تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gnail.com
مارچ 2011 میں بشار الاسدحکومت کے خلاف پرامن احتجاج شروع ہوا تھا۔شرق اوسط میں عرب بہار کے نام پر ایک انتشار پھیلااور اس انتشار نے شرق اوسط کے کئی ممالک کو بدترین بحرانوں میں دھکیل دیا۔عرب بہار کے نام پربیرونی طاقتوں کےاشارے پرشرق اوسط میں خانہ جنگی کی صورتحال پیداہو گئی۔قتل عام بھی ہوااورجانی کے علاوہ مالی نقصان بھی ہوا۔شام میں بھی بشار الاسد حکومت کے خلاف ایک احتجاج شروع ہوا اور بعد میں آہستہ آہستہ انتشار اور خانہ جنگی میں تبدیل ہوتاگیا۔یہ احتجاج بے روزگاری،بدعنوانی،نا انصافی،سیاسی پابندیوں اور دیگر عوامل کی بنیاد پر شروع ہوا۔پرامن احتجاج کسی بھی ملک کی عوام کا حق ہوتا ہےاور اس احتجاج کو حق بجانب سمجھ کر مسائل کو سلجھایا جاتا ہے۔اسد حکومت اس احتجاج کواپنے خلاف اعلان بغاوت سمجھ بیٹھی اوراحتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔مظاہروں کو کچلنے کے لیےطاقت کا استعمال کیا گیا،لیکن مظاہروں میں شدت آتی گئی۔مظاہرین نے بھی جوابی رد عمل دیا جس کی وجہ سےملک شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔شام میں انتشار اور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھانے کے لیے بیرونی طاقتیں بھی میدان میں کود پڑیں۔ایک احتجاج بدترین جنگ میں ڈھلناشروع ہو گیا،جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئےاور بد امنی نے شام کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ایک رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔10 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئےاور 15 لاکھ کے قریب معذور ہو گئے۔معذوروں میں کئی لاکھ افراد ایسے ہیں جو عمر بھر کے لیےمعذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔خانہ جنگی کی وجہ سےمعاشی بحران بھی پیدا ہو گیا ہے۔غذائی قلت کے علاوہ ضروریات زندگی کی زبردست کمی ہو چکی ہے۔بیماریاں بھی شدت سےحملہ آورہیں اور علاج کے لیے ادویات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔زلزلے بھی شام کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔مسلسل جنگ سے شام برباد ہو رہا ہےاور جنگ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔اس خانہ جنگی کو تقریبا 13 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔اس خانہ جنگی نےشام کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔امریکہ،روس،سعودی عرب،ایران سمیت کئی ممالک مداخلت کر رہے ہیں جس کی وجہ سےحالات پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ابتدا میں سیاسی مظاہرےشروع ہوئےاور وہ مظاہرےاب جنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔بین الاقوامی طاقتیں مسلسل دخل اندازی کر رہی ہیں۔سعودی عرب سمجھتا ہےکہ ایران نے اگر شام میں اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا تو سعودی عرب کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اورایران بھی یہی سوچ سعودی عرب کے لیے رکھتا ہے۔اسرائیل کو اس بات کا خوف ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف اپنی طاقت استعمال کر سکتا ہے لہذا وہ بھی شام میں خانہ جنگی کا حامی ہے۔امریکہ اور روس چاہتے ہیں کہ شام میں جنگی ماحول قائم رہے،جس کی وجہ سے ان کو اپنے پاؤں جمانے کا موقع مل رہا ہے۔
سیاسی جنگ میں مختلف تنظیمیں اور متعدد ممالک شامل ہو چکے ہیں۔داعش اور القاعدہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔دیگر جنگجو گروپ اپنے اپنے گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔شام میں رہنے والے کردبھی چاہتے ہیں کہ ان کا بھی علیحدہ ملک ہو۔بین الاقوامی تنظیمیں اور ممالک اپنے منظور نظر افراد اور گروہوں کی امداد کر رہے ہیں۔بیرونی مداخلت کی وجہ سے خانہ جنگی ختم نہیں ہو رہی بلکہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔شامی حکومت مسلسل کہہ رہی ہے کہ بیرونی مداخلت دہشت گردی ہے،جس کی وجہ سے شام کا ماحول خراب ہے۔بیرونی دہشت گردی جب تک ختم نہ ہوئی،شام خانہ جنگی کا شکار ہوتا رہے گابلکہ مشرق وسطی میں امن پیدا نہیں ہو سکے گا۔مشرق وسطی کی بد امنی اور انتشاردنیا میں انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔یہ جنگ جو مشرق وسطی میں لڑی جا رہی ہے،ایشیا کو بھی متاثر کر سکتی ہےنیز دوسرے خطے بھی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔شاممیں شیعہ اور سنی تنازع بھی بہت بڑھا ہوا ہے اور یہ فرقہ وارانہ فسادشام میں بد امنی کا سبب بن رہا ہے۔فرقہ پرستی کو ہوا دے کر خانہ جنگی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔سعودی عرب،ایران،پاکستان،روس اور ترکی کوچاہیے کہ شام میں جنگ بندی ہو جائے۔ہم سایہ ہونے کی وجہ سےیہ ممالک بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔شام میں شیعہ اور سنی کا تنازع ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے،کیونکہ جب تک یہ تنازعہ ختم نہ ہوگا،تو ملک میں امن نہیں آسکتا۔لیکن یہ تنازع اتنی آسانی سے ختم ہونے والانہیں،لیکن ختم ہو سکتا ہے۔شام پراثرورسوخ ہونے کی وجہ سےایران اورسعودی عرب زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔کم از کم کوششیں تو کرنی چاہیے۔کئی سالوں سے شروع ہونے والی جنگ آسانی سے ختم نہیں ہوگی،بلکہ اس کے اختتام کے لیے بھی کچھ عرصہ درکار ہوگا۔ممکن ہے کہ دو سال یا اس سے بھی زیادہ سال بھی لگ سکتے ہیں۔شام کی خانہ جنگی جہاں شامیوں کے لیےنقصان کا سبب بن رہی ہے وہاں غزہ کے لیے بھی نقصان کا سبب بن رہی ہے۔مشرق وسطی کے حالات اگرخراب نہ ہوتے تو شاید فلسطینیوں کو بھی اتنی بربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔اسرائیل کی کامیابی اسی میں پوشیدہ ہے کہ شام میں حالات خراب رہیں،بلکہاسرائیل دوسرےعلاقوں میں بھی حالات خراب کرنے کا خواہشمند ہے۔شام میں بیرونی مداخلت کی وجہ سےاسلحہ اورہتھیار پہنچ رہے ہیں اور یہ ہتھیارانسانی جانوں کو قتل کر رہے ہیں۔امداد شام کی بحالی کے لیے بھی دی جا سکتی ہے لیکن اس سے بین الاقوامی قوتوں کو فائدہ نہیں ہوگا اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مسلسل خانہ جنگی جاری رہے۔اسد حکومت سمجھتی ہے کہ مخالفین حق پر ہیں تو ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جائیں۔
بالفرض اگر جنگ رکتی ہے تو شام کی بحالی کے لیے بھی وسیع فنڈ کی ضرورت ہوگی۔عمارتیں،سڑکیں،سکول وغیرہ بنانے کے لیےفنڈ کا ہونا ضروری ہے،اس کے لیے کویت اور سعودی عرب جیسے امیر ممالک فنڈ مہیا کریں۔مضبوط شام ایران اور سعودی عرب کے لیےبہتر پڑوسی ثابت ہو سکتا ہے۔منتشرشام میں دونوں ممالک کےمخالفین قدم جما سکتے ہیں،یوں ان کو ہٹ کرنا آسان ہو جائے گا۔سعودی عرب اور ایران فوری طور پر کوششیں شروع کر دیں اور اس کوشش میں دوسرے ممالک کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ایران اور سعودی عرب آپس میں بھی اختلاف ختم کر لیں،کیونکہ ان کے اختلافات کا فائدہ مخالفین اٹھا رہے ہیں اور امت مسلمہ کونقصان پہنچ رہا ہے۔اب بھی وقت ہے شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہو جائے،ورنہ شام تباہ ہو سکتا ہے۔خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے جتنی جلدی کوششیں کی جائیں گی اتنا ہی بہتر ہوگا۔کئی سالوں سے جاری جنگ آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی،بلکہ وہ طاقتیں بھی نہیں چاہیں گی کہ شام میں فوری طور پر امن آجائےجوشام۔میں خانہ جنگی پھیلارہی ہیں،بلکہ وہ بد امنی پھیلانے کی مزید کوششیں کریں گی۔مسلم ممالک چین سے بھی اپیل کر سکتے ہیں کہ شام میں خانہ جنگی بند کرانے میں اہم کردار ادا کرے۔چین اپنی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے،امید ہے کہ چین اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔اس بات پر فوری طور پر عمل کرنا ضروری ہے کہ شام میں خانہ جنگی بند ہو جائے۔جتنی زیادہ دیر ہوتی جائے گی اتنا ہی نقصان بڑھتا جائے گا۔