تحریر۔دانش علی انجم
سارہ 1867 میں امریکی ریاست لوئیزیانا کے ایک سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین، بڑے بھائی اور بہن غلام تھے اور روئی کے کھیتوں میں کام کرتے تھے لیکن سارہ آزاد پیدا ہوئی تھیں۔ محض سات سال کی عمر میں والدین کے انتقال کے بعد وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے ہاں پلی بڑھیں۔ سارہ نے کم عمری ہی سے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا اور ان کی ”باقاعدہ تعلیم“ محض تین مہینے چرچ کے سنڈے سکول میں جانے تک محدود تھی۔
محض 14 سال کی عمر میں سارہ نے موزیز میک ولیمز کے ساتھ شادی کر لی۔ اس لیے نہیں کہ وہ ان سے محبت کرتی تھیں، بلکہ اس لیے کہ ان کے بہنوئی متشدد انسان تھے اور سارہ کے لیے اس خاندان سے جان چھڑانے کا واحد راستہ شادی تھا۔ چار سالوں بعد سارہ اور موزیز کے ہاں ایک بیٹی، ایلیلویا پیدا ہوئی۔ دو سال بعد جب سارہ کی عمر ابھی 20 سال ہی تھی، موزیز کا انتقال ہو گیا۔ اب سارہ ایک بیوہ بھی تھیں اور ان کے کندھوں پر بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری بھی آن پڑی۔
1888 میں سارہ ریاست میزوری کے شہر سینٹ لوئس چلی آئیں جہاں ان کے بھائی بطور حجام کام کرتے تھے۔ انہوں نے پیٹ پالنے اور بیٹی کی تعلیم کے لیے بطور باورچی اور دھوبی کے کام کیا جس سے انہیں تقریباً ڈیڑھ ڈالر روزانہ کی آمدن ہوتی۔ دھوبی گھاٹ میں کام کرنے والے دیگر مزدوروں کی طرح سارہ بھی وہاں استعمال ہونے والے کیمیائی مادوں سے بیمار ہوئیں۔ جلد کی بیماری، گرمی اور پانی کی کمی کے باعث ان کے بال جھڑنے لگے۔ خوش قسمتی سے وہ اپنے بھائیوں کی بدولت بالوں کی حفاظت کا ہنر جانتی تھیں۔ ان کی زندگی میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی جب وہ اینی ملون نامی آدمی سے ملیں، جو بالوں کے لیے مصنوعات تیار کرتا تھا۔ اینی نے انہیں اپنی مصنوعات ٹھیلے پر بہنچنے کے لیے دیں۔
اسی دوران سارہ جو اب 37 سال کی ہو چکی تھیں، اپنی بیٹی کے ہمراہ ڈینور، کولوراڈو منتقل ہو گئیں۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے ذہن میں اپنا کاروبار کرنے کا خیال آیا کہ ”افریقی امریکی خواتین کے بناؤ سنگھار کے لیے مصنوعات“ بنائی جائیں۔ کئی ناکام تجربات کے بعد وہ مطلوبہ مصنوعات بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ 1906 میں انہوں نے چارلس جے واکر سے شادی کر لی اور بعد میں سارہ واکر کے نام سے ہی مشہور ہوئیں۔ ان کے شوہر ان کے جیون ساتھی کے ساتھ ساتھ کاروباری شراکت دار بھی تھے جو ان کے لیے تشہیر کا کام کرتے تھے۔
سارہ نے اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے گھر گھر جا کر تشہیری مہم چلائی اور خواتین کو اپنے بالوں کی حفاظت کے حوالے سے مشورے دیے۔ اسی سال انہوں نے کاروبار بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے شوہر سمیت جنوب اور مشرقی امریکہ کا دورہ کیا۔ ان کی صاحبزادی جو اب جوان ہو چکی تھیں، نے ڈینور میں رہتے ہوئے انہیں سامان بھجوانے میں مدد کی۔
دو سال بعد یہ خاندان پٹزبرگ، پینسلوینیا منتقل ہو گیا اور وہاں ایک سنگھار کی دکان (بیوٹی سیلون/پارلر) کھول لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک سکول بھی قائم کیا جو لوگوں کو ان کے بالوں کی حفاظت کی تعلیم دیتا تاکہ وہ سارہ کی مصنوعات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
1910 میں سارہ انڈین ایپلس، انڈیانا منتقل ہو گئیں اور وہاں اپنی کمپنی ”مادام سی جے واکر“ کا صدر دفتر تعمیر کیا۔ انہوں نے وہاں ایک کار خانہ بھی تعمیر کیا جس کے ساتھ ایک تجربہ گاہ، ایک بناؤ سنگھار کی تربیت دینے کا ادارہ اور ایک بیوٹی پارلر بھی منسلک تھا۔
1917 تک واکر صاحبہ کے ماتحت *بیس ہزار* خواتین کام کر رہی تھیں جو 5 سے 15 ڈالر تک روزانہ باآسانی کما لیتیں۔ سارہ چاہتی تھیں کہ افریقی امریکی خواتین معاشی طور پر خودمختار بنیں، جس کے لیے وہ خواتین کو اپنا کاروبار کرنے میں مدد دیتیں اور رقم سنبھالنا سکھاتیں۔
وہ جتنی امیر ہوتی گئیں، فلاحی کاموں میں ان کی دلچسپی اتنی ہی بڑھتی گئی۔ انہوں نے سماجی نا انصافی کے خلاف جنگ لڑنے سے لے کر تقاریر کرنے اور رقم عطیہ کرنے جیسے کام کیے۔
اپنی وفات سے قبل وہ لگ بھگ ایک لاکھ ڈالر مختلف فلاحی تنظیموں اور غریبوں میں بانٹ چکی تھیں۔ اپنی وصیت میں بھی انہوں نے یہی تاکید کی کہ مستقبل میں ان کی آمدن کا دو تہائی حصہ بھی فلاحی کاموں میں صرف کیا جائے۔
جب 51 سال کی عمر ان کا انتقال ہوا تو وہ امیر ترین افریقی امریکی خاتون سمجھی جاتی تھیں۔ موت کے وقت ان کی دولت کی مالیت پانچ لاکھ سے دس لاکھ ڈالر کے درمیان تھی۔
گنیز بک کے مطابق وہ دنیا کی پہلی خاتون ہیں جو اپنی محنت/ذہانت سے لکھ پتی بنیں۔ (بجائے وراثت میں ملنے والی دولت کے )
ساتھ منسلک تصویر ان کی ہے