمال کیا تھا۔سماج کا بنیادی یونٹ میاں بیوی ہیں۔انسانی جبلت ہے وہ اپنی خوشی وغم دوسرے انسان سے لازمی سانجھا کرتا ہے۔اپنے مسکن کی جگہ آگ کے گرد بیٹھ کر قصوں کا آغاز ہوا تھا۔ اور پھر انہی قصوں کی بدولت انسانی تہذیب وتمدن نے جنم لیا۔ جب انسان ابھی سیکھ رہا تھا، قصے سننا اور سنانا انسان کے ارتقائی سفر کا ایک لازمی حصہ رہا تھا اور یہ آج بھی قصہ ہماری زندگیوں کو معنی اور سمت فراہم کررہاہے۔انسان کے آغاز سے ہی قصوں نے اس کا ساتھ نبھایا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ السلام کا جنت سے نکالے جانے کا قصہ، شیطان مردود کا انسان سے ازلی دشمنی کا قصہ آج بھی کتابوں کی زینت ہے۔
قصہ دراصل انسانی شعور و عرفان کی خود رو تحفظ فراہم کردہ تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔اس گہرے رشتے نے انسان کی تاریخ کو رنگ دیا ہے۔علم وادب اور لسان و ثقافت کی شروعات قصوں کے ذریعے ممکن ہوئی۔ابتدائی مراحل سے انسان ایک دوسرے کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں سکھاتا رہا۔ مثلاً،بھوک سے لڑنے کے لیے شکار کے طریقے، پودوں کی پہچان، موسموں کی تبدیلی، خطرناک جانوروں سے بچاؤ کے سلیقے طریقے بنیادیں بنیں۔ یہ سب کچھ قصوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔قصوں کا سننا اور سنانا یہ صرف معلومات کا تبادلہ خیال نہیں تھا بلکہ قصوں کی ثقافتی روح نے آپس تعلقات و اتحاد کو فروغ دیا۔قصولیوں کی ابتدائی قصہ گوئی کی محفل نے انسانوں کی چھپی صلاحیتوں و خوبیوں کو نیا ترقی پذیر رخ عطاء کیا۔ اب انسان روزی روٹی ذرائع معاش کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا گیا۔روحانی خیال کی مشعل سے تاریک راہوں میں روشنی پھیلانے کا سبب بنا۔ایک نسل سے دوسری نسل تک روایات، عقائد، اور تاریخ کو منتقل کرنے کا ذریعہ بھی بنتا رہا۔کائنات کا پہلا چارٹ انسانی سوچ تھی جو قصہ کی شکل میں ابتدائی انسانوں کے پاس منتقل ہوئی۔دنیا کو سمجھنے کیلئے آج کی طرح سائنسی طریقے نہیں تھے تاکہ فطرت کے پیچیدہ عمل کو سمجھ سکیں۔انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات اور فطرت کی قوتوں کو سمجھنے کے لیے قصوں اور افسانوں کا سہارا لیا۔قصہ پہلا انسانی سائینس کی لیبارٹری بنی۔پرندوں کو دیکھ کر قالین پر سوار ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی آج کے انسان کے لیے ہوائی جہاز، ائیر بس، ہوائی کاریں، پیرا شوٹ کی تکمیل ہے۔ بادلوں کی گرج، سورج اور چاند کی روشنی اور دیگر قدرتی کا مظہر دیوی دیوتاؤں کی نشانیاں بتانے والا قصولی دراصل آج کا سائنس دان ہے۔قصہ روحانیت اور سائینسیت کی دو مضبوط ترین آنکھیں، صاف شفاف صحت مند دو کان،دو نالی والی مضبوط ناک،تجربات، محسوسات و مشاہدات کو پڑکھنے والا دل و دماغ ہے۔ زلزلے کے جھٹکے کو قصولی نےزمین کو ہلانے والے دیہہ کا غصہ سمجھ لیا تھا، قصولی کے مطابق زمین کو ایک بڑے بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ حرکت کرتا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ یہ قصے دراصل انسانی بقاء کے تحفظ کے محافظ تھے۔جن کی بدولت قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی یا پالیسی نے جنم لیا۔ قصے نے نہ صرف ان کی زندگی کو با معنی بنا دیا تھا بلکہ انہیں اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے میں بھی مدد بھی فراہم کرتا تھا۔
قصہ انسانیت کی بھلائی کے کمپاس، روبوٹ، ریڈار ثابت ہوا۔انسانی رشتوں کی خوبصورتی میں قصوں کی رفعت نے آپس میں اتحاد ویکجہتی، محبت و احترام کا نیا جہاں دیا۔ ٹوٹے دلوں نیا خلوص بھر دیا۔ قصے صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ وہ پل بریج ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔آگ کے گرد بیٹھے لوگوں کی آوازیں، ہنسی خوشی اور آنسو،جب قصوں میں ڈوب جاتے تھے تو ایک ہی دھڑکن بن جاتے ہیں ۔قصوں کی بدولت آج سات براعظموں پر مشتمل تقریبا ساڑھے سات ارب کی انسانی آبادی، ساڑھے چھ ہزار مختلف زبانیں بولنے والوں،متنوع ثقافتوں اور خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔سب کو ایک گلوبل ویلج میں خوشی خوشی جوڑ دیا ہے۔ آج بھی اسلام آباد لوک ورثہ قومی ادارے میں غیر ملکی انسانوں کا امن بھرا سرائیکی جھمر رقص مقامی سرسنگیت سرائیکی نےسندھی،بلوچی،پنجابی،پشتو، اردو، کشمیری، انگلش، جاپانی،امریکن جرمنی کو ایک ہی قصے کے کردار بنا دیئے ہیں۔ایک قصہ جس میں مختلف انسانی جذبات و احساسات کو سنتے تھے، تو ان کے اندر ایک ہی طرح کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی بات سمجھتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شامل ہوتے تھے۔ قصوں نے انسانوں کو مشترکہ تجربات فراہم کیے ہیں اور انہیں محسوس کرایا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا ۔سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ ثقافتی گلدستے کو مضبوط کیا۔ قصوں نےمعاشرتی تبدیلی لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ قصوں نے احترام آدمیت کے فلسفے کو بام عروج بخشا۔لوگوں کو حق سچ،انصاف،برابری اور آزادی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ سرائیکی لوک قصے اب ایک مکمل بااعتماد دستاویزات کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔جن کی مدد سے ہر معاشی خوشحالی و ترقی نظر آئے گی۔ قصے صرف تفریح نہیں بلکہ ہمیں مشترکہ ثقافتی ورثہ بھی عطاء کیا ہے۔ ہمیں ایک مشترکہ انسانیت کا احساس دلایا ہے۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم سب انسان جن کا خون سرخ رنگ کا ہے سب ایک دوسرے کا احترام کریں۔کوئی کسی کے ساتھ ظلم و بربریت نہ کرے۔ہر انسان کی علمی قابلیت صلاحیت و خوبی کی بنا پر ترقی ملے۔ہم سب ایک ہی قصے کے تنوع ترقی یافتہ کردار ہیں۔ آج بھی اور پھر کل جب ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہےہوں گے تو پھر ہمارے قصے ہمیں امید، جرات، فلسفہ جلال اور حوصلہ دیتے رہیں گے۔انسانی زندگی کی پہلی بنیادی درسگاہ، مادرعلمی اسکول خود ماں کی گود ہوتی ہے جہاں ہمیں پہلا سبق قصے کی شکل میںسکھایا جاتا ہے۔مادری زبان میں قصے کا ابلاغ صدیوں کی روحانی عرفانی فضیلت کی تاثیر عطا کرتا ہے۔ قصہ پہلا اسکول ہے جہاں سے سیکھنے اور تربیت کا آغاز ہوتا ہے ۔دادی اماں، نانی اماں ، دادا جان ، دادی جان تمام معزز بزرگوار ہستیاں قصوں کی ابتدائی انسانی شعور گاہ ہیں۔ جہاں سکون واطمینان قلب میسر آتا ہے۔بزرگوں کے قصوں کے ذریعے بچوں کو نہ صرف اخلاقی قدریں اور اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی تھیں بلکہ انہیں زندگی کے عملی پہلوؤں جیسے شکار، زراعت اور قدرتی خطرات سے بچنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے تھے۔ یہ قصے بچوں کے لیے مثالی کردار پیش کرتے تھے۔جنہیں وہ اپنا آئیڈیل بناتے تھے اور ان کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اس طرح قصوں نے بچوں کی سماجی، اخلاقی اور عملی زندگیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔انہیں خاندان یا سوسائٹی کا ایک اچھا فرد بننے کے لیے تیار کیا۔جس نسل نے اپنے آباواجداد سے قصوں کے اثرات کو اپنایا تو انہوں نے نئی دنیا اور نئےجہاں تخلیق کیے۔قصے اور افسانے انسانوں کے لیے ایک ایسا دروازہ ہوتے ہیں جو انہیں حقیقت کی دنیا سے ہٹ کر ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ اس سے ان کی تخیلاتی قوتتیں پھلتی پھولتیں اور آگے بڑھتیں ہیں۔ اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگتے ہیں۔ قصے انسانوں کی تخیلاتی قوت اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں اور انسان کو نئی نئی چیزیں دریافت کرنے اور سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان قصوں کے ذریعے انسان خوابوں کی دنیا میں سیر کرتے ہیں اور اپنی خواہشات اور امیدوں کو پورا کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ قصے ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ مثلا ریڈار،ٹیلی ویژن، ریڈیو،موبائل فون،میزائل،ہوائی جہاز، انٹرنیٹ، روبوٹ، اور خلائی سفر سب سے پہلے قصوں میں ہوائی جادوئی قالین،طلسماتی شیشہ، طلسماتی تیر و تلوار، اڈن کٹولہ وغیرہ ہی تصور کیے گئے تھے۔ آج یہ سب حقیقت بن چکے ہیں۔ یوں قصے اور افسانے نئی دنیاؤں کی تخلیق کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔جو انسانوں کو نئی سوچوں اور امکانات کی طرف لے جاتے ہیں۔قصوں کی زبان ہمیں غاروں میں موجود ابتدائی انسانی ہاتھوں سے بنی اشکال ہیں۔مورتیاں ہیں۔جیسے بچہ پیدائش کے وقت بول نہیں سکتا مگر اشاروں سے آپنی التجا ماں کو پیش کرتا رہتا ہے۔ اس کی ماں اس کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے مسائل و ضروریات لکھ کر بھی اور زبان سے بول کر بتاتا ہے۔ زبان بھی اسی طرح پروان چڑھتی ہے۔میری بیٹی زینب الطاف ڈاھر بی بی اپنی باتیں اشاروں اور آوازوں کے ذریعے سے ہم میاں بیوی تک پہنچاتی ہے۔آج بھی انسانی پہلا رسم الخط تصویری اشکالی رسم الخط ہے۔انسان نے اپنے قصوں کے ذریعے سے اپنا کتھارسس مدعے کو پتھر اور غار کی دیواروں اشکال بناکر نقش کیا۔ یہ نقش و نگار نہ صرف ان کی روزمرہ کی زندگی بلکہ ان کے عقائد اور تصورات کی بھی عکاسی کرتے تھے۔قصے میں قصولی جانوروں، درختوں اور بادلوں کو بھی انسانوں کی طرح بات کرتے ہوئے دکھاتے تھے۔ ان کے قصوں میں جادو، دیوی دیوتا، مافوق الفطرت عناصر اور روحانی قوتوں سے لبریز ہوتی تھیں۔ جو ان کے لیے قدرت کا مظہر تھیں۔آج جب ہم پیچیدہ زبانوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو قصہ کے طور طریقے بھی بدل چکے ہیں۔روہیلے چولستانی قصولیوں میں میدا رام ، سمارا رام، مجید مچلا، فیض مائی بھٹی، میرے ابا جی سئیں غلام مصطفٰی خان ڈاھر، مہر غلام رسول، جام غلام یاسین لاڑ جیسے عظیم الشان قصہ گو سرائیکی وسیب کی عالمگیر فوک وزڈم آرکیالوجی سائٹس ہیں۔ان کی معاشی خوشحالی کے اقدامات حکومت پاکستان سمیت اقوام متحدہ اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔قومی سرائیکی لوک دانش کے اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے مقامی چولستانی قلعہ ڈیراور پر میوزیم قائم ہو۔ان لوگوں کو مراعات دیں جائیں۔ہم ان کی لوک دانش کو جدید ٹیکنالوجی سسٹم سے دنیا تک آن ائیر کراسکیں۔اب ہم قصے کتابوں، فلموں، ڈراموں، تھیٹر اور ویڈیو گیمز کے ذریعے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دیکھتے اور محسوس بھی کرتے ہیں، گویا قصے کے کردار کو خود جی رہے ہوں۔ یہ سب کچھ “فکشن” افسانوی ادب کے نام سے جانا جاتا ہے اس طرح قصہ گوئی کا فن آج بھی زندہ ہے۔ اور نئی نئی شکل اختیار کر رہا ہے۔قصوں کی کتھا انسانیت کی مشترکہ آواز کے طور پر حضرت انسان کے ارتقاء میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ قصے نےانسان کی زبان،ادب،شعور، فنون لطیفہ
،اخلاقی اقدار، سلیقہ، ریت روایت،علمی
،روحانی،شناخت،ثقافت اور سوسائٹی، قوم و ملک کی تشکیل نو میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہےگا۔قصوں کی پہلی ادبی بیٹھک ہی انسانوں کی پہلی یونیورسٹی کہلائی۔جہاں سے سیکھنے اور تربیت کا آغاز ہوا۔ماں کی گود میں سکون واطمینان قلب کا خوبصورت پہلا شعر قصے کے الفاظ ہی ہوتے ہیں۔انہوں نے انسان کی سوچ کو پروان چڑھایا، تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت بخشی اور تاریخ کو محفوظ کیا۔ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے تنوع سے بھریل لوک قصے،اپنی منفرد روایت اور پہچان رکھتے ہوئےہیں۔ انسانوں کےمشترکہ تجربات و مشاہدات ہم تک مختلف انداز میں قصے کی بدولت پہنچےہیں۔ مثلاً، یونانی دیوتاؤں کی قصے،جہاں دیوی دیوتاؤں کو انسانوں کی طرح ہی جذبات اور کمزوریاں حاصل تھیں، ہندو متھالوجی و فلسفہ کے قصےجو روحانیت اور کائنات کے رازوں پر زیادہ زور دیتے ہیں، افریقی لوک قصے جن میں جانور اکثر انسانی کردار ادا کرتے ہیں اور اخلاقی سبق دیتے ہیں۔جاپانی تہذیب وتمدن سے جڑے لوک قصےجو فطرت اور انسان کے رشتے کو ایک مختلف تناظر میں پیش کرتے ہیں۔عبرانی و عربی زبان کے مہان کلاسیکل لوک قصے جیسا کہ “الف ليلة(ایک ہزار ،ایک راتیں)” یہ بادشاہوں
،ملکہ،شہزادیوں، وزیروں، غلاموں اور سحر و جادو کے دلچسپ قصے جو ایک نئی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔ چائنیز وذڈم سے مالا مال قصے، جس میں ڈریگن اور اژدہاؤں کا ذکر ہے یہ طاقت، ترقی،خوشحالی اور قدرتی قوتوں کی علامت ہیں۔اہل فارس کی روحانی کرامتوں کے قصے،نیز کنفیوشس کی تعلیمات پر مبنی حکایتیں جو ہمیں اخلاقیات اور حکمت سکھاتی ہیں۔ یہ مختلف سلیقے، انداز اور نقطہ نظر، ہمیں کامیاب حیاتی گزارنے اور کائنات کے پر اسرار رازسمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قصے صرف تفریح نہیں بلکہ کسی قوم کی حقیقی معنوں میں میری سوچ کے مطابق تہذیب وتمدن، تاریخ،ثقافت کا آئینہ بھی ہوتیں ہیں۔جو اس کی سوچ، عقائد، روایات اور ادب و فکری علوم کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ مختلف انداز اور نقطہ نظر سے ہماری رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ مقامی قصوں کی روایت نے انسان کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور دنیا کو سمجھنے کا ایک زبردست ذریعہ عطاء کیا ہے ۔قصے کیا ہمیشہ زندہ رہیں گے! قصے عظیم مخلوق حیوان ناطق انسانوں ایک دوسرے سے جوڑنے اور معاشرہ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہیں ہیں۔مگر دوسرے رخ سے انہی قصوں کی وجہ سے آپس میں جنگیں،لڑائیاں،نفرتیں اور سوسائٹی میں توڑ پھوڑ اور خون خرابا کی نوبتیں سامنے آئیں۔ دینی اور قومی قصے خاص طور پر اس حوالے سے مضبوط مثالیں ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کے حکمت و دانش سے لبریز لوک قصے درحقیقت،
تخیلات، وہم، سچ اور جھوٹ، اچھا اور برا، محبت اور نفرت یعنی ماضی، حال اور مستقبل کے بارے سب کچھ علم و تربیت کے مخفی ظاہری راز اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ قصوں میں انسانوں کے سماجی و اخلاقی اقدار کی عملی مثالی تصاویر موجود ہیں۔قدرت نے قصوں، داستانوں اور افسانوں کو ایک طرف تو ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ بناتی ہے اور دوسری طرف ایک پیچیدہ مسئلہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ انسان کے مستقبل میں ان قصوں کا کیا رول ہونا چاہئے یا ہوگا۔ سوال یہ ہے؟کیا اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل دور میں قصوں کی اہمیت و افادیت کم ہو جائے گی؟ اورکیا موجودہ انسانی صدی قصوں کی آخری صدی کہلائےگی؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ۔مگر آج بھی قصوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔آج بھی ہم انہیں سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں اور فلموں کی نمائش دراصل انسانی قصے کی شعوری پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہمارے بہت سے تصورات و نظریات انہی قصوں اور افسانوں کی بنیاد پر بنے ہیں اور اسی لیے قصے کو دنیا میں سب سے طاقتور اور آسان فہم میڈیم سمجھا جاتا ہے۔سرائیکی لوک قصہ جس نے ماں وادی ھاکڑہ تہذیب وتمدن اور بیٹی وادی سندھ جیس نے اپنی ہم عصر و ہم پلہ میسوپوٹومپیا سمیرین اور مصری اہرامی تہذیب وتمدن کے ساتھ دنیا کو اعلی شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ اور نصیحت و وصیت کا عملی کامیاب نصاب مہیا کیا ہے۔سرائیکی لوک قصوں کی حفاظت کرنے والے روہی چولستان، دمان پہاڑ، تھل راوا دریائی سرائیکی قصولیوں سمیت دنیا کے ہر قصولی کے تحفظ و مراعات کے اقوام متحدہ سمیت ہر ملکی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ورنہ نئی نسل اپنے قومی ورثے سے محروم رہ جائے گی۔