میر ہزار خان مری پہلے اور بعد میں۔۔۔!

بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ، کئی دہائیوں سے شورش اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ یہاں کے سردار، نواب، اور قوم پرست قیادت نے ایک طویل عرصے تک ریاست پاکستان سے علیحدگی کی تحریکیں چلائیں، جن کا مقصد صوبے کو پاکستان سے الگ کرنا تھا۔ مگر اس سیاسی اور مسلح مزاحمت کا حتمی نتیجہ بلوچ عوام کی محرومی، غربت، اور بدحالی کی صورت میں سامنے آیا۔ ایک نمایاں مثال میر ہزار خان مری کی زندگی ہے، جنہوں نے کئی دہائیوں تک مسلح جدوجہد کی، مگر آخرکار مفاہمت کا راستہ اپنایا اور پاکستان میں امن کے قیام کے لیے واپس آئے۔

میر ہزار خان مری 1970 کی دہائی میں بلوچستان کے دیگر قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ ریاست پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کی قیادت کرتے رہے۔ 1973 میں بھٹو حکومت نے بلوچستان میں قوم پرست بغاوت کو دبانے کے لیے فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ہزار خان مری اور ان کے ساتھی افغانستان ہجرت کر گئے۔ وہاں سے انہوں نے مزاحمت جاری رکھی، لیکن تقریباً دو دہائیوں کے بعد جب وہ 1992 میں واپس آئے تو یہ حقیقت عیاں ہو چکی تھی کہ ان کی جدوجہد بے ثمر رہی تھی۔
افغانستان میں طویل جلاوطنی اور سوویت یونین کی حمایت سے امیدیں وابستہ کرنے کے باوجود، میر ہزار خان مری اور ان جیسے دیگر بلوچ رہنماؤں کی مسلح جدوجہد نے بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ بلکہ اس مزاحمت کے نتیجے میں بلوچ عوام معاشرتی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہو گئے، جبکہ ریاست پاکستان نے اپنی حیثیت اور طاقت کو برقرار رکھا۔
بلوچستان کی قوم پرست سیاست، خصوصاً سرداروں اور نوابوں کی قیادت میں، ریاست پاکستان کے خلاف ایک دشمنی پر مبنی رہی ہے۔ ان رہنماؤں نے ریاست کو بلوچ عوام کا دشمن قرار دیا اور نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت اور شکوک وشبہات کے بیج بوئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان قوم پرست تحریکوں نے نہ تو بلوچ عوام کے مسائل حل کیے اور نہ ہی ان کی حالت بہتر کی۔ بلوچ سردار اور نواب اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے ریاست مخالف جذبات کو ہوا دیتے رہے۔ ان کی قیادت میں چلنے والی تحریکوں کا مقصد بلوچ عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کا تحفظ تھا۔ نوابوں نے اقتدار اور دولت کی خاطر مزاحمت کا راستہ اپنایا، لیکن اس کا نقصان بلوچ عوام کو بھگتنا پڑا۔

پاکستان کی حکومت نے بلوچستان میں امن قائم کرنے اور قوم پرست تحریکوں کو مفاہمت کی راہ پر لانے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ مفاہمتی پالیسی کے تحت حکومت نے بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے اور انہیں ریاست میں دوبارہ شامل ہونے کا موقع دیا۔ میر ہزار خان مری کی وطن واپسی بھی اسی مفاہمتی پالیسی کا نتیجہ تھی۔ ان کی واپسی نے نہ صرف ان کے علاقے میں امن قائم کیا بلکہ دیگر بلوچ سرداروں اور قوم پرستوں کو بھی مفاہمت کی ترغیب دی۔
پاکستان کی حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی، اقتصادی، اور سماجی اقدامات کیے، جن میں انفراسٹرکچر کی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، اور تعلیم کی فراہمی شامل ہیں۔ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) جیسے منصوبے بلوچستان کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں، جو صوبے کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور بلوچ عوام کی ترقی کے لیے اہم ہیں۔

بلوچستان میں قوم پرست تحریکوں نے اپنی اصلیت کھو دی ہے اور اب وہ علیحدگی کی بجائے دہشتگردی کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) جیسے دہشتگرد گروہ ریاست کے خلاف بغاوت کے نام پر بے گناہ شہریوں، سیکیورٹی فورسز، اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ خاص طور پر چین کے انجنیئرز اور سی پیک منصوبے سے وابستہ اہلکاروں کو ہدف بنانا درحقیقت بلوچستان اور پاکستان دونوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے برابر ہے۔
بی ایل اے ایک دہشتگرد تنظیم ہے، جسے اقوام متحدہ نے بھی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے، اور یہ عالمی سطح پر پانچویں نمبر پر ہے۔ BLA کی کاروائیاں بھارت کی ایجنسی را (RAW) کی حمایت سے جاری ہیں، اور یہ تنظیم پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہی ہے۔ بی ایل اے کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں چینی انجنیئرز، پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شامل ہے، جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اور سی پیک جیسے اہم منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی کاروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے خلاف ہیں۔ بلوچ نوجوانوں کو دہشتگردی کے اس جال سے نکالنا اور انہیں امن، تعلیم، اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ بلوچ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشتگردی کا راستہ انہیں مزید تباہی کی طرف لے جائے گا، جبکہ قومی مفاہمت اور ریاست پاکستان کے ساتھ مل کر چلنے سے انہیں ترقی اور خوشحالی نصیب ہو سکتی ہے۔
میر ہزار خان مری کی زندگی ایک سبق آموز مثال ہے کہ ریاست پاکستان سے لڑائی بلوچ عوام کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ ان کی بیکار جدوجہد کے بعد، مفاہمت کا راستہ اپنانا ان کے لیے، ان کے قبیلے کے لیے، اور بلوچستان کے لیے بہتر ثابت ہوا۔ آج بھی بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمنی اور نفرت کی سیاست انہیں مزید پیچھے دھکیل رہی ہے۔ پاکستان کی ترقی، خصوصاً سی پیک جیسے منصوبے، بلوچستان کے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ بلوچستان کی عوام کو دہشتگرد گروہوں کی پروپیگنڈہ مہم سے بچنے کی ضرورت ہے اور انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ریاست پاکستان کے ساتھ جڑ کر ہی وہ اپنے صوبے اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *