پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشیں

طارق خان ترین

بلوچستان کی کالعدم تنظیمیں، جن میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، اور دیگر گروہ شامل ہیں، نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ یہ گروہ دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں، جن کا مقصد بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنا، ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا، اور عوام کو گمراہ کرنا ہے انکا وطیرہ خاص بن چکا۔

یہ تنظیمیں آزادی یا حقوق کے نام پر دہشتگردی کو فروغ دیتی ہیں، لیکن ان کا اصل ایجنڈا پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا اور دشمن ممالک کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ تنظیمیں بھارت جیسے دشمن ممالک کی مالی اور عسکری معاونت سے چلتی ہیں، جو خطے میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس کی گرفتاری نے ان تنظیموں اور بھارت کے درمیان تعلق کو بے نقاب کرتی ہے نہ صرف بلکہ ماما قدیر جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتا ہے نے براہراست بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مدد طلب کی۔

بی ایل اے وہ دیگر کالعدم تنظیمی گروہ آزادی کے نام پر نہتے شہریوں، مزدوروں، اور معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں، 24 اگست 2024 کی رات کو بی ایل اے کی جانب سے موسی خیل میں سینکڑوں معثوم لوگوں کو بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح سے 9 نومبر کو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر صبح 9 بجے خودکش حملہ کیا گیا جس میں بھی سینکڑوں بےگناہ انسانوں کو شہید کردیا گیا۔ نیا سال شروع ہوا تو اس سال کے شروعات میں ہی دہشتگرد تنظیم بی ایل اے نے تربت میں معصوم شہریوں پر حملہ کر دیا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق 4 جنوری 2025 کو کالعدم بی ایل اے نے تربت میں ایک مسافر بس پر حملہ کیا۔ اس جان لیوا حملے میں چار معصوم شہری جاں بحق اور معتدد زخمی ہو گئے- اس دہشتگرد حملے میں شہید ہونے والے افراد نور خان ولد دوشمبے ساکن دشت، ضلع کیچ، عبدالوہاب ولد عظیم ساکن گوادر، اعجاز ولد زر محمد ساکن گشکور ،آواران اور لیاقت علی ولد الہندا خان ساکن ضلع صحبت پور سے بتائی جارہی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کرلی ہے۔ اس حملے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگرد تنظیم بی ایل اے اپنے مذموم مقاصد کیلئے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتی ہے ایک جانب بی ایل اے خود کو بلوچ عوام کے حقوق کا علمبردار قرار دیتی ہے دوسری جانب ان معصوم بلوچوں کی جان کی بھی دشمن ہے۔ یہ حملہ بھی بی ایل اے کی منافقت کا کھلا ثبوت ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ان کی تربیت ہی معصوم لوگوں کی جان لینا ہے بی ایل اے کی بلوچ عوام کیخلاف نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ایک سال میں 100 سے زائد معصوم بلوچ شہریوں کوشہید کیا- بی ایل اے عوام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔ دہشتگردی کرنا، بے گنا شہریوں کو موت کی گھاٹ اتارنا، پروپیگنڈا کرنا، بیرونی امداد لینا یہ سب ان دہشتگرد تنظیموں کے ظالمانہ اور غیر انسانی ایجنڈے کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں وسائل موجود ہو، جہاں کہیں بھی ترقی کی نئی راہیں ہموار ہو رہی ہو وہاں یہ کالعدم تنظیمیں دہشتگردانہ رکاوٹیں کھڑی کر کے بلوچستان کو ترقی کرنے سے روکتی ہے۔ سی پیک پر حملے، کالعدم تنظیموں نے گوادر اور سی پیک کے منصوبوں کو نشانہ بنایا، جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے ترقی کی ضمانت ہیں۔ اسی طرح سے ڈیم، سڑکوں، اور مواصلاتی منصوبوں پر حملے کر کے یہ تنظیمیں عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادی اور انسانی حقوق کا نعرہ لگاتی ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے اقدامات نہ صرف بلوچ عوام بلکہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہیں۔ عوام سے دھوکہ دہی کی بنیاد پر یہ گروہ خود ساختہ آزادی کے نام پر بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کر کے انہیں دہشتگردی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ منافقت اور دوہرا معیار ایساں کہ یہ تنظیمیں ایک طرف انسانی حقوق کا دعویٰ کرتی ہیں، اور دوسری طرف معصوم شہریوں کا قتل عام کرتی ہیں۔

پاکستان کے بیانیہ اور کامیاب حکمت عملی نے ان تمام کالعدم دہشتگرد تنظیموں ایکسپوز کر رکھا ہے۔ پاکستان نے ان تنظیموں کے خلاف نہ صرف کامیاب آپریشن کیے بلکہ ان کے گمراہ کن بیانیے کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ فوجی کارروائیاں: آپریشن ردالفساد اور بلوچستان میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز نے دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورک کو تباہ کیا۔ پاکستان نے بلوچستان میں تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے ذریعے عوام کا اعتماد جیتا۔ پاکستان نے ان تنظیموں کو بین الاقوامی سطح پر دہشتگرد قرار قرار دینے کے لیے سفارتی محاذ پر بھی کام کیا۔ اسکے علاوہ 4 نومبر 2024 کو وفاقی حکومت نے بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پاک فوج کی 31 یونٹس اور فرنٹیئر کور کے 107 ونگز کی تعیناتی کی منظوری دی، جو 14 اکتوبر 2025 تک صوبائی حکومت کی معاونت کریں گے۔ 20 نومبر 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں، بشمول مجید بریگیڈ، بی ایل اے، بی ایل ایف، اور بی آر اے ایس کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی۔ ان اقدامات کا مقصد بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن و امان کی بحالی ہے۔

بد قسمتی سے ہماری مین سٹریم میڈیا بھی ان کالعدم تنظیموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پروپیگنڈوں کو ہوا دیکر آزاد صحافت کے دعوؤں کے پرخچے ہوا میں بکھیر کر رکھ دیئے۔ یہ دکھایا تو جاتا ہے کہ جی فلاں کالعدم تنظیم نے دہشتگردی کی، بریکنگ نیو تمام تر سنسنی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، مگر ان تنظیموں کی حقیقت کو عوام کے سامنے لانے میں ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بلکہ ان تنظیموں کی ذیلی شاخیں جیسا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی، ماما قدیر، ماہرنگ بلوچ، سمی الدین وغیرہ کو ہیرو کے طور پر ہمارے چند سرکردہ صحافی حضرات پیش کرتے ہے۔ اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ نیشنل اپیکس کمیٹی میں اس معاملے کو ایجنڈے کے طور رکھنا چاہیے، اور ہر میڈیا چینل یا پھر صحافی کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے، تاکہ پروپیگنڈوں کی بہتات کو روکا جاسکے۔ بہرحال بلوچ کالعدم تنظیموں کا اصل چہرہ دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کا ہے، جو پاکستان کی سالمیت اور بلوچستان کے عوام کی خوشحالی کے دشمن ہیں۔ پاکستان نے ان کے مذموم عزائم کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ بلوچ عوام کو ان تنظیموں کی حقیقت سمجھنی ہوگی، جو صرف تباہی کا راستہ دکھاتی ہیں، جبکہ پاکستان ان کے لیے امن، خوشحالی، اور ترقی کا ضامن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *