تحریر۔نادیہ حسین کرمانی
الحمدللہ ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کے بعد وطن عزیز میں انتقال اقتدار کا عمل پرامن طریقے سے مکمل ہو چکا ہے۔ پنجاب میں محترمہ مریم نواز ملک کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونے کے اعزاز کے ساتھ کام شروع کر چکی ہیں۔ سندھ میں مراد علی شاہ تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں اور بلوچستان میں اقتدار کا ہما سرفراز بگٹی کے سر پر بیٹھ چکا ہے۔
وفاق میں ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع مل گیا ہے۔ باقی رہی بات ایوان صدر کی تو وہاں مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری براجمان ہو چکے ہیں۔ سب کو بہت مبارک ہو۔ حلف برداری کی تقریبات بھی خوب رہیں۔ مریم نواز کی تقریب حلف برداری میں ان کے والد میاں نواز شریف بچے کزنز بہن خاندان کے دیگر افراد اور شوہر نامدار کیپٹن صفدر اعوان بھی شریک تھے۔ اسی طرح شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں مریم نواز سمیت شریف خاندان کے قریبی افراد شریک تھے۔
سندھ میں بھی مراد علی شاہ کی تقریب حلف برداری میں زرداری اور بھٹو خاندان کے چیدہ چیدہ افراد شریک ہوئے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کی تقریب حلف برداری میں ان بیٹے بیٹیوں داماد نواسوں اور بہنوں سمیت خاندان کے دیگر افراد نے شرکت کی۔ ماشا اللہ ہر تقریب حلف برداری میں حکمرانوں کے عزیز و اقارب کی خوشی دیدنی تھی۔ آخر ایک مرتبہ پھر ملکی خزانے کی چابیاں ہاتھ لگ چکی ہیں۔ یہ سب خوش نہیں ہوں گے تو کیا ہم غریب عوام خوش ہوں گے۔
اسکول کے زمانے میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھتے تھے کہ ہندوستان پر بادشاہوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ جنگ و جدل کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرتے تھے۔ ان کے بڑے بڑے خاندان ہوتے تھے۔ یہ خاندان نسل در نسل حکومت کرتے تھے۔ ان کی بہت سے ملکائیں ہوتی تھیں۔ شہزادے اور شہزادیاں ہوتی تھیں۔ یہ سب مل کر رعایا پر حکومت کرتے تھے۔ مجھے شاہی خاندانوں کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ جب پہلی بار لفظ رعایا پڑھا تو میں نے اپنی ٹیچر سے پوچھا کہ یہ رعایا کیا ہوتی ہے تو انہوں نے بتایا کہ رعایا وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت ضیا الحق کی جمہوری آمریت کا دور دورہ تھا۔ ہم لوگ عوام کہلائے جاتے تھے اور خود کو عوام ہی سمجھتے تھے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ذہن میں یہ خیال راسخ ہوتا چلا گیا کہ ہم بھی عوام نہیں رعایا ہیں جن پر خاندانی بادشاہ مسلط کر دیے گئے ہیں۔
جن دنوں ہم ہوش سنبھال رہے تھے اس زمانے میں ہالی وڈ نے ایک ٹائم مشین کا خیال متعارف کرا دیا۔ یہ ایک ایسی مشین تھی جس میں بیٹھ کر ماضی یا مستقبل میں سفر کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے محلے میں ایک سائنس کے پروفیسر صاحب رہا کرتا تھے۔ ان کے پاس ایک پرانی موٹر سائیکل تھی۔ ان کا معمول تھا کہ وہ ہر چھٹی کے دن صبح ہی اپنی موٹر سائیکل گھر کے باہر نکال کر بیٹھ جاتے اور شام تک اوزاروں سے اس میں ٹھوکا پیٹی کرتے رہتے۔
ایک دن ہم نے ان کی بیگم سے پوچھ لیا کہ پروفیسر صاحب بائیک میں کیا کرتے رہتے ہیں؟ کہنے لگیں ٹائم مشین بنا رہے ہیں۔ اس میں بیٹھ کر مستقبل میں جائیں گے۔ بس اسی دن سے ہم نے بھی یہ امید لگا لی کہ جس دن پروفیسر صاحب کی ٹائم مشین تیار ہو جائے گی تو ہم بھی اس میں بیٹھ کر ماضی میں جائیں گے اور دیکھیں گے کہ بادشاہ ملکائیں شہزادے شہزادیاں اور رعایا کیسے ہوتے ہیں۔ ہم اسی انتظار میں رہے کہ کب ٹائم مشین تیار ہو اور کب ہم ماضی کے سفر پر روانہ ہوں۔
ٹائم مشین تو نا بنی لیکن بچپن کی معصومہ خواہش کا اظہار اللہ میاں سے نا جانے کس قبولیت کی گھڑی میں کر دیا تھا کہ اللہ نے وہ دل کی لگی پوری کر دی اور ہمیں بغیر ٹائم مشین کے دور ماضی میں پہنچا دیا ہے۔ آج بادشاہ ملکہ شہزادے شہزادیاں وزیر سفیر سب ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ ہم رعایا بن چکے ہیں۔ شاہی خاندانوں کے ٹھاٹ باٹ جو ہم صرف سوچ سکتے تھے اب انہیں اپنے ٹیکس کے پیسوں پر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ خاندان زرداری اور شریف خاندان کے افراد مل کر ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور ہم پچیس کروڑ کو خاندان غلامان بنا رکھا ہے۔
تاریخ میں اکبر بادشاہ کے نو رتن مشہور ہیں۔ یہ کابینہ کی طرح کی کوئی چیز ہوتی تھی۔ شہنشاہ اکبر کے نو رتنوں میں بیربل ابوالفضل اور فیضی زیادہ مشہور تھے۔ بیربل درباری مسخرہ تھا جو اپنی باتوں اور لطیفوں سے شہنشاہ کو سامان تفریح فراہم کرتا تھا۔ ابوالفضل اور فیضی علم و دانش کی بات کرتے تھے۔ اس وقت کے وزراء دیکھیں تو ان میں بیربل تو دکھائی دیں گے جن کا کام حکمرانوں کو خوش کرنا ہے لیکن ابوالفضل اور فیضی جیسے کوئی نہیں جو کچھ کام کی بات بھی کرسکیں۔
اسی مقصد کے لیے سیانوں نے وزیروں کے ساتھ اپنے کچھ مشیر داخل کرا دیے ہیں تاکہ کچھ تو کاروبار مملکت بھی چلتا رہے۔ ورنہ وزیروں کا کام تو صرف اپنے خاندانوں اور حکمرانوں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنا ہے۔ بظاہر تو اقتدار سیاسی خاندانوں کا ہے مگر حکومت کسی اور کی ہے۔ موجودہ حالات کی عکاسی سلیم کوثر کے اس شعر سے ہوتی ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
خبر ہے کہ سکندر سلطان راجہ ایک ہفتے کے لیے روس روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ صدارتی انتخاب میں بطور مبصر شریک ہوں گے۔ پیوٹن بھی بہت گھاگ آدمی ہیں انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جتنے شفاف انتخابات وہ کرا رہے ہیں اس کی گواہی سکندر سلطان راجہ ہی دے سکتے ہیں۔ انہیں تازہ تازہ تجربہ ہوا ہے۔