اہلہ لاہور کا غصہ

ترتیب . نظام الدین

کوئی کاروبار کرنے والا، ہنر یا کام کے ذریعے سے روزی کمانے والا، کاریگر، اہل حرفہ، دوکان دار، تاجرجو کسی مشغلہ کو بطور پیشہ ذریعہ آمدنی اختیار کرے ، یا ایک مخصوص پیشہ کے ماہر کسی خاص علاقے کے کسی پیشے میں سکہ بند لوگ جو اس نسبت سے مشہور ہون جس نے فلاح و بہبود، رفاہ عام یا عوامی تفریح کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہو، جیسے: پیشہ ور شاعر ، رقاصہ اور ان کی پرفارمینس “یعنی ” کسی شاعر کی شاعری پر کتاب لکھ کر یا رقصہ کے رقص کی فلم بندی کرکے روزگار حاصل کرنا بھی پیشہ ہے
ایک پیشہ “طواف” کا بھی ہے
یہ ایک پیچیدہ اور متنازعہ اصطلاح ہے جو مختلف سیاق و سباق میں استعمال ہوتی ہے تاریخی طور پر “طوائف” ایک درباری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب عورت تھی جسے موسیقی رقص ، اور شاعری کی تربیت دی جاتی تھی وہ محفلوں ثقافتی اجتماعات میں اپنے فن اور ذہانت کی وجہ سے قابل احترام تھیں ، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اصطلاح “طواف ” کا تعلق عصمت فروشی سے بھی رہا ، اور اس پیچیدہ اور مشکل تاریخ کو تسلیم کرنا ضروری ہے ،
حالانکہ عصمت فروشی پیشہ بہت سے ممالک میں غیر قانونی اور اس میں ملوث افراد کے لیے سزائیں بھی مقرر ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں اسے کاروبار کا درجہ دیکر اس کام کے لیے جگائیں مختص کردی گئیں ہیں اوران مقامات کے نام بھی مقرر کئے گئے ہیں ،
“مثلاً “
ڈی والن (ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈز) ریپربان (ہیمبرگ، جرمنی)
پٹپونگ (بینکاک، تھائی لینڈ)
. گیلانگ (سنگاپور)
کابوکیچو (ٹوکیو، جاپان)
. نیواڈا (امریکہ) – نوٹ کریں کہ نیواڈا کی کچھ کاؤنٹیوں میں جسم فروشی قانونی ہے
پیگیلی (پیرس، فرانس)
سوہو (لندن، یو کے)
سونا گا چھی، (کلکتہ بھارت)
جسے چھوٹا شہر کہا جاتا ہے ،
ہیرامنڈی۔ (لاہور پاکستان)
جو ایک قدیم علاہ ہے ،
اس کی تاریخ قدیم زمانے سے ہے, “لیکن” مغل دور سے مستند کتابوں میں اس کی تاریخ ملتی ہے اس جگہ مغل بیگمات رھتی تھیں آن کی نسبت اسے شاہی محلہ کہا جاتا تھا ، مغلوں سے رنجیت سنگھ بہادر نفرت کرتے تھے سو دیوان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ کے نام پر اس محلے کا نام ہیرا منڈی رکھ دیا گیا ۔ اس سے پہلے یہ بازار لوہاری دروازے سے داخل ہوں تو پہلے چوک جس کا موجودہ نام چوک بخاری اور پرانا نام چوک چکلہ ہوا کرتا تھا ، سے شروع ہو کر چوک متی سے ہوتی ہوئی پاپڑ منڈی مسجد مائی موراں سے آگے تک چلی جاتی تھی ۔ مائی موراں بھی رنجیت سنگھ بہادر کی بیوی یا رکھیل تھی اور اس کا تعلق بھی اسی بازار سے تھا اور متی بائی جس کے نام کی وجہ سے اسے چوک متی کہا جاتا ھے ،کا تعلق بھی اسی بازار سے تھا ۔ چوک چکلے کا نام 80ء کے آغاز میں ڈاکٹر بخاری کی وفات کے بعد تبدیل کرکے چوک بخاری رکھا گیا۔ اسی چوک میں شیخ چٹخارا کی مشہور دکان ہے ،یہ تھی ہیرامنڈی کی مختصر تاریخ ، “لیکن
سنجے لیلا بھنسالی جو بھارتی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اور اسکرین رائٹر ہے اس کے
: آباؤ اجداد کا تعلق بھنسالی گجراتی برادری سے ہے جس کی جڑیں ہندوستان کی ریاست راجستھان میں ہیں۔ خاص طور پر، ان کا تعلق شکروار شہر سے تھا، جو اب راجستھان کے جھنجھنو ضلع کا حصہ ہے۔ اس کے والد نوین بھنسالی فلم ڈسٹری بیوٹر تھے سنجے لیلا بھنسالی ممبئی، میں پیدا ہوا
: سنجے لیلا بھنسالی نے ایک ویب سیریز ’ہیرا منڈی- دی ڈائمنڈ بازار‘ ویب سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس پر ریلیز کی آٹھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کی کہانی 1910-1940 کی دہائی میں برطانوی راج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے۔
اس سیریز کی کہانی تقسیم سے قبل اور تحریکِ آزادی کے وقت لاہور کے شاہی محلے ہیرا منڈی میں بسنے والی ایک طوائف ’ملکہ جان‘ اور ان کے کوٹھے کے اردگرد گھومتی ہے۔
عالی شان محلوں، بیش قیمت فانوسوں سے بھرے دلکش سیٹ، سونے، چاندی اور نوادرات سے لدی قیمتی لباسوں میں ملبوس ہیروئنز اور بے مثال کیمرہ ورک اور ؟مگر اس سب کے باوجود یہ سیریز 1940 میں لاہور کی ہیرا منڈی کی درست شبیہ پیش کرنے میں ناکام رہی
جس کی وجہ سے اہلِ لاہور کو غصہ ہے کہ ہیرامنڈی کے مکانات میں ایسا ایک بھی صحن نہیں ملے گا جیسا بھنسالی کے سیٹ پر دکھایا گیا ہے؟ اس محلے میں کثیر المنزلہ پانچ پانچ، دس دس مرلے کے کوٹھے یا مکانات تھے اور جیسی امارت سیریز میں ظاہر کی گئی ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ، دراصل یہ ویب سیریز بھنسالی کی فطری خواہش “بھوک “کا کمال جس کے زریعے دولت حاصل کرنے کے لیے ایک تاریخ کے روشن پہلو حقائق اور حقیقی کرداروں کو مسخ کیا ہے اور تاریخ غلط پیش کی گئی ہے
بازار حسن اور طوائفوں کا ٹھاٹھ باٹ تاریخ کی کتابوں میں حسن خوابیدہ کی مانند تھا جسے کمال امروہی اور مظفر علی نے دھڑکتی تصویروں کی صورت ہمارے دلوں پر نقش کیا۔ ممکن ہے تاریخی حقائق ذرا ادھر ادھر ہو گئے ہوں لیکن مجال ہے ’پاکیزہ‘ اور ’امراو جان‘ دیکھتے ہوئے یقین کرنے میں ذرا سی بھی دقت پیش آئے کہ لکھنؤ کا بازار ایسا ہی ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *