آج یومِ استحصال کشمیرہے

حرفِ ناتمام/فدا شیرازی
پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج یومِ استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے پورےمقبوضہ کشمیر بشمول سرینگریوم استحصال کے حوالے سے بھرپور احتجاج کیا جائے گا جبکہ حکومت پاکستان نے یومِ استحصال کشمیر کے حوالے سےبھرپور تیاریاں کر رکھی ہیں اور اس مرتبہ حکومت پاکستان کی جانب سے یوم استحصال پر جموں وکشمیر کے تنازع، کشمیریوں کے بنیادی حقوق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بھارتی وعدہ خلافیوں کو بھرپورطریقے سے اجاگر کیا جا رہا ہے اس حوالے سے آج آزاد جموں و کشمیر ،گلگت بلتستان، ملک کے چاروں صوبوں اور اسلام آبادمیں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی خصوصی دلچسپی کے باعث وفاقی وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران کو بھی یومِ استحصال کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔ امید واثق ہے کہ وزیراعظم میاں محمدشہبازشریف ”یوم استحصال“ پر اہم پالیسی بیان بھی دینگے، یوم استحصال پرآج وفاق اور صوبوں میں خصوصی واک اور تقاریب ہوں گی، تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے خصوصی نشریات بھی چلائی جائیںگی۔
بسمل عظیم آبادی نے کہا تھا کہ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف جس انداز میں یوم استحصال کشمیر منانے کے خواہشمند ہیں بے شک وہ ایک توانا آواز ثابت ہو گی اس سےقبل بھی اُن کے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقدامات ایک تحریک کا درجہ رکھتے ہیں ماضی میں بھی اُن کی ہرممکن کوشش رہی کہ دنیا بھر میں مظلوم کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف بھرپور آواز اُٹھائی جائے اور اسی حوالے سے آج وزیراعظم شہبازشریف کا کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے مظفرآباد جانے کا بھی قوی امکان ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی غم و اندوہ کا دن 5 اگست 2019ء تھا جب اُن کی تمام تر آزادی کی تحریکوں کا خون کیا جا رہا تھا جس دن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے منسوخ کر دیا تھا ۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ خصوصی حیثیت تھی کیا دراصل بھارتی قانون کےآرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو ریاست کے نام پر خصوصی حیثیت حاصل تھی اس آرٹیکل کے تحت قانونی طور پر ریاست کو آئین بنانے اور برقرار رکھنے کی آزادی حاصل تھی جس کے تحت ریاست میں ایک الگ قانون لاگو تھا جو ریاست کی نیم خودمختاری کو تسلیم کرتا تھا۔ اسی اہم آرٹیکل 370 کے تحت دفاع،خزانہ اور خارجہ کے علاوہ ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا تھا اور اسی آرٹیکل کے باعث بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاوہ پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی تھی لیکن ایمرجنسی کا نفاذ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ریاست کی بالکل الگ سی حیثیت موجود تھی۔1954ء میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل’’ 35 اے‘‘کو بھی آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق کا اہل بناتا تھا جس کی وجہ سے صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔بھارتی حکومت نے شب خون مار کر ان آرٹیکلز میں ترمیم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اُن کے بنیادی حقوق سلب کرلیے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا صریحاً مرتکب ہوا۔نریندر مودی کے اس اقدام پر بی جے پی اور سوائے چند قوم پرست جماعتوں کے بھارت کی زیادہ تر جماعتوں نے مخالفت بھی کی ۔جب 5اگست 2019ء کو جب قانون میں ترمیم کروائی گئی تو اس موقع پر نریندر مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا مواصلاتی نظام منقطع کر دیا تھا تاکہ مظلوم کشمیریوں کی آواز دب کر رہ جائے اور دنیا کے ساتھ اُن رابطہ منقطع ہو جائے حتی کہ یہ مواصلاتی لائینز 5 ماہ بعد بحال ہوئیں۔ اس دوران بھارتی حکومت نے ایک بہت بڑی تعداد میں انڈین فورسز کے اہلکار مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات کیے رکھے تاکہ اہلیان جموں و کشمیر ایک دوسرے کیساتھ جُڑ نہ سکیں اس دوران بھارتی حکومت نے اہم ترین کشمیری رہنمائوں کو بھی نظر بند کیے رکھا تاکہ وہ بھی اُن کے ظلم کے خلاف آواز نہ اُٹھا سکیں۔
بقول راقم الحروف
وقت نے جب دھارا بدلہ دیکھنا پھر’’ مودی جی‘‘!
خود ہی ’’استحصال‘‘کے گرداب میں آئو گے تم
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ہے جس انداز میں بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا اُس کا حساب بہت جلد فطرت اپنے انتقام کے ذریعے لے گی اور پھر نریندر مودی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں بچے گانریندر مودی جس طرح مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کو اپنا مشغلہ سمجھتا ہے اور کشمیری مسلمانوں کی تمام تر حق خودارادیت کو تحریک بیک جنبش قلم ختم کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتا ہے یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔کیونکہ اس حق خودارادیت کی تحریک میں بے گناہ کشمیریوں کا خون شامل ہے یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ خون کے نشان کسی بھی تحریک کو مٹنے نہیں دیتے۔
ساحرؔ لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
مقبوضہ جموں و کشمیر کے ان بے گناہ مسلمانوں کا خون کسی بھی صورت رائیگاں نہیں جائیگا۔ انشاء اللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *