تعلیم کے نام پر کاروبار آخر کب تک؟

تحریر: حسنین سرور جکھڑ

السلام علیکم دوستو!
اُمید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے آج میں ایک ایسا سوال یا المیہ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو شاید مجھ جیسے بہت سے طالب علموں کے دلوں میں ہو لیکن وہ اسے معاشرتی دباؤ، تنقید اور “با ادب، با نصیب” جیسے جملوں کی وجہ سے بیان نہیں کر پاتے
میری کہانی 2022 میں شروع ہوتی ہے جب میں نے اُمیدوں، لگن، اور محنت کے جذبے کے ساتھ گورنمنٹ گریجوایٹ کالج کوٹ سلطان میں داخلہ لیا لیکن وہاں کے حالات دیکھ کر میرا دل بجھ سا گیا وہ توقعات جو اساتذہ کے بارے میں تھیں کہ وہ وقت پر کلاس لیں گے اور پڑھائی کا ماحول ہوگا صرف سنی سنائی باتیں نکلیں
دوستوں نے مشورہ دیا کہ اگر اچھے نمبر لینے ہیں تو کسی اکیڈمی میں داخلہ لو اکیڈمی گیا تو وہاں وہی پروفیسرز بڑے ذوق و شوق سے پڑھا رہے تھے جنہیں میں کالج میں اکثر فارغ دیکھتا تھا یہ دیکھ کر میرے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوئے:

  1. کالج میں وہی اساتذہ پڑھانے سے کیوں گریز کرتے ہیں؟
  2. غریب اور محنت کش طلبہ پر بھاری فیسوں کا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟
  3. تعلیم کا مقصد قوم کی خدمت ہے یا کاروبار کرنا؟
    میرے والدین نے میری فیس اور دیگر اخراجات برداشت کیے لیکن ہر غریب طالب علم اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا۔ وہ مجبور ہیں کہ یا تو تعلیم چھوڑ دیں یا نظام کے سامنے جھک جائیں۔
    یہ سوال نہ صرف میرے لیے بلکہ ہر اس طالب علم کے لیے ہے جو محنت اور خوابوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے:
    ہماری تعلیم آخر کب تک کاروبار کا حصہ بنی رہے گی؟
    اساتذہ کرام کالج میں اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ ہمارا حق نہیں کہ ہمیں وہی معیارِ تعلیم فراہم کیا جائے جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟
    دوستو! یہ سوال میں نے معاشرے کی تنقید یا “اسلامی ٹچ” سے ڈر کر نہیں بلکہ غریب بچوں کی تعلیم کو آسان اور سہولت بخش بنانے کے لیے اٹھایا ہے۔ آئیں سب مل کر آواز بلند کریں کہ تعلیم کو کاروبار بننے سے روکا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *