تحریر۔نظام الدین
پاکستان سے جارہا ہوں میں دس بارہ سال تک واپس نہیں آؤں گا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ جس مقصد اور مشن کے لیے جارہ ہوں اس میں پندرہ سال بھی لگ جائیں؟ میرے بعد تنظیم کے تمام معملات چیرمین عظیم احمد طارق سنبھالیں گے اور آپ لوگ متحد رہنا ؟ پاکستان میں موجود آخری الفاظ تھے “یہ بانی ایم کیو ایم کے جو خدمت خلق فاؤنڈیشن کے گراؤنڈ میں، (پیر الٰہی بخش کالونی) اور ( لائینز ایریا) سیکٹر کے مشترکہ زمہ داران ؤ کارکنان کے اجلاس سے خطاب میں ادا کیے اور دوسرے دن یکم جنوری 1992 کو عمرہ ادا کرنے سعودی عرب روانہ ہوگئے 28 جنوری کو عمرہ کرکے برطانیہ کے شہر لندن پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دائر کردی جو طویل مدت 2001 میں منظور کر لی گئی” تب سے تاحال وہ لندن میں مقیم ہیں، ان کے جانے کے بعد 19 جون 1992 کو ایک فوجی آپریشن بلیو اسٹار کا آغاز ک سندھ میں ڈاکوؤں اور ان کے مبینہ سرپرستی کے خلاف کیا گیا؟ مگر” اس کا ر خ سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجروں کی طرف موڑ دیا گیا اور پھر جو سلوک مہاجروں کے ساتھ ہوا اس کے بتانے کی ضرورت نہیں؟ پرنٹ میڈیا، الیکٹرونک میڈیا، سے لیکر سوشل میڈیا کے درو تک اس ظلم ؤ جبر ناانصافیوں اور بے رحمانہ فوجی آپریشنوں کی خبروں سے بھری پڑی ہیں، جس میں بے شمار وہ مہاجر بھی اس آپریشنوں کی زد میں اکر متاثر ہونے جن کا اس تنظیم سے کوئی تعلق کوئی واسطہ بھی نہیں تھا؟ مگر سندھ کچے کے ڈاکو آج بھی موجود ہیں جواس فوجی آپریشن بلیو اسٹار پر ایک سوالیہ نشان ہے ؟؟؟ جس میں ہزاروں مہاجر ہلاک، زخمی اور بے گھر ہوگئے ؟
جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دور فروری 1984 میں جب طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی” تب مارچ 1984 میں سندھ کی شہری طلباء تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے مہاجر قومی موومنٹ کا جنم ہوا جبک اس طلباء تنظیم کے بانی 1983 میں امریکہ کے شہر شکاگو میں گرین کارڈ کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے ان کی غیر موجودگی میں نومولود طلباء تنظیم علاقائی تنظیم میں تبدیلی ہو گئی ،، جبکہ مارشل لاء کے دور میں ملک کے اساتذہ “نہ سقراط تھے “نہ کنفیوشس اور “نہ ہی کارل مارکس جو اپنے شاگردوں کو سوال کرنے کی اجازت دے کر ان کے ذہنوں میں کلبلا تے سوالوں کی تشفی کرتے کالج اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہی نہیں اس دور کے سیاست دان بھی مارشل لاء کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے مارشل لاء کے قوانین پڑھا رہے تھے جو مارشل لاء کے متعین کردہ مقتدرہ کی مرضی و منشا کے قواعد و ضوابط ہی کو حقیقی آزادی سمجھنے لگے تھے مگر مارشل لاء کے دور میں نئی نسل کے طلباء کو مہاجر تنظیم نے جو سکھایا پڑھایا اور بتایا وہ ریاستی مقتدرہ کی مرضی ؤ منشا کے خلاف تھا ؟ جس کا نتیجہ آج بے شمار مہاجر تنظیموں کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے ، جبکہ پاکستان میں بانی ایم کیو ایم ہی وہ واحد لیڈر نہیں تھے جو انقلاب کی بات کر رہے تھے دیگر سیاست دان بھی انقلاب لانے کا دعویٰ تو کررہے تھے مگر ان کا منشور صرف کسی بھی صورت میں اقتدار حاصل کرنا تھا؟ جبکہ مہاجر طلباء تنظیم کا انقلاب صرف پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر ابادی کے تناسب سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ، ملازمتوں میں غیر منصفانہ تقسیم “یعنی
(کوٹہ سسٹم) کا خاتمہ محصورین بنگلہ دیش کی پاکستان واپسی، ،مہاجرقومیت کو تسلیم کرنا، اور سندھ میں شہری ( صوبے ) کا مطالبہ تھا جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مہاجر شہید کردیے گئے ،
کچھ مورخین اور مفکرین تاریخ کو تبدیل کرنے کا کام لیڈروں سے جوڑتے ہیں جو اپنے خیالات ؤ افکار سے سماج کو متاثر کرتے ہیں تو سماج کے لوگوں میں تبدیلی کی خواہش پیدا ہوتی ہے اصل لیڈر کا ویژن قوم کی جان مال سلامتی اور منزل تک پہنچانے کا زمہ دار ہوتا ہے یہ سب کچھ اس کی زہانت حکمت عملی اور دانشمندی پر منحصر ہوتا ہے اس کی تھوڑی سی غیر دانشمندی غلط فیصلہ اور چوک قوم کو صدیوں کی غلامی کے نرغے میں ڈال دیتی ہے ، اصل انقلابی لیڈر اپنے مقصد کی خاطراپنی جان دینے کو تیار رہتے ہیں جس طرح سقراط نے جان دیگر ساری زندگی کے لیے آمر ہوگیا، اس طرح بے شمار انقلابی لیڈر دنیا سے گزرے ہیں اب سوال یہ ہے کہ بانی ایم کیو ایم عمر کے اس حصے میں داخل ہوچکے ہیں جب زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں رہتا وہ اب اس عمر میں بھی پاکستان کے اداروں عدلیہ اور سیاست دانوں سے بار باراپنی تقریر تصویر پر لگی پابندی کے خلاف اپیل کررہے ہیں لیکن اب شاید یہ ممکن نہیں اس کے لیے انہیں پاکستان آنا ہوگا مہاجروں نے تو اپنی جان ؤ مال کی قربانیاں دیکر اپنا حق ادا کر دیا اور انہیں دنیا کے سامنے اپنا “ہیرو ” بنا کر پیش کردیا اب یہ بانی ایم کیو ایم کی قائدانہ صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ مہاجر قوم کو ظلم ؤ جبر اور گھٹن زدہ ماحول سے نکالیں اور پاکستان پہنچ کر مہاجروں کے لیے فیصلہ کن جنگ لڑیں “جس طرح ” چین کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماؤ زے تنگ 83 سال کی عمر پاکر دنیا سے رخصت ہوئے سے پہلے 1949 کو بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھ چکے تھے ،
سید روح اللہ موسوی خمینی 87 سال کی عمر میں انتقال سے پہلے ایران میں انقلاب برپا کرچکے تھے انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے “گاندھی جی” 79 سال کی عمر میں اپنوں میں قتل کردیے گئے تھے،
بانی پاکستان محمد علی جناح 72 سال کی عمر میں زیارت سے واپس آئے تو کراچی ایئربیس سے اسپتال منتقل ہونے سے پہلے راستے میں انتقال کر گئے یہ اور نیلسن منڈیلا جیسے دیگر لیڈر جنہونے جوانی میں انقلابی تحریک چلائی لیکن آخری وقت میں اپنے ملک اپنے لوگوں میں آگے اور یہ سب موجودہ صدی کے لیڈر ہیں جن کو آج بھی زمانہ یاد کرتا ہے، باقی ایسے بھی لیڈر گزرتے ہیں جنہونے آپنی قوم اور انقلاب سے غداری کی تو آج ان کو کوئی جانتا بھی نہیں ایسے جعلی انقلابی لیڈر تاریخ کے صفحات سے ہی غائب ہیں ؟ بانی ایم کیو ایم بھی اسی صورت میں تاحیات “امر” ہوسکتے ہیں جب وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے ساتھ مجمع میں کھڑے ہوں ؟ ورنہ وہ زیرو ہو جائیں گے تاریخ میں ان کو یاد تو رکھا جائے گا مگر ایک بزدل مہاجر لیڈر کے نام سے؟
“موت تو برحق ہے پھر موت سے ڈرنا کیسا”
“موت ہجرت نقل مکانی ہے پھرڈرنا کیسا”
سندھ بلخصوص کراچی کے پیچیدہ تہ در تہ اور ہمہ پہلو بحران کا جائزہ چند صفحات میں لکھنا ممکن نہیں ایسی طرح بانی ایم کیو ایم کا کراچی کے مسائل کو سمجھنا ممکن نہیں وہ 1992 میں جو مسائل چھوڑ کر لندن گئے تھے اج 2024 میں کراچی ان مسائل سے بہت آگے جاچکا ہے مہاجروں کے مسائل کی سنگینی گہرائی ذور گیرانی کا اندازہ لندن میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتے اس کے لیے
انہیں واپس کراچی آنا ہوگا کیونکہ کراچی کی موجودہ آتش فشانی میں صرف مقامی، لسانی، گروہی، سیاسی، مذہبی عوامل ہی کارفرما نہیں، بلکہ اب یہ عالمی استعماری ضروریات اور حکمتِ عملی کا بھی حصہ بن چکا ہے ۔ کراچی کے باہم دست بگریباں گروہوں کے عالمی دہشت گردوں سے تعلقات ہیں۔ جو تواتر سے ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔اس کے بعد بھی کیا یہ سمجھاجا سکتا ہے کہ ’’کراچی بحران‘‘ محض مقامی مسئلہ ہے ؟؟؟