درگاہ جلالیہ شہنشاہ تجلیات پر سنکھ اور ٹل کی آوازیں۔۔مسجد مندر کا فرق ختم ؟

تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی روحانی مرید شہنشاہ جلال۔
سرائیکی سماجیات *
altafkhandahir@gmail.com.
0300-7806375 wats app

سرائیکی وسیب امن تصوف کے مقام اوچ شریف پاکستان برصغیر پاک وہند جنوبی ایشیا شہنشاہ تجلیات و جلال گنج منبع عرفان وبرکات حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کے 755واں سہ روزہ سالانہ عرس مبارکہ کی تقریبات کے موقع فخر سادات بخاریہ مخدوم المک سید حامد محمد نوبہار المعروف مخدوم سید زمرد حسین بخاری سئیں،ولی عہد درگاہ جلالیہ مخدوم زادہ سید غلام حسن زمرد بخاری المعروف چن سرکار سئیں، سابق صوبائی وزیر مخدوم سید جہانیاں گردیزی،مخدوم زادہ دیوان سید عبداللہ شاہ بخاری اولاد حضرت سید فضل الدین لاڈلہ رحمتہ اللہ علیہ،خلیفہ شمیم عباس خان سدوزئی نوکر سادات بخاریہ کے ساتھ ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں زیارت نصیب ہوئی۔اس موقع پر راقم الحروف کو درگاہ سرخ پوش بخاری جلالیہ کی چوکھٹ مقدس پر سجادہ گان فخر سادات بخاریہ اوچ شریف نےسرخ جلالی رومال پہنایا گیا۔خوبصورت سرخ لباس میں ملبوس مخصوص عقیدت مند موسیقی کے سازوں سے مزین سنکھ و ٹل کی ردھم میں مست یاجلال، حق جلال،مست جلال کا ورد کرنی والی ٹولی کا روحانی منظر قابل دید تھا۔ہر عام و خاص انسان روحانی آسودگی و فیض کے حصول میں نظر آیا۔سرائیکی دھرتی جو سات دریاوں کی سرزمین جس میں سر سنگیت، امن و محبت کے رنگ نمایاں ہیں۔ویڈیو فیس بک پر وائرل کی۔اس پر نئی بحث نے جنم لیا۔تنقیدی سوال پنجابی دانشور جناب محمد سعید مشتاق کا یہ تھا کہ سنکھ و ٹل نے مزار و مندر کا فرق ختم کردیا سے شروع ہوا۔قارئین کی نظر جواب حاضر ہے۔مزار اور مندر کے شروع میں حرف “م” ہے، آخر میں “ر” ہے۔آغاز “م “سےمحبت واتحاد انسانیت، آخر میں “ر” رحم و کرم کا فلسفہ ہے۔حدیث مبارکہ مفہوم اللہ پاک جمیل، نہایت خوبصورت حسین ہے۔حسن و جلال پاکیزگی پسند فرماتا ہے۔ہزاروں سالوں کی تہذیب وتمدنی اور ثقافتی روایت یہی رہی ہے کہ برصغیر پاک وہند کے لوگ موسیقی کو بطور روحانی علاج کے طور پر اپناتے آرہے ہیں۔پاکیزہ فن شاعری و موسیقی وجد و رقص میں کوئی حرج نہیں۔مقصد دل پر ضرب لگا کر دل کی سختی کو نرم کرنا ہوتا ہے۔دل کو حقیقی اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے ۔ہندوستان کی موسیقی پہلی آل انڈیا میوزک کانفرنس منعقدہ 1916ء عبدالحلیم شرر،موجودہ کتابچہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس محمد اطہر سال اشاعت 1917ء موجود ہے۔اس کو پڑھ لیتے تو شاید اپ کو ہر سال کا جواب مل جاتا۔حدیث قدسی شریف ہے کہ میں حسن وجمال کا مخفی گنج خزانہ تھا۔مجھے عشق ہوا کہ مجھے کوئی دیکھے اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔مسجد مندر کا درس دینے والے اس وقت موقع پرست کہاں تھے،جب میرے آقا نبی آخری زماں خاتم الرسل حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کے پیارے بیٹے اکیلے امام عالی مقام شہید کربلا حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کو ذبح کیا جارہا تھا۔اس وقت ہر مسجد میں آذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام دی جاری تھی۔مساجد کی بجائے مندروں میں فلسفہ حقانیت وسچ، اہلبیت سے محبت حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے فلسفہ حق کا پرچار ہورہا تھا۔کائنات میں ہرطرف دکھ و غم کرب و بلا کا سماں تھا۔دور یزید میں اہل بیت المقدس کو باغی قرار دے کر قتل کر کے ہر طرف فتح کے شیانے بجائے جارہے تھے۔مگر میرا ماننا ہے کہ دنیا کے ہر مذہب کی مقدس عبادت گاہ سکون واطمینان قلب اور تحفظ بشر ہے۔مگر جہنوں نے صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے حق سچ،امن،ایمانداری کو بیچا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔مسجد ضرار منافقین کو مسمار کرنےکاعملی جلال حکم آقائے رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام نے خود فرمایا۔محبت اور رواداری میں نفرت کا بیج ڈالنے والوں کو ہم نے نکال دیا ہے۔ہمارا سرائیکی وسیب جو امن و محبت تصوف کا نور ہے۔ہمیشہ یہاں سے سب نے پیار ومحبت کا درس پایا ہے۔کائنات کی تخلیق بھی کن فیکون کی رب ذوالجلال کی آواز سے ہوئی اور اختتام بھی صور پھونکنے سے ہوگا۔حسن صورت، حسن صوت،حسن شاعری،حسن لحن و موسیقیت پاکیزہ روحانیت اولیاء اللہ کرام کےخوبصورت انداز ہیں۔اللہ پاک کے برگزیدہ نبی حضرت داؤد علیہ السلام جب خوبصورت آواز میں حسن لحن سے رب العزت کی الہامی کتاب زبور کے حمدیہ اشعار تلاوت فرماتے تھے تو پھر کائنات کی ہر تخلیق بشر،حیوان ،شجر، پہاڑ گویا ہر چیز رقص و وجدان سے مسرور ہوکر ذکر اللہ پاک کرتی تھی۔اگر آپ لا علم ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔یہ ہمارے مرشد کامل حقیقی شہنشاہ تجلیات و جلال گنج حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کے منبع عرفان وبرکات و کرامات کا فیض تھا کہ پورا دیو راجہ سنگھ کا علاقہ رام رام رام سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام میں تبدیل ہوا۔اچا بائی جادوگرنی مہارانی ملکہ رانی، عرفان و تجلیات جاہ و جلال اعظم کے حق جلال سرخ پوش بخاری ع کا سامنا نہ کر سکی،پورے لشکر سمیت اسلام میں داخل ہوگئی۔شہنشاہ تجلیات حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع نے اوچا رانی ملکہ کوں اپنی چادر پیش کی اور بہن جیسا مقدس رشتہ عطاء کیا۔بغیر لشکر کے ایک کامل حقیقی شہنشاہ ولایت ہستی حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کی کرامت سے ایک ہی دن پوری ریاست مسلم ہوئی۔پھر آج بھی تاریخ گواہ ہے کہ ہلاکو خان منگول جیسا جابر حکمران بھی رب العزت جلال کے جلال گنج، سلطان الفقراء کا سامنا نہ کر سکا۔اس کی آگ حکم ربی، تجلی و کرامت ولی کامل روحانی شہنشاہ ولایت حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کا سامنا نہ کر سکی۔گلزار میں تبدیل ہوگئی۔سرائیکی دھرتی تصوف و عرفان وبرکات کا منبع تجلیات ہے۔خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کی روشن کافی صنف سرائیکی کلام آفاقیت “مسجد مندر ہیکڑو نور “” دنیا کے تمام مذاہب، حق شریعت اسلام ہی کو مانتے ہیں مگر منافقت کی وجہ کہ نہیں پاتے۔ آج بھی قرآن مجید دنیا کا بہترین خداوندی معجزہ ہے۔دنیا وآخرت میں کامیابی کا حصول صرف اعلی ترین عملی نمونہ اللہ پاک کے آخری رسول ذات اقدس حضور نبی کریم آخری زماں خاتم الرسل صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی ذات اقدس، اہل بیت المقدس، صحابہ کرام و کامل اولیاء اللہ کرام کی حقیقی تعلیمات ہیں۔اب ہم دنیا میں امن و پیار کا فلسفہ تمام مذاہب ومسالک کے مشترکہ اجتہاد کے ساتھ آگے بڑھا سکتےہیں۔اس سے ہر انسان کی علمی خوشحالی و معاشرتی ومعاشی ترقی ممکن ہے۔مسلم امہ کی حکمرانی کا راز اب پھر بھی وہ یہی ہے کہ ہر فن کا احترام، ہر انسان و حیوان،نباتات و جمادات لسان کی پر وقار تاثیر پر ریسرچ،ہر بشرکی روحانی و معاشرتی،معاشی اقدار کی عملی ترتیب،تحقیق،علوم فلکیات و زمین کی کھوج لگانا کہ ہر چیز برابر ترتیب،ردھم و سر تال کے حسن میں کیوں مزین ہے؟ فلسفہ شہنشاہ جلال گنج ہر علم کی بنیاد و روشن کنجی ہے۔

فیس بک فرینڈ محمد سعید مشتاق کے جواب میں تحریر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *