( شوکت علی)
s.shoukatkhan2013@gmail.com
کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ یکم مئی کس لیے مناتے ہیں؟ یکم مئی مناتے مناتے کتنا عرصہ گزر چکا ہے کتنی حکومتیں آئیں کتنے سیاستدان آئے لیکن سب نے پارلیمنٹ میں یکم مئی کا دن منانے کا قانون بنانے کے علاوہ یہ تک نہی سوچا کہ ہم یکم مئی مزدور ڈے تو منائیں گے لیکن جن کے لیے یہ دن منایا جائے گا کیا وہ بھی اس دن چھٹی کر کے پورے سال کام کی تکھاوٹ دور کریں گے بھی یا نہی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ یکم مئی مزدوروں کا دن نہی بلکہ سرکاری ملازمین کا دن ہے ، سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے سرکاری ملازم ہی یکم مئی کو چھٹی منائیں گے اور کچھ سیاستدان یکم مئی کے حوالے سے ایک دو جلسے کرکے اپنی تصویریں بنواکر میڈیا کے سامنے بیٹھ کر دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ ہمیں مزدوروں کا احساس ہے، سچ تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں جب بھی بل پاس ہوا ہے تو صرف اور صرف بڑے لوگوں کی عیاشیوں اور ان کی سہولیات کا، مزدور بیچارا تو یکم مئی تو کیا عید کے دن بھی عید نماز پڑھنے کے بعد شام کی روٹی کے لیے مزدوری پہ چلا جاتا ہے، اس کو پتا ہے کہ اگر مزدوری پہ نہی گیا تو شام کی سبزی کہاں سے لاؤں گا ، اس حقیقت سے تو کوئی بھی سیاستدان منھہ نہی موڑ سکتا کہ اگر مزدوروں کا احساس ہوتا تو آج ہمیں یکم مئی مزدور ڈے منانے کی ضرورت ہی نا پڑتی، لیکن کیا دور تھا وہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بن گئے اور آپ کی تنخواہ مقرر ہونے لگی توآپ نے فرمایا کہ مدینے کے مزدور کی جتنی تنخواہ ہے میری تنخواہ بھی اتنی ہی مقرر کی جائے اگر میرا گزارا اس میں نا ہوا تو میں مزدور کی تنخواہ بڑھا دوں گا ، افسوس صد افسوس، اسلام کے نام پہ بننے والے ملک پاکستان میں اگر ذلیل و خوار ہے تو غریب مزدور ، پاکستان میں ایسا کون سا ٹیکس ہے جو غریب مزدور نہی دیتا، مزدوروں کے لیے اگر سچ میں فکرمند ہو تو اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، کسی نے سچ کہا ،
پھر یہ بھول جاتے ہو تم
کیسے نکھریں دن ہمارے
کیسے گزرے دن تمہارے
بن ہمارے
ہاتھ پاؤں زخمی میرے
دھوپ چھاؤں چھلنی میرے
ان میں ابھریں دن ہمارے
کیسے گزرے دن تمہارے
بن ہمارے ۔