تحریر :- وسیم عباس مشوری
مظفر گڑھ
03236981896
یوم مزدور کا پس منظر :-
یورپ اور امریکا میں جب سرمایہ دارانہ نظام نے سر اٹھایا تو اس کا سارا نزلہ محنت کش مزدوروں پر گرا، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جانے لگا اور ان کے کام کے اوقات بھی طے نہیں کیے گئے جس کے نتیجے میں کبھی ان سے 12 ، کبھی 14 ، اور کبھی 18 گھنٹے تک بھی ملوں اور فیکٹریوں میں کام لیا جانے لگا – اس پر ستم یہ کہ انہیں کوئی چھٹی بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے بہت سے مزدور محنت کرتے کرتے بیمار ہو جاتے اور پھر انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا – مزدوروں سے اتنا سخت کام لیا جاتا اور ان کے ساتھ ایسا غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا کہ تاریخ بھی رو پڑے – مزدور بچارے اپنے پیٹ کی بھوک کو مٹانے اور اپنے گھر کو چلانے کیلئے سرمایہ داروں کی نہ صرف بری بھلی باتیں برداشت کرتے بلکہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کو اپنے لئیے جرم سمجھتے – مزدوروں پر جب ظلم و ستم کے پہاڑ حد سے ڑیادہ ٹوٹے تو ان میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی جدوجہد پیدا ہوئی اور انہوں نے اس ظالمانہ نظام سے بچنے کیلئے تحریک کا آغاز کیا – یہ 1886ء کی بات ہے جب یکم مئی تمام مزدوروں نے ہمت کرتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کردیا – 3 مئی کی یہ ہڑتال بہت حد تک پرامن بھی رہی لیکن وہاں کی پولیس کو یہ پرامن ہڑتال گوارہ نہ ہوئی اور اس نے ایک فیکٹری میں گھس کر بے دردی سے 7,6 مزدوروں پر فائرنگ کرتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا –
مئی کی 4 تاریخ کو ایک روز قبل پیش آنے والا واقعہ یعنی 3 مئی کو ہلاک کیے جانے والے مزدوروں اور محنت کشوں سے یکجہتی کے طور پر شکاگو میں پرامن ریلی نکالی گئی جس میں موجود ہر مزدور کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا، کہ ہماری ڈیوٹی کے ٹائم 8 گھنٹے کیے جائیں – مزدور رہنماؤں نے جلسوں میں تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ وہاں پر پولیس نے اپنی کاروائی کا آغاز کردیا ، پولیس کو فنڈنگ سرمایہ داروں نے اتنی زیادہ کردی تھی کہ پولیس نے مزدوروں کے ساتھ ظلم کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی – یہاں تک کہ پولیس نے خود اپنے ہاتھوں بم پھینکا جس میں ایک پولیس والا ہلاک ہوا اور اس کا الزام پرامن ریلی نکالنے والے مزدوروں پر ڈال کر ان کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی – اس کے بعد پولیس نے وہاں پر موجود مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں برسنا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں لاتعداد مزدور ہلاک اور زخمی ہوگئے ، فرش خون سے سرخ ہوگیا ، فضاء میں اداسی چھاگئی ، تاریخ بتاتی ہے کہ انہی میں سے ایک شخص نے خون میں ڈوبی ہوئی اپنی قمیض ہوا میں لہرائی جس کے بعد سرخ رنگ مزدوروں کا علامتی رنگ بن گیا-
اس واقعہ میں 6 پولیس اہلکار اور 4 بے گناہ محنت کش بھی شامل ہیں یہی وہ لمحہ تھا جب مزدور تحریک کا آغاز ہوا ، جسے ہم ہرسال ” یوم مزدور ” کے طور پر مناتے ہیں ، جس کے بعد مزدوروں پر مقدمے تیار کیے گئے ، انہیں پھانسیاں دی گئیں ، انہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی لیکن مزدوروں کی ہمت اور طاقت اور ان کے جذبوں کو کوئی بھی مسمار نہ کرسکا وہ اسی طرح آج بھی اپنی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے لئیے کوشاں ہیں – نومبر 1887 ء کو ایک مزدور رہنما کو پھانسی ، 11 کو سزا سنا دی گئی ، اس محنت کش مزدور رہنما نے ایسے موقع پر اپنی ہمت اور جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی- اسی طرح ایک اور مزدور رہنما نے موت کو کلے لگاتے ہوئے آنے والی محنت کش نسلوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ، ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لئیے اپنی جان پیش کر رہے ہیں –
1893 ء میں جب ایک نئے گورنر کی تقرری جو ترقی پسند تھا اس نے عمر قید کے مزدوروں کو نہ صرف معافی دی بلکہ ان کے مقدمات پر مذمت کا اظہار بھی کیا- اس کے بعد باقاعدہ 1890 ء میں ریمنڈ لیون کی تجویز پر 1890 ء میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں پہلی مرتبہ یکم مئی منایا گیا- اور مزدوروں نے اپنی تحریک اور قربانیوں سے بہت سے نتائج حاصل کیے – مزدوروں پر حاصل ہونے والے حقوق
1- روزانہ 12 سے 18 گھنٹے کام کرنے کی بجائے 8 گھنٹے کام کا حق –
2- ہفتے میں ایک چھٹی لازمی کرنے کا حق –
3- مزدوروں کے حقوق کے لئیے آواز اٹھانے والی ٹریڈ یونین کا حق –
4- مزدوروں کی ملازمت کے تحفظ کا حق-
5- مزدوروں کے لئیے لیبر کورٹ کے قیام کا حق-
6- مزدور خواتین کے لئیے دوران حمل چھٹیوں کا حق –
مزدوروں کا عالمی دن ویسے تو یکم مئی کو منایا جاتا ہے لیکن کچھ ممالک اسے مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں لیکن ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے جو یکم مئی کو منائے جانے کا مفصد ہے- لہذا ہر سال یکم مئی کو چھٹی منانے ، پروگرام منعقد کرنے سے مزدوروں کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ان کا حق ادا کرنے کے لئیے ان کے ساتھ انسانی رویہ اور ان کی معاشی خدمت بہت ضروری ہے-