ٹائمز آف اسرائیل کو تُرکی بَہ تُرکی جواب

پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور فلسطین کے حق میں اس کے موقف پر تاریخی، تنقیدی اور تزویراتی جائزہ لینے کے لیے قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر موجودہ حالات تک کے تاریخی حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں جو بلاگ لکھا گیا ہے، اس میں پیش کردہ موقف حقیقت سے دور ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی، قومی اتفاق رائے اور نظریاتی بنیادوں سے متصادم ہے۔

پاکستان کا اسرائیل مخالف موقف:

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کی بھرپور حمایت کی اور اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی۔ 1947 میں جب اسرائیل کا قیام زور پکڑنے لگا تو پاکستان نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جناح نے فلسطین کے مسئلے کو اقوام متحدہ اور عالمی فورمز پر اٹھایا اور اسے مسلمانوں کے ساتھ عالمی ناانصافی قرار دیا۔ پاکستان کا اسرائیل مخالف موقف جناح کے اسی نظریاتی تصور سے جڑا ہوا ہے کہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر انصاف فراہم کیا جائے۔اسلامی شناخت اور امت مسلمہ کے ساتھ وفاداری پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون ہیں۔ اس موقف کو مزید تقویت اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے قیام کے ساتھ ملی، جس میں فلسطینی کاز کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ پاکستان ہمیشہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر کھڑا رہا ہے۔

تاریخی حقائق:

اسرائیل کے خلاف پاکستان کی مسلسل پوزیشنپاکستان کی تمام جمہوری حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان نے عرب ممالک کا ساتھ دیا اور اسرائیل کے خلاف کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی پاکستان نے مصر اور شام کو ہر ممکن مدد فراہم کی۔ اس موقف کا تسلسل ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے دور میں بھی برقرار رہا۔ عمران خان نے بھی فلسطینی کاز کے حق میں سخت موقف اختیار کیا۔ انہوں نے عوامی طور پر کئی مرتبہ اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی اور کہا کہ فلسطین کے مسئلے کے حل تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات ممکن نہیں۔ 2020 میں اسرائیل کے ساتھ کچھ مسلم ممالک کے تعلقات معمول پر آنے کے باوجود، عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

تنقیدی جائزہ:

کالم میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں نرمی اختیار کر سکتے ہیں، جو تاریخی حقائق کے برعکس ہے۔ عمران خان کی جانب سے جمائما گولڈ اسمتھ یا گولڈ اسمتھ خاندان کے اثرات کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی قیاس آرائی ایک من گھڑت خیال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے بارہا اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو مسترد کیا ہے، جب تک کہ فلسطینی عوام کو انصاف اور ان کے حقوق نہیں مل جاتے۔عمران خان نے اپنے انٹرویوز میں بارہا اسرائیلی جارحیت کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ 2019 میں الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ “فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستانی عوام کے جذبات اور ہماری خارجہ پالیسی کے خلاف ہوگا”۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی یہی مؤقف اپنایا۔

تزویراتی جائزہ:

پاکستان کا موقف اور مشرق وسطیٰ کی سیاستمشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال اور چند عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود پاکستان کا موقف اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ جغرافیائی توازن ہے۔ پاکستان کے اندرونی حالات اور اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اسرائیل مخالف پالیسی بھی اس فیصلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پاکستان، ترکی اور ایران جیسے بڑے مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف فلسطینی کاز کو سپورٹ کرتے ہیں، اور ان کا مؤقف مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اہم ہے۔ اگرچہ کچھ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر چکے ہیں، لیکن پاکستان کا اسرائیل کے بارے میں موقف اسلامی دنیا کی اکثریت سے ہم آہنگ ہے۔
پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پیش کیے جانے والے خیالات، جیسا کہ بلاگ میں بیان کیے گئے ہیں، تاریخی حقائق کے خلاف ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کی ہے، اور عمران خان کے دور میں بھی یہ موقف برقرار رہا۔ ان کی عوامی تقاریر اور انٹرویوز میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک کہ فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل جاتا۔

گولڈ اسمتھ خاندان اور مغربی اشرافیہ کا اثر

فرد واحد کی ذاتی تعلقات ریاست کی خارجہ پالیسی اور انکی حساسیت کو تبدیل نہیں کر سکتے، خاص طور پر جب اس کا تعلق ایک مستحکم اور بااثر ریاست کی پالیسی سے ہو۔ عمران خان کی اسرائیل پر تنقید اور فلسطین کے حق میں ان کے موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اسرائیل کے بارے میں فرمودات، خارجہ پالیسی کی مسقتل مزاجی، تاریخی، تزویراتی اور زمینی حقائق، نظریہ اسلام کے ساتھ پاکستان کا جڑا ہوا بنیاد، اسرائیل کا مسلمانوں پر ظلمو جبر، بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے خلاف ناکام مزاحمتی اقدامات جیسے افعال ایک فرد واحد کے ذاتی تعلقات سے کہیں گنا زیادہ بالاتر ہے۔ چنانچہ عمران خان کو ان تمام عوامل کا باخوبی ادراک ہے نہ صرف بلکہ انکی حب الوطنی خارجہ پالیسی کی تناظر میں انکے انٹرویوز میں پیوست ہے۔ اس لئے گولڈ اسمتھ کے خاندان کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونا ایک بے تکی سوچ کے سوا اور کچھ نہیں۔ مصنفہ نے براہراست اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر عمران خان واپس وزیر اعظم بن گئے تو انکے نظریات صلاحیت پاکستان اسرائیل تعلقات میں کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ حالانکہ عمران خان کے رجحانات نظریاتی طور اسلام کے ساتھ منسلک ہے اور اسلام پاکستان کی حساس بنیاد ہے۔ جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔ اسرائیل اور مسلمانوں کے ساتھ ثالثی کا کردار اور اس پر امید قائم رکھنا ایک احمقانہ طرز سوچ و عمل ہے۔ پالستان حقیقت میں او ائی سی کا ممبر ہی اسی لئے بنا تاکہ مسلم ممالک کو فلسطینی مسلے پر لیڈ کر سکے۔ افواہوں پر قیاس کرتے ہوئے مصنفہ نے لکھا ہے کہ عمران خان نے پس پردہ اسرائیلی احکام کو پیغامات بھیجے ہے کہ پاکستان اسرائیل تعلقات کو معمول پر لایا جائے اور مذہبی گفتگو کو بھی اعتدال پر لانے کی درخواست کی گئی۔ خواہشات کو افواہ کے طور پیش کرنا بیوقوفی ہے اور بے وقوفی جب حد سے بڑھے تو رسوا ہوکر ایسے شخص کو پاگل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پہلے سے ہی ایک تزویراتی پالیسی ہے جو تسلسل کے ساتھ فلسطینیوں کو انکا حق دلانے پر مرکوز ہے جو عالمی سطح پر تزویراتی اقدام کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔

ثالثی اور علاقائی تبدیلیوں کا امکان

درج بالا عنوان کے پیراگراف میں ائنور بشیروا نے لکھا ہے کہ “عمران خان کی مغربی تعلیم اور مختلف ثقافتی اور سیاسی شعبوں کے درمیان تشریف لے جانے کی صلاحیت انہیں اسرائیل اور مسلم ریاستوں کے درمیان ایک ممکنہ ثالث کے طور پر منفرد حیثیت دیتی ہے”۔ عمران خان کی مغربی تعلیم ہی تھی جب انہوں اقوام متحدہ کے جنرل آسمبلی سے 29 ستمبر 2019 کو عالمی برادری کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کشمیر میں ظلم اور جبر کی داستانیں رقم کر رہا ہے جس پر عالمی برادری خاموش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہمارا جواب لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ ہوگا۔ عمران خان کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں وہ آج بھی اسلامی نظریہ تعلیم کے داعی ہے ناکہ مغربی تعلیم کے۔ جب ابراہیم معاہدے کی تناظر میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تو اس پر مصنفہ نے لکھا ہے کہ عمران خان بھی معاہدے کی توسط سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو گرمانے کے آثار ظاہر کیے۔ یہ محض افواہ کے ہے اور کچھ نہیں۔ ابراہیم معاہدے پر انہوں نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرینگے۔

تیزی سے بدلتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں قیاس آرائیاں

مصنفہ ائنور پشیروا نے قیاس آرائیوں پر زور دیتے ہوئے ڈھٹائی کے ساتھ مزید لکھا کہ عملی سفارت کاری کے ذریعے دیرینہ دشمنی پر قابو پایا جا سکتا ہے یعنی جب یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے، تو یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ عمران خان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مسلم ممالک کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہوسکتے ہے۔ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ سفارتی تعلقات انکے ساتھ بنائے جاسکتے ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہو، پاکستان نے اپنی آزادی کی بنیاد ہی اسرائیل کو نا ماننے پر رکھی ہے۔ پاکستان کیخارجہ پالیسی کی تسلسل کا اندازہ اس بات سے لگا لے کہ 1947 سے لیکر آج پالستان نے پاسپورٹ کو دنیا کے تمام ممالک کے لئے قابل قبول قرار دیا ہے ماسوائے اسرائیل کے۔ عمران خان کی صلاحیتوں میں مسلمانوں کے بقاء کی ترجیحات بطور رجحانات شامل ہے یہ رجحانات انکے عملی اقدامات سے لیکر فکری نظریات تک انکے تقاریر میں نظر آتی ہے۔
موصوفہ دھمکی امیز طور پر لکھتی ہے کہ” مشرق وسطیٰ ایک اہم تبدیلی کے درمیان ہے، جو اتحاد، اقتصادی مفادات، اور انتہا پسندی کے مشترکہ خطرے کی وجہ سے کارفرما ہے”۔ یعنی جو ظلم، بربریت، ذیادتیاں ایک وحشی جانور کی طرح اسرائیل فلسطین کے ساتھ کررہا ہے اس سے پاکستان کو ڈرانا چاہیے کہ بچوں، خواتین، بزرگوں کو جس ظلم کے ساتھ قتل کر رہا ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا اگر پاکستان اور دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار نا کیے۔ جبکہ اسی ظلم و بربریت پر عمران خان نے اپنے ایکس اکاونٹ پر متعدد مرتبہ پاکستان کے خارجہ پالیسی کے عین مطابق اسرائیل کو قابض، سفاک، جنگی جرائم کے مرتکب، عالمی قوانین کا احترام نا کرنے والا، انسانی حقوق کو پامال کرنے والا، قاتل، جارح، بدمعاش، جنیوا اور ویانہ کنونشن کی دھجیاں بکھیرنے والا ناجائز ریاست قرار دیا ہے۔
عمران خان اس وقت پاکستان کے قانون کے مطابق جیل میں قید ہے، انہیں رہا کرنے اور انہیں وزیر اعظم بننے کی ائنور بشیروا کی خواہش، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کے مترادف ہے۔ اس بلاگ سے جو ٹائمز آف اسرائیل کے اخبار میں چھپی ہے، مفروضہ جات، قیاس آرائیاں، ناقبل ممکن ممکنات، بے تکی سوچ اور غیر منطقی ارادوں یا پھر خواہشات سے تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان اسرائیل کے لئے ایک بہترین شخصیت ثابت ہوسکتے ہے جن کے مدد سے پاکستان اسرائیل تعلقات استوار کیے جاسکتے ہے جبکہ زمینی حقائق اس پروپیگنڈہ بیسڈ بلاگ سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ پاکستان صرف ایک ملک نہیں بلکہ یہ نظریہ اسلام کا محافظ ریاست ہے، جنہوں نے دنیا کو اسلام کے سنہرے اصولوں سے روشناز کروا کر ظلم و بربریت کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہاں کے عوام، سیاستدان، افواج پاکستان، انٹیلیجنس ایجنسیاں تمام ادارے خارجہ پالیسی کے شراکتدار ہے جو عوام اور ریاست پاکستان کے ترجیحات کا مظہر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *