کیا سرائیکی لوک قصے دنیا میں زندہ رہیں گے؟

سرائیکی سماجیات
ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھرجلالوی

altafkhandahir@gmail.com
Wats app 0300 -7806375.
سرائیکی دھرتی فنون لطیفہ سے لبریز علم و دانش کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔سرائیکی لوک قصہ درحقیقت سرائیکی باشعور سرائیکی قصولیوں کی چھ ہزار سال پرانی ہاکڑہ و سندھ تہذیب وتمدن کا روحانی چولستان روہی تھل کے ریت کے ذروں اور دمان کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں چھپے قیمتی خزانوں کی طرح ارتقائی اعتبار سے نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔گنتر گراس عالمی مفکر کا کہنا ہے “اگر دنیا میں کتابیں ختم ہوجائیں گیں تو قصولی زندہ رہیں گے”۔ قصہ عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی کوئی نئی بات، واقعہ،حادثہ،داستان،ناول،کتھا،کہانی، افسانہ،سچ و جھوٹ کا ملاپ وغیرہ کے لیے جاتے ہیں۔عہد جدید میں عملی پریکٹیکل پرفارمنس ڈرامہ،تھیٹر، فلم میں کرداروں،پلاٹ، کینوس کا وجود، منظر نگاری،مکالمہ نگاری،دراصل قصہ
،داستان،افسانہ،ناول،کہانی،کتھا کےنئے انداز میں روپ ہیں۔کائنات کی تخلیق مادری زبانوں کے فن کمال قصہ گوئی میں محفوظ ہے۔حیوان ناطق انسان نے اشرف المخلوقات کا شرف قوت گوئی کے پہلے فن قصہ گوئی سے حاصل کیا۔قصہ علم روحانیت کی معراج ہے۔تمام علوم کی دولت قصے سے شروع قصے پر ختم ہوتی ہے۔قصہ روشنی کا وہ عصاء ہے جس نے گمشدہ خزانوں کو ڈھونڈ نکلا۔قصہ ہر مشکل کا حل ہے۔قصہ انسان کا عملی کامیاب استاد ہے۔ میں قصے کا مطلب حق سچ یعنی صبح صادق ہی لوں گا۔کیونکہ رب العزت جلال کی الہامی لاریب کتاب قرآن مجید کی ایک آیت کریمہ نہیں بلکہ پوری سورت کا خوبصورت نام سورہ القصص ہے۔

جس میں قدیم سابقہ اقوام کے عروج و زوال کےقصے درج ہیں۔آسمانی مقدس کتابوں میں زبور، تورات،انجیل، صحیفے مبارکہ کے ساتھ دیگر معزز مذاہب کی روحانی کتب مقدسہ ویدک لٹریچر میں بھی قصے درج ہیں۔موضوع ومقصد سب کا ایک انسان اور فلاح انسانیت ہے۔قصہ دراصل ایک من پسند اور آسان ترین عملی مثالی قابل فہم وشعور کا اعلی ترین نمونہ ہے۔نبی آخری زماں حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کی سیرت طیبہ میں بے شمار قیمتی سبق آموز حق سچ قصے موجود ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کے معجزات مبارکہ انسانوں کی بہترین اصلاح،تربیت اور رشدوہدایت کے لیے ہمیشہ موجود رہیں گے۔واقعہ معراج نے قصے کو بام عروج بخشا۔قصے کے فن اور اس کو ہمیش عزت و توقیر ملتی رہے گی۔کیونکہ قرآن مجید کی حفاظت خود اللہ پاک نے فرمائی ہے۔جس کی ایک سورہ القصص پارہ نمبر20 ،تلاوت قرآن مجید موجودہ ترتیب کے لحاظ سے مکی سورہ نمبر 28،کل آیات 88 ،رکوع9،جب کہ نزولی ترتیب وار سورہ 49 ہے۔اب ہمیں یہ فکر ہرگز نہیں کرنی چاہیے کہ قصے کا وجود باقی رہے گا کہ نہیں۔ہر گزرتا لمحہ قصہ کہلاتا ہے۔قصہ گوئی کا خوبصورت آغاز “کن فیکون” کے حکم سے لامتناہی روحانی سفر فیض جاری و ساری ہے۔جو اللہ پاک کے حکم سے ہمیش چلتا رہےگا۔اللہ پاک نے ہر دور میں اپنے بندوں کی خیر سلامتی اور کامیاب کونسلنگ کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا۔اب سلسلہ نبوت حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام تک ختم ہوگیا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی تعلیمات کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کےاہل بیت المقدس،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین،اولیاء اللہ کرام کے توسط سے تا قیامت خیر کا پیغام پہنچتا رہےگا۔حق سچ والا قصہ نسل انسانی میں پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتا آرہا ہے۔قصہ ہر نسل کی تربیت و کامیابی کی کنجی ہے۔سرائیکی عالمی ادبی شخصیت ماہر سرائیکی سماجیات ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو کہتے ہیں “قصہ انسانی شعور کا بنیادی بیج ہے۔سرائیکی قصولیوں نے قصے کے ذریعے آپنی قوم کے حقیقی ادب کو سینوں میں محفوظ رکھا”۔قصوں کو مختلف دانشوروں نے اپنی عقل و دانش سے کسی نے انسانی عمری تقسیم سے،بچوں،لڑکپن،نوجوانوں،بوڑھوں
کے قصوں میں بانٹا۔

کچھ ادیبوں نے اپنی شعوری پختگی سے قصوں کو متھ،فیبل
،لیجینڈ ،ہیروز،مشاہیر،مذہبی،رومانس عشقیہ قصوں پر مشتمل اقسام گنوائیں ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کے نامور محقق و نقاد محمد حفیظ خان کے مطابق “قصہ انسانی قوت گوئی کی عظیم ترین گواہی ہے۔سرائیکی قصے سے قدیم و جدید ادیبوں نے رہنمائی حاصل کی ہے”۔سرائیکی دھرتی تصوف کے مہان کلاسیکل شاعر سئیں پروفیسر رفعت عباس کہتے ہیں”سرائیکی لوک قصے نے سرائیکی معصوم قوم کو ہر عہد میں جینے کا فن سکھایا ہے۔شاعری کے پر اسرار رازسمجھنے کے لیے میں نے سرائیکی قصوں کی بھاشا کو اپنی طاقت بنایا”۔سرائیکی فوک وزڈم کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر ریاض خان سنڈھر کےمطابق”سرائیکی قصہ سرائیکی قوم کے مستقبل کی روشن دلیل ہے”۔قصوں کی بدولت لاکھوں سالوں میں انسانوں نے اپنی سوچ،شکل،صلاحیتوں اور سماجی ساخت کو بدلا ہے۔مجھے قصے سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے۔میں نے ہر مشکل کا حل سرائیکی قصے میں موجود روحانی شخصیت کی حکمت سے سیکھا ہے۔میرے روحانی مرشد کامل حقیقی شہنشاہ تجلیات و فیضان حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع نے رب العزت جلال کے حکم سے میری روحانی راہنمائی فرمائی ہے۔قصے کے عمل نے مجھے سیدھے چلنا سیکھایا،اوزاروں کا استعمال کرنا سکھایا کیا،آگ کو اپنا ساتھی بنایا۔غاروں میں رہنے والے انسان کو باشعور قصے کی شعوری پختگی کے کلیدی تربیتی ورکشاپ نے جینے کا محفوظ ماحول فراہم کیا۔ترقی وخوشحالی کی نئی علم و حکمت کی راہیں عطاء کیں۔خوبصورت پیچیدہ زبانوں کا گلدستہ ایجاد کیا۔شکاری دور سے زراعت کے دور کا سفر کیا۔انسان ایگری کلچر سے کلچر یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ پھر دریاوں کے کنارے نئے شہر اور تہذیبوں کی بنیادیں قائم کیں۔ انسان کی ترقی و خوشحالی اور تعمیر نو کا سفر قصوں کا سننا اور سنانا کی بدولت ممکن ہوا۔مجھے قصے کی صنف سے جنون کی حد تک لگاو اس وجہ سے ہے کہ میرا ایم فل تھیسز بعنوان ” قلعہ ڈیراور وچ وسدے لوکاں دے قصے” پی ایچ ڈی مقالہ بعنوان”سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات” ہے۔ ایم اے میں مقالہ ” احمدپورشرقیہ دی سرائیکی ادبی گوجھی” ریسرچ ورک شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان، دراصل میرے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا قصہ ہے۔مشہور کہاوت ہے” ضرورت ایجاد کی ماں ہے”۔قصہ کی حقیقی محافظ مادری زبان ہی رہی اور رہے گی۔عہد پتھر یعنی ابتدائی دور میں انسانوں نے خود کو دوسرے حیوانات سے تحفظ کیلئے اور سخت غذاء کو نرم کرنے اور جزو جسم کی ضرورت پوری کرنے کیلئے اور خوف کو دور کرنے کے لیے آگ کا استعمال کیا تھا۔

سماج کا بنیادی یونٹ میاں بیوی ہیں۔انسانی جبلت ہے وہ اپنی خوشی وغم دوسرے انسان سے لازمی سانجھا کرتا ہے۔اپنے مسکن کی جگہ آگ کے گرد بیٹھ کر قصوں کا آغاز ہوا تھا۔قصوں کی بدولت انسانی ادب وتمدن نےجنم لیا۔جب انسان ابھی سیکھ رہا تھا،قصے سننا اور سنانا انسان کے ارتقائی سفر کا ایک لازمی حصہ تب بھی رہاتھا اور آج بھی ہماری زندگیوں کو معنی اور سمت فراہم کررہاہے۔انسان کے آغاز سے ہی قصوں نے اس کا ساتھ نبھایا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ السلام کا جنت سے نکالے جانے کا قصہ،شیطان مردود کا انسان سے ازلی دشمنی کا قصہ آج بھی کتابوں کی زینت ہے۔قصہ دراصل انسانی شعور و عرفان کی خود رو تحفظ فراہم کردہ تخلیقی و تجزیاتی فکری صلاحیتوں کا مظہر ہے۔قصے کے گہرے رشتے نے انسان کی تاریخ کو رنگین بنا دیا ہے۔علم و دانش اور لسان و ثقافت کی افادیت و اہمیت کی شروعات قصوں کے ذریعے ممکن ہوئی۔ابتدائی مراحل سے انسان ایک دوسرے کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں سکھاتا رہا۔مثلاً،بھوک سےلڑنے کے لیے شکار کے طریقے، پودوں کی پہچان
،حشرات کے فوائد،موسموں کی تبدیلی،خطرناک جانوروں سے بچاؤ کے سلیقے قصوں کی بدولت بنیادیں بنیں۔یہ سب کچھ قصوں کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔قصوں کا سننا اور سنانا یہ صرف معلومات کا تبادلہ خیال نہیں تھا،بلکہ قصوں کی ثقافتی روح نے آپس میں تعلقات و اتحاد کو فروغ دیا۔قصولیوں کی ابتدائی قصہ گوئی کی محفل نے انسانوں کی چھپی صلاحیتوں و خوبیوں کو نیا ترقی پذیر رخ عطاء کیا۔جب انسان روزی روٹی اور ذرائع معاش کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا تب روحانی خیال کی مشعل سے تاریک راہوں میں روشنی پھیلانے کا قصہ ہی سبب بنا۔ایک بشر سے دوسرے بشر تک روایات، عقائد، رسوم و رواج،تاریخ کو منتقل کرنےکا ذریعہ بھی بنتا رہا۔کائنات کی تخلیق کو سمجھنے کا پہلا چارٹ انسانی سوچ تھی جو قصہ کی شکل میں ابتدائی انسانوں کے پاس منتقل ہوئی۔آج کی دنیا کی طرح فطرت کے پیچیدہ عمل کو سمجھنے کے لیے سائنسی طریقے و علوم کے ادارے نہیں تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات اور فطرت کی قوتوں کو سمجھنے کے لیے قصولی کے قصوں اور افسانوں کا سہارا لیا۔قصہ کی بیٹھک ہی پہلی انسانی سائنس کی لیبارٹری بنی۔ قصوں میں پرندوں پر سواری کرنا ،جادوئی قالین پر سوار ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی دراصل آج کے انسان کے لیے ہوائی جہاز، ائیر بس،ہوائی کاریں،پیرا شوٹ کی تکمیل ہے۔ بادلوں کی گرج، سورج اور چاند کی روشنی اور دیگر قدرتی مظاہر میں دیوی و دیوتاؤں کی نشانیاں بتانے والا قصولی دراصل آج کا سائنس دان ہے۔قصہ میرے نزدیک روحانیت تصوف اور سائینسیت طبعیات کی دو مضبوط ترین آنکھیں،صاف شفاف صحت مند دو کان،دو نالی والی مضبوط ناک، تجربات،ممکنات،تحقیقات،
محسوسات و مشاہدات کو پڑکھنے والا دل و دماغ ہے۔زلزلے کےجھٹکے کو قصولی نےزمین کو ہلانے والے دیہہ کا غصہ سمجھ لیا تھا، قصولی کے مطابق زمین کو ایک بڑے بیل نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ حرکت کرتا ہے تو زلزلہ آجاتا ہے۔یہ قصے دراصل انسانی بقاء کے تحفظ کے محافظ تھے۔جن کی بدولت قدرتی آفات سے نمٹنے کی حکمت عملی و پالیسی نے جنم لیا۔قصے نے نہ صرف ان کی زندگی کو بامعنی بنا دیا تھا بلکہ انہیں اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے میں بھی مدد بھی فراہم کرتا رہا۔

قصہ انسانیت کی بھلائی کے لئے کمپاس
،روبوٹ،ریڈار ثابت ہوا۔انسانی رشتوں کی خوبصورتی کو قصوں کی رفعت نے آپس میں اتحاد ویکجہتی،امن، محبت و احترام کا نیا جہاں دیا۔ ٹوٹے دلوں میں نیا خلوص بھر دیا۔ قصے صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ حکمت کے وہ عملی پل بریج ہیں جو انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔آگ کے گرد بیٹھے لوگوں کی آوازیں،ہنسی خوشی و غمی کے آنسو جب قصوں میں ڈوب جاتے تھے تو ایک ہی دھڑکن بن جاتے ہیں ۔قصوں کی بدولت آج سات براعظموں میں ایشیا،افریقہ،شمالی امریکہ،جنوبی امریکہ،انٹارکٹکا،آسٹریلیا
،یورپ پر مشتمل تقریبا ساڑھے سات ارب کی انسانی آبادی،ساڑھے چھ ہزار مختلف زبانیں بولنے والوں،متنوع ثقافتوں اور خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے کو درد اور معاشی ترقی کو سمجھنے اور قبول کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔سب کو ایک گلوبل ویلج میں خوشی خوشی جوڑ دیا ہے۔آج بھی اسلام آباد لوک ورثہ قومی ادارے میں غیر ملکی انسانوں کا امن بھرا سرائیکی جھمر رقص مقامی سرسنگیت سرائیکی نےسندھی، بلوچی،پنجابی،پشتو، اردو،بلتی، کشمیری، انگلش،جاپانی،امریکن جرمنی کو ایک ہی قصے کے کردار بنا دیئے ہیں۔ایک قصہ جس میں مختلف انسانی جذبات و احساسات کو سنتے تھے،تو ان کے اندر ایک ہی طرح کے جذبات پیدا ہوتے تھے۔وہ ایک دوسرے کی بات سمجھتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شامل ہوتے تھے۔ قصوں نے انسانوں کو مشترکہ تجربات فراہم کیے ہیں اور انہیں محسوس کرایا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔انہوں نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا۔سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ثقافتی گلدستے کو مضبوط کیا۔قصوں نےمعاشرتی تبدیلی لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔قصوں نےاحترام آدمیت کے فلسفے کو بام عروج بخشا۔لوگوں کو حق سچ،انصاف،برابری اور آزادی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ سرائیکی لوک قصے اب ایک مکمل بااعتماد دستاویزات کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔جن کی مدد سے سرائیکی وسیب میں ہر طرف معاشی و اخلاقی خوشحالی و ترقی نظر آئے گی۔قصے نےصرف تفریح نہیں بلکہ ہمیں مشترکہ ثقافتی ورثہ بھی عطاء کیا ہے۔ہمیں ایک مشترکہ انسانیت کا احساس دلایا ہے۔قصے نے ہمیں سکھایا کہ ہم سب انسان جن کا خون سرخ رنگ کا ہے،سب ایک دوسرے کا احترام کریں۔کوئی کسی کے ساتھ ظلم و بربریت نہ کرے۔ہر انسان کی علمی قابلیت صلاحیت و خوبی کی بنا پر ترقی ملے۔قصہ کا پیغام آفاقیت صرف یہ ہے کہ انسان،انسان کو ہمیشہ نفع پہنچائے۔ہم سب ایک ہی قصے کے تنوع ترقی یافتہ کردار ہیں۔آج بھی اور پھر کل جب ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہےہوں گے تو پھر ہمارے قصے ہمیں خیر، صبروتحمل،بھلائی،امید،بہادری،جرات، سخت محنت اور تصوف کے آفاقی فلسفہ جلال سے ہماری رہنمائی کرکے ہمیں پھر سےکامیاب بنائیں گے۔سرائیکی قصہ سرائیکی وسوں کا ہمیشہ مضبوط حوصلہ اور امن ہتھیار رہا ہے۔انسانی زندگی کی پہلی بنیادی درسگاہ،مادرعلمی اسکول خود ماں کی گود ہوتی ہے جہاں ہمیں پہلا سبق قصے کی شکل میں سکھایا جاتا ہے۔سرائیکی عالمی قصہ منظوم و منثور دونوں صنفوں میں سرائیکی شعراء کرام و نثر نگار قصولیوں کے پیغام آفاقیت کا خوبصورت فلسفہ ہے۔جودنیا کے عالمی لٹریچر کو متاثر کررہا ہے۔مادری زبان میں قصے کا ابلاغ صدیوں کی روحانی عرفانی فضیلت کی تاثیر عطا کرتا ہے۔قصہ پہلا اسکول ہے جہاں سے سیکھنے اور تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔دادی اماں، نانی اماں ، دادا جان ،دادی جان تمام معزز بزرگوار ہستیاں قصوں کی ابتدائی انسانی شعور گاہ ہیں۔جہاں سکون واطمینان قلب میسر آتا ہے۔بزرگوں کے قصوں کے ذریعے بچوں کو نہ صرف اخلاقی قدریں اور اچھے برے کی تمیز سکھائیں جاتیں تھیں بلکہ انہیں زندگی کے عملی پہلوؤں میں کامیاب حیاتی گزارنے کے طور طریقے،شکار،زراعت اور قدرتی خطرات سے بچنے کے علوم بھی سکھائے جاتے تھے۔یہ قصے بچوں کے لیے مثالی کردار پیش کرتے تھے۔جنہیں وہ اپنا آئیڈیل بناتے تھے اور ان کی شخصیت کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔اس طرح قصوں نے بچوں کی سماجی، اخلاقی اور عملی زندگیوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔انہیں خاندان یا سوسائٹی کا ایک اچھا فرد بننے کے لیے تیار کیا۔جس نسل نے اپنے آباواجداد سے قصوں کے اثرات کو اپنایا تو انہوں نے نئی دنیا اور نئےجہاں تخلیق کیے۔قصے اور افسانے انسانوں کے لیے ایک ایسا دروازہ ہوتے ہیں جو انہیں حقیقت کی دنیا سے ہٹ کر ایک نئی دنیا میں لے جاتے ہیں۔اس سے ان کی تخیلاتی قوتتیں پھلتی پھولتیں اور آگے بڑھتیں ہیں اور وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور پڑکھنے لگتے ہیں۔قصے انسانوں کی تخیلاتی قوت اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں اور انسان کو نئی نئی چیزیں دریافت کرنے اور سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ان قصوں کے ذریعے انسان خوابوں کی دنیا میں سیر کرتے ہیں اور اپنی خواہشات اور امیدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی حقیقی زندگی میں نئی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ قصے ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔مثلاً،ریڈار، چاند گاڑی،سیٹلائیٹ ،ٹیلی ویژن،ریڈیو،موبائل فون،میزائل،ہوائی جہاز، انٹرنیٹ، روبوٹ،اور خلائی سفر سب سے پہلے قصوں میں ہوائی جادوئی قالین، طلسماتی شیشہ، طلسماتی تیر و تلوار، اڈن کٹولہ وغیرہ ہی تصور کیے گئے تھے۔آج یہ سب حقیقت بن چکے ہیں۔یوں قصے اور افسانے نئی دنیاؤں کی تخلیق کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔جو انسانوں کو نئی سوچوں اور امکانات کی طرف لے جاتے ہیں۔قصوں کی زبان ہمیں غاروں میں موجود ابتدائی انسانی ہاتھوں سے بنی اشکال سے لکھی ملیں ہیں۔خوبصورت پتھروں سے مورتیاں پر نقش نگاری قدیم انسانی قصے کے نمونےہیں۔جیسے بچہ پیدائش کے وقت بول نہیں سکتا مگر اشاروں سے آپنی التجا ماں کو پیش کرتا رہتا ہے۔اس کی ماں اس کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے مسائل و ضروریات لکھ کر بھی اور زبان سے بول کر بتاتا ہے۔زبان بھی اسی طرح پروان چڑھتی ہے۔میری کم سن تین سالہ بیٹی زینب الطاف ڈاھر بی بی اپنی ٹوٹی پھوٹی باتوں اور اشاروں اور آوازوں کے ذریعے کبھی کبھی پنسل سے دیواروں پر نرم ہاتھوں سے لکیروں کی مدد سے شکلیں بنا کر ہم میاں بیوی تک اپنا پیغام پہنچاتی ہے۔آج بھی دنیا کا پہلا انسانی رسم الخط تصویری اشکالی رسم الخط کو مانا جاتا ہے۔قدیم انسان نے اپنے قصوں کے ذریعے سے اپنا کتھارسس مدعے کو شجر، پتھر اور غار کی دیواروں پر اشکال بناکر پیغام کو آج کے انسان تک سانجھا کیا۔یہ نقش و نگار نہ صرف ان کی روزمرہ کی زندگی بلکہ ان کے عقائد اور تصورات کی بھی عکاسی کرتے تھے۔جس کو ہم آج ٹوٹم و ٹیبوز کا علم کا علم کہتے ہیں۔قصے میں قصولی جانوروں،چرند پرند،دریا، سمندر درختوں اور بادلوں کو بھی انسانوں کی طرح بات کرتے ہوئےدکھاتےتھے۔

ان کے قصوں میں جادو،دیوی و دیوتا،مافوق الفطرت عناصر اور روحانی قوتوں سے لبریز کردار کی ایک بھیڑ ہوتی تھی۔جو ان کے لیے قدرت کا مظہر سمجھنے کا فلم انڈسٹری تھی۔آج جب ہم پیچیدہ زبانوں اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو قصہ کے طور طریقے بھی بدل چکے ہیں۔روہیلے چولستانی قصولیوں میں میدا رام ، سمارا رام، مجید مچلا، فیض مائی بھٹی، میرے ابا جی سئیں غلام مصطفٰی خان ڈاھر، مہر غلام رسول، ملک عبداللہ عرفان، طاہر غنی، ملک آصف سیال، جام غلام یاسین لاڑ جیسے عظیم الشان قصہ گو سرائیکی وسیب کی عالمگیر فوک وزڈم آرکیالوجی سائٹس ہیں۔ان کی معاشی خوشحالی کے اقدامات حکومت پاکستان سمیت اقوام متحدہ اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔قومی سرائیکی لوک دانش کے اثاثے کو محفوظ کرنے کے لیے مقامی چولستانی قلعہ ڈیراور چولستان جیپ ریلی کے سنڑ مقام پر میوزیم قائم ہو۔جہاں دنیا بھر کے سیاح سرائیکی خطے 6000چھ ہزار سالہ قدیم تہذیب وتمدن وادی ھاکڑہ سرسوتی کے قصے کی حقیقت جان سکیں۔ان لوگوں کو مراعات دیں جائیں۔ہم ان کی لوک دانش کو جدید ٹیکنالوجی سسٹم سے دنیا تک آن ائیر کراسکیں۔اب ہم قصے کتابوں، فلموں، ڈراموں، تھیٹر اور ویڈیو گیمز کے ذریعے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ دیکھتے اور محسوس بھی کرتے ہیں، گویا قصے کے کردار کو خود جی رہے ہوں۔ یہ سب کچھ “فکشن” افسانوی ادب کے نام سے جانا جاتا ہے اس طرح قصہ گوئی کا فن آج بھی زندہ ہے۔ اور نئی نئی شکل اختیار کر رہا ہے۔قصوں کی کتھا انسانیت کی مشترکہ آواز کے طور پر حضرت انسان کے ارتقاء میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ قصے نےانسان کی زبان،ادب،شعور، فنون لطیفہ،اخلاقی اقدار،سلیقہ،ریت روایت،علمی،روحانی،شناخت،ثقافت اور سوسائٹی،قوم و ملک کی تشکیل نو میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہےگا۔قصوں کی پہلی ادبی بیٹھک ہی انسانوں کی پہلی یونیورسٹی کہلائی۔جہاں سے سیکھنے اور تربیت کا آغاز ہوا۔ماں کی گود میں سکون واطمینان قلب کا خوبصورت پہلا شعر قصے کے الفاظ ہی ہوتے ہیں۔انہوں نے انسان کی سوچ کو پروان چڑھایا، تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت بخشی اور تاریخ کو محفوظ کیا۔مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے تنوع سے بھریل لوک قصے
،اپنی منفرد روایت اور پہچان رکھتے ہوئےہیں۔ انسانوں کےمشترکہ تجربات ومشاہدات ہم تک مختلف انداز میں قصے کی بدولت پہنچےہیں۔ مثلاً، یونانی دیوتاؤں کی قصے،جہاں دیوی دیوتاؤں کو انسانوں کی طرح ہی جذبات اور کمزوریاں حاصل تھیں،ہندو متھالوجی و فلسفہ کے قصےجو روحانیت اور کائنات کے رازوں پر زیادہ زور دیتے ہیں،افریقی لوک قصے جن میں جانور اکثر انسانی کردار ادا کرتے ہیں اور اخلاقی سبق دیتے ہیں۔جاپانی تہذیب وتمدن سے جڑے لوک قصےجو فطرت اور انسان کے رشتے کو ایک مختلف تناظر میں پیش کرتے ہیں۔عبرانی و عربی زبان کے مہان کلاسیکل لوک قصے جیسا کہ “الف ليلة(ایک ہزار ،ایک راتیں)” یہ بادشاہوں
،ملکہ،شہزادیوں، وزیروں، غلاموں اور سحر و جادو کے دلچسپ قصے جو ایک نئی دنیا سے روشناس کراتے ہیں۔ چائنیز وذڈم سے مالا مال قصے، جس میں ڈریگن اور اژدہاؤں کا ذکر ہے یہ طاقت، ترقی
،خوشحالی اور قدرتی قوتوں کی علامت ہیں۔اہل فارس کی روحانی کرامتوں کے قصے،نیز کنفیوشس کی تعلیمات پر مبنی حکایتیں جو ہمیں اخلاقیات اور حکمت سکھاتی ہیں۔یہ مختلف سلیقے، انداز اور نقطہ نظر، ہمیں کامیاب حیاتی گزارنے اور کائنات کے پر اسرار رازسمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ قصے صرف تفریح نہیں بلکہ کسی قوم کی حقیقی معنوں میں میری سوچ کے مطابق تہذیب وتمدن، تاریخ، ثقافت کا آئینہ بھی ہوتیں ہیں۔جو اس کی سوچ، عقائد، روایات اور ادب و فکری علوم کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ مختلف انداز اور نقطہ نظر سے ہماری رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ مقامی قصوں کی روایت نے انسان کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور دنیا کو سمجھنے کا ایک زبردست ذریعہ عطاء کیا ہے ۔قصے کیا ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ قصے عظیم مخلوق حیوان ناطق انسانوں ایک دوسرے سے جوڑنے اور معاشرہ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہیں ہیں۔مگر دوسرے رخ سے انہی قصوں کی وجہ سے آپس میں جنگیں،لڑائیاں،نفرتیں اور سوسائٹی میں توڑ پھوڑ اور خون خرابا کی نوبتیں سامنے آئیں۔مگر ہمیشہ قصے کی حقیقی تعلیمات فلسفہ امن و تربیت اور رشدوہدایت ہی رہا۔قصوں میں شر کی شکست ہی احترام آدمیت کی بقاء ہے۔قصہ مثبت اثبات و اثرات کا خوبصورت تذکرہ ہے۔سرائیکی قصہ سرائیکی قوم کی اجتماعی یادداشت ہے۔اس نے ہر حملہ آور کا آدر کیا ہے۔

دینی اور قومی قصے خاص طور پر اس حوالے سے مضبوط مثالیں ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کے حکمت و دانش سے لبریز لوک قصے حقیقت
،تخیلات، وہم، سچ اور جھوٹ، اچھا اور برا، محبت اور نفرت یعنی ماضی، حال اور مستقبل کے بارے سب کچھ علم و تربیت کے مخفی ظاہری راز اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ قصوں میں انسانوں کے سماجی و اخلاقی اقدار کی عملی مثالی تصاویر موجود ہیں۔قدرت نے قصوں، داستانوں اور افسانوں کو ایک طرف تو ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ بناتی ہے اور دوسری طرف ایک پیچیدہ مسئلہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں کہ انسان کے مستقبل میں ان قصوں کا کیا رول ہونا چاہئے یا ہوگا۔ سوال یہ ہے؟کیا اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیجیٹل دور میں قصوں کی اہمیت و افادیت کم ہو جائے گی؟ اورکیا موجودہ انسانی صدی قصوں کی آخری صدی کہلائےگی؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا ۔مگر آج بھی قصوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔آج بھی ہم انہیں سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں اور فلموں کی نمائش دراصل انسانی قصے کی شعوری پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہمارے بہت سے تصورات و نظریات انہی قصوں اور افسانوں کی بنیاد پر بنے ہیں اور اسی لیے قصے کو دنیا میں سب سے طاقتور اور آسان فہم میڈیم سمجھا جاتا ہے۔سرائیکی لوک قصہ جس نے ماں وادی ھاکڑہ تہذیب وتمدن اور بیٹی وادی سندھ تہذیب وتمدن کے اپنی ہم عصر و ہم پلہ میسوپوٹومپیا سمیرین اور مصری اہرامی تہذیب وتمدن کے ساتھ دنیا کو اعلی شعور کے ساتھ زندگی گزارنے کا سلیقہ اور نصیحت و وصیت کا عملی کامیاب نصاب مہیا کیا ہے۔سرائیکی لوک قصوں کی وذڈم کی حفاظت کرنے والے روہی چولستان، دمان پہاڑ،تھل،راوا ،میدان،دریائی و سمندری قصولیوں،ہڑپہ،جلیل پور،ہڑنڈ، مہرگڑھ،موہنجوداڑو،رحمان ڈھیری،
بلوٹ قلعہ، ملتان شریف، اوچ شریف سمیت سرائیکی قدیم گنویری والا شہر کےقصولیوں کی طرح دنیا کے ہر قصولی کے تحفظ و مراعات کے لیے اقوام متحدہ کو ہر ملک کی حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ورلڈ آرکیالوجی اداروں کو گنویری والا شہر پر ہاکڑہ یونیورسٹی بنانا ہوگی۔امن و تصوف کے روحانی قصے کی افادیت و تحفظ کی عملی ضمانت کیلئےحضرت سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع صوفی ازم اینڈ آرکیالوجی سائنس یونیورسٹی اوچ شریف میں فوری قائم کرنا ہوگی۔جنگ و نفرت کے قصے کو ختم کرنے کے امن و رواداری کے قصے کا عالم میں عام کرنا ہوگا۔ورنہ نئی نسل اپنے قومی ورثے سے محروم رہ جائے گی۔شاید آپنی بقاء کا تحفظ بھی نہ کرسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *