سقوط ڈھاکہ ازسرنو تحقیق

تحریر ۔ نظام الدین

(قسط نمبر 6)

متحدہ پاکستان میں 1970 کے الیکشن 1962 کے آئین کے تحت ہوئے جو پاکستان کا دوسرا آئین تھا تاہم 1962 کے آئین میں کئی بار ترمیم کی گئی اور 1970 کے کے الیکشن خاص طور پر جنرل یحیٰی خان کی حکومت کے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) آرٹیکل 17 الیکشن کمیشن کی تشکیل ، , آرٹیکل ،18 قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے اہلیت اور نااہلی کی وضاحت کی گئی تھی ، آرٹیکل 19 قومی اسمبلی کے الیکشن کے طریقے کار کی وضاحت آرٹیکل ،،20 حلقوں کی حد بندی کے لیے فراہم کی گئی ان دفعات نے 1970 کے الیکشن کے لیے قانونی ڈھانچہ تشکیل دیا ان دفعات کی بنیاد پر عوامی لیگ کے 6 نکات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور الیکشن سے پہلے ہی بنگال میں بغاوت شروع گئی جس کی سرپرستی انڈیا نے شروع کی ، جس کے نتیجے میں 3 دسمبر 1971:کو پاکستان نے شمالی ہندوستانی فضائیہ کے گیارہ اسٹیشنوں پر فضائی حملے کیے۔
4 دسمبر 1971: کو ہندوستانی فضائیہ نے جوابی فضائی حملوں کے ساتھ کارروائی کی۔
16 دسمبر 1971: پاکستان ایسٹرن کمانڈ نے غیر مشروط طور پر بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
1972: میں اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ممالک نے بنگلہ دیش کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کرلیا جولائی 1972: شملہ معاہدے پر ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان دستخط ہوئے
حمود الرحمن کمیشن نے یکم فروری 1972 میں کام شروع کیا 12 جولائی 1972کو عبوری رپورٹ کی “6” کاپیاں حکومت کو پیش کردیں اور حتمی رپورٹ جنگی قیدیوں کی وطن واپسی پر تیار کرنے کی اپیل کی گئی، جسٹس سجاد احمد خان اور جسٹس ایم ایچ کیانی جو کمیشن کے ممبران تھے وہ اس دوران شواہد اکٹھے کرنے بنگلہ دیش بھارت برطانیہ سمیت مختلف ممالک میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں اور اہلکاروں کا انٹرویو کرنے گئے کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس حمود الرحمن پاکستان میں مجموعی تحقیقات اور رپورٹ کی تالیف کی نگرانی کرتے رہے، 1970 سے 1972 کے دوران صرف دوسال میں جس تیزی سے یہ سب کام انجام دے گئے اس تیزی میں بہت سے سیاسی سماجی اور محب وطن لوگوں کو غداری کی بدبو محسوس ہونے لگی تھی” کیونکہ اس دور کی کچھ عالمی قووتیں بھی بنگلہ دیش کی آزادی کے حق میں فیصلہ کرچکی تھیں ؟
1971 کی یہ جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ جنگ عالمی سطح تک پھیل سکتی تھی؟؟؟ “کیونکہ”
جوہری توانائی سے چلنے والا
امریکی ساتواں جنگی بیڑہ انٹرپرائز سات تباہ کن طیارے، ایک ہیلی کاپٹر کیریئر یو ایس ایس تریپولی اور ایک تیل کیریئر سے لیس تھآ جس
کی کمان ایڈمرل جان مکین جونیئر نے سنبھال رکھی تھی۔
یہ ‘امریکی بیڑا انڈیا کے واحد طیارہ بردار جہاز آئی این ایس وکرانت سے بھی کم از کم پانچ گنا بڑا تھا۔ یہاں تک کہ انٹرپرائز کے بیڑے میں شامل تریپولی بھی وکرانت سے بڑا تھا۔ جوہری توانائی سے چلنے والا انٹرپرائز بغیر دوبارہ ایندھن بھرے پوری دنیا کا چکر لگا سکتا تھا۔
دوسری طرف۔ سوویت یونین کا تباہ کن اور بارودی سرنگ صاف کرنے والا بیڑا خلیج ملاکا سے اس علاقے میں پہنچ کر
امریکی بحری جہازوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے تھا جبکہ امریکی بیڑا چٹاگانگ سے تقریبا 1000 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ، “روسی بیڑے میں ایک تباہ کن طیارہ، کروزر اور دو جارحانہ آبدوزیں تھیں۔ اور اس کی کمان ایڈمرل ولادی میر کرگلیاکوف کے پاس تھی۔
بعدازاں ‘کرگلیاکوف نے روسی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر امریکی بحری بیڑہ آگے بڑھتا تو ہم ان کو گھیرکر اپنی آبدوزوں کے میزائل ٹیوب کھول کر انٹرپرائز کے سامنے کھڑے ہو جاتے لیکن” ایسا نہیں ہوا۔ بعد میں دو اور روسی بحری جہاز اس بیڑے میں شامل ہوگئے تھے
تاہم، سوویت بحریہ نے جنگ کے دوران کسی براہ راست لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔ اس کی موجودگی زیادہ تر علامتی تھی اور اس کا مقصد انڈیا کی حمایت ظاہر کرنا تھا۔
سوویت بحری بیڑے کی موجودگی نے جنگ میں کسی بھی بیرونی مداخلت کو روکتے ہوئے ایک روک تھام کا اثر ڈالا۔
.اس جنگ میں سوویت یونین کا مقصد اپنے اتحادی کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنا تھا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 1971 کی جنگ خطے کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش
(اس وقت مشرقی پاکستان) کی آزادی اور جنوبی ایشیا کے سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی آئی جنگ کے دوران دسمبر 1971 میں خلیج بنگال میں امریکی ساتویں بیڑے اور سوویت بحریہ کا آمنا سامنا
انڈمان اور نکوبار جزائر کے قریب ہواتا جہاں دونوں بحری بیڑے آمنے سامنے آگئے تھے، لیکن خوش قسمتی سے یہ تعطل پورے پیمانے پر تنازعہ میں تبدیل نہیں ہوا۔ سوویت بحریہ کی موجودگی نے امریکہ کو جنگ میں مزید مداخلت کرنے سے روکنے میں مدد کی ،
1971 کی انڈیا -پاکستان جنگ کے بعد، امریکہ اور سوویت بحری بیڑے مندرجہ ذیل پوزیشنوں پر پیچھے ہٹ گئے امریکی بحریہ کا 7 واں بحری بیڑا، سنگاپور میں واقع اپنے اڈے پر واپس آگیا
سوویت بحری بیڑہ روس کے ولای ووسوک میں اپنے اڈے پر واپس آگیا سوویت یونین کا بحری بیڑہ اپنی جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں، طیارہ بردار بحری جہازوں اور حملہ آور بحری جہازوں کے لیے مشہور تھا یہ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ منقطع ہو گیا تھا، اور اس کے اثاثے روس اور یوکرین کے درمیان تقسیم کیے گئے تھے۔،
1971 کی پاک بھارت جنگ کے یہ اہم واقعات پاکستان بھارت اور دیکر ممالک کے مختلف آرکائیوز، عجائب گھروں اور لائبریریوں میں دستاویز کی صورت میں محفوظ ہیں ، کچھ کلیدی حب ذخیروں میں شامل ہیں، نیشنل آرکائیوز آف اسلام آباد، پاکستان آرمی میوزیم، راولپنڈی ، پاکستان ایئر فورس میوزیم، اسلام آباد .نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد,
لاہور میوزیم ، نیشنل میوزیم کراچی ، انڈین نیشنل آرکائیوز، نئی دہلی ، انڈین ملٹری ہسٹری میوزیم، پونے، دی ہندو اخبار آرکائیوز،چنئی ، ٹائمز آف انڈیا اخبار آرکائیوز، ممبئی،
جن افراد نے 1971 کی جنگ کے واقعات کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں شامل ہیں: ڈاکٹر اشتیاق احمد،
ڈاکٹر عرفان حسین، اور
ڈاکٹر فیصل صدیقی مورخین .احمد فاروقی، احمد سلیم، اور سرمیلا بوس مصنفین .کلدیپ نیر، کے پی نیئر، اور اندر ملہوترا صحافی , .سابق فوجی جنرل (ر) اے کے نیازی، جنرل (ر) گل حسن خان،
اور ایئر مارشل (ر) نور خان،
1971 جنگ کے دوران انسانی امداد فراہم کرنے والی کچھ بین الاقوامی تنظیمیں شامل تھیں ،

  • انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC)
    اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR)
    بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی (IRC) یہ بات قابل غور ہے کہ 1971 کی جنگ ایک پیچیدہ تنازعہ تھا جس میں متعدد بین الاقوامی کھلاڑی شامل تھے، اور مختلف ممالک اور تنظیموں کی طرف سے فراہم کی جانے والی حمایت اکثر جیو پولیٹیکل مفادات اور اتحادوں سے چلتی تھی۔ میڈیا آؤٹ لیٹس اور افراد کے نام جنہونے جنگ کے دوران رپورٹنگ کی ، .ڈان نیوز پاکستان
    دی نیوز انٹرنیشنل پاکستان بھارت NDTV , ہندو بھارت، بی بی سی نیوز بین الاقوامی
    .برکھا دت بھارتی صحافی
    حامد میر پاکستانی صحافی
    .نجم سیٹھی پاکستانی صحافی .رویش کمار
    بھارتی صحافی مصنف
    . وجاہت خان ، پاکستانی صحافی براہ کرم نوٹ کریں کہ یہ مکمل فہرست نہیں ہے، اور بہت سے میڈیا آؤٹ لیٹس اور افراد ہیں جنہوں نے پاک بھارت تنازعات کو کور کیا تھا ،
    1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران کئی غیر ملکی اور مقامی صحافی تنازع کی کوریج کرتے ہوئے ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ درست تعداد کی تصدیق کرنا مشکل ہے، لیکن یہاں کچھ رپورٹ شدہ کیسز ہیں:
    برطانوی صحافی ہلاک
    ایان جیک مین (بی بی سی) جنگ کی کوریج کے دوران ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔تھے
    جیریمی لی دی گارڈین ڈھاک ایک بم حملے میں مارے گئے تھے امریکی صحافی ہلاک:
    لی ہربرٹ (یو پی آئی) ڈھاکہ میں مارٹر حملے سے ہلاک ہوئے
    فرانسیسی صحافی بم دھماکے میں زخم ہوئے ایک اندازے کے مطابق 10-15 پاکستانی صحافی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
    بنگال کے کئی صحافی اور دانشور جنگ کے دوران مارے گئے یا لاپتہ ہوئے، بشمول:
    سراج الدین حسین ایڈیٹر، روزنامہ اتفاق شاہد صابر صحافی اور مصنف، ڈاکٹر نظام الدین احمد صحافی اور ماہرے تعلیم ، جنگ کے دوران افراتفری اور تباہی کی وجہ سے درست اعداد کی تصدیق مشکل ہے،
    سقوطِ ڈھاکہ ایسا بھیانک سانچہ تھا جس کی جنگ سے جڑی کہانیاں صدیوں تک ختم نہیں ہون گی؟ ” جنگ ختم تو ہو گئی اور دنیا نے دیکھا تینوں ممالک کے لیڈروں نے ٹیبل پر بیٹھ کر مصافحہ بھی کیا
    لیکن وہ بوڑھی عورتیں اپنے شہید بیٹوں کی منتظر رہیں، ہزاروں لڑکیاں اپنے پیارے شوہروں کا انتظار کرتی رہیں، بچے اپنے باپ کو یاد کرکے آنسو بہاتے رہے ، محب وطن بہاری ریڈ کراس کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ،
    مجھے نہیں معلوم کہ کس نے وطن کو بیچا؟ لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ قیمت کس نے ادا کی “؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *