تحریر۔نظام الدین
کراچی شہر آس دن مکمّل
سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے حوالے ہی نہیں کیا گیا تھا بلکہ
شہر میں تمام موبائل فون سروس دو روز تک معطل رہیں
اور عام تعطیل کا اعلان بھی کردیا گیا تھا،
ایئرپورٹ سے مزار قائد ایم اے جناح روڈ سے لے کر وزیر اعلیٰ ہاؤس تک کے مختلف راستوں کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا تھا، یوں سمجھ لیں اس دن شہر کے اولڈ سٹی ایریاز میں چھوٹے سے کرفیو کا سماج تھا٫٫
اتنی سخت سیکیورٹی پر مختلف لوگوں نے سوشل میڈیا پر تنقید بھی خوب کی تھی ،
راقم نے اس ماحول کے بعد سیکیورٹی ادارے کے ایک سینئر اہلکار سے سوال کیا کہ زمین پر تو اتنی سخت سیکیورٹی کرلی جاتی ہے ؟ فضائی راستوں پر حفاظت کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے ؟ “تب” انہونے بتایا” کہ فضائی سفر کے دوران انسانی جسم کا 70فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور جب کوئی حادثے کا شکار طیارہ برق رفتاری کے ساتھ زمین سے ٹکراتا ہے تو اکثر اوقات انسانی جسم اس پانی کی وجہ سے غبارے کی طرح پھٹ جاتا ہے۔
اگر کندھوں کی بیلٹ نہ باندھی جائے اور صرف کمر کی بیلٹ باندھی گئی ہو تو ٹکر کی شدت کی وجہ سے جسم دو حصوں میں تقسیم بھی ہوسکتا ہے۔
فوجی طیاروں میں تو الٹے رخ لگی سیٹوں اور لائف جیکٹوں کی مدد سے عموماً زندگی کی امید رہتی ہے ،”ورنہ” اکثر فضائی حادثات میں مسافروں کے جوتوں میں بند پیر ہی سلامت ملنے والے اعضاءہوتے ہیں، جس کی مدد سے ان کی شناخت ممکن ہوتی ہے ،
تیزی سے گرتے ہوئے جہاز میں آکسیجن ماسک اکثر بے فائدہ ثابت ہوتے ہیں۔
سمندر میں گرنے والے جہاز میں موجود افراد زندہ بچ بھی جائیں تو اکثر کم درجہ حرارت کی وجہ سے ہائپوتھرمیا کا شکار بن جاتے ہیں۔
عموماً 80فیصد فضائی حادثے لینڈنگ یا ٹیک آف کے وقت ہوتے ہیں۔آگ لگنے کی صورت میں مدد کے لئے صرف ڈیڑھ منٹ کا وقت دستیاب ہوتا ہے۔
جہاز میں مجوزہ مقدار سے کم ایندھن بھی بعض اوقات حادثے کا سبب بنتا ہے ،
منظم فضائی تخریب کاری کی صورت میں تخریب کار پوری کوشش یہ کرتا ہے اس کا ٹارگٹ ہر صورت میں ممکن ہو “جبکہ” ٹارگٹ ہونے والے طیارے کا عملہ مکمل طور پر اندھیرے میں ہوتا ہے” اس لیے دفاعی سسٹم فال نہیں کر پاتا اور تخریب کار کا مقصد بھی یہ ہی ہوتا کہ طیارے کا عملہ اپنا دفاع نہ کرسکے ، جس کے لیے وہ پہلے سے جہاز میں ٹیکنکل خرابی پیدا کرنے کے لیے عملے کو خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،
اللہ تعالیٰ کاکرم ہے کہ پاکستان کے اداروں نے ایران کے صدر کی آمد سے پہلے ہی کسی بھی ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے کے تمام انتظامات مکمل کرلئے تھے،
” لیکن” پاکستان سے رخصت ہوئے کے بعد 20 مئی 2024 کو ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر ایران کے صوبہ خراسان میں گر کر تباہ ہو گیا ، ابتداء میں اس واقعے کو تکنیکی مسلئہ اور خراب موسم بتایا گیا تھا “لیکن” تحقیقات کے بعد ایرانی حکام نے کہا ہے کہ یہ حملہ “دہشت گرد عناصر” نے کیا ہے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اتوار کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد سے جہاں ایک جانب دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس ہیلی کاپٹر کے بارے میں بھی بحث ہو رہی ہے ؟ “دراصل “بیل 212 نامی ہیلی کاپٹر جس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے علاوہ ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبداللہیان ، آذربائیجان صوبے کے گورنر ملک رحمتی، تبریز کے امام محمد علی الہاشم اور عملے کے ارکان سوار تھے۔
جب یہ حادثہ پیش آیا تو ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھی ایران آذربائیجان سرحد پر قز قلاسی اور خودآفرین نامی ڈیموں کی افتتاحی تقریب کے بعد تبریز شہر جا رہے تھے۔
ابراہیم رئیسی کے قافلے میں تین ہیلی کاپٹرز تھے جن میں سے دو بحفاظت منزل پر پہنچ گئے۔
امریکی فوجی تربیتی سینٹر یورپی ایوی ایشن سیفٹی اور دیگر ایجنسیوں سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ، بیل 212 ہیلی کاپٹر یو ایچ ون این ٹوئن ہیلی کاپٹر کی ایک قسم ہے اور یہ ایک مسافر ہیلی کاپٹر ہے جسے پہلی مرتبہ ویتنام جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔
یہ ہیلی کاپٹر سرکاری اور نجی آپریٹرز دونوں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر 1960 کی دہائی میں کینیڈین فوج کے لیے بنایا گیا تھا ڈیزائن میں دو انجن استعمال کیے جاتے ہیں ،
یہ یوٹیلیٹی ہیلی کاپٹر ہیں اس لیے انھیں UH کہا جاتا ہے۔
ان ہیلی کاپٹرز کو ہر قسم کے کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے مسافروں کی نقل و حمل، آگ بجھانا، سامان کی نقل و حمل، ہتھیاروں کی فراہمی وغیرہ۔
ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے اس کو اس طرح سے ماڈیفائی کیا گیا تھا یا اس میں ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں کہ اسے اعلیٰ سرکاری افسران اور رہنماؤں کے سفر میں استعمال کیا جا سکے۔
یہ ہیلی کاپٹر امریکی کمپنی بیل ٹیکسٹرون نے تیار کیا تھا۔
جس کے کئی انجینیر یہودی ہیں ، کمپنی کا مرکزی دفتر ٹیکساس میں ہے۔
بیل ہیلی کاپٹر کے جدید ترین ماڈل بیل 412 کے بارے میں کمپنی کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق اسے پولیس، میڈیکل ٹرانسپورٹ، فوجیوں کی نقل و حرکت، توانائی کی صنعت آگ بجھانے کے مقاصد سمیت 15 افراد بیٹھ سکتے ہیں اس کی لمبائی 17 میٹر اور اونچائی تقریباً چار میٹر ہے۔۔
اسے چلانے پر تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار روپے فی گھنٹہ خرچ آتا ہے۔جبکہ یہ ہیلی کاپٹر 230 سے 260 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔
امریکہ اور دیگر ممالک اس ہیلی کاپٹر کو فائر ڈیپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی استعمال کرتے ہیں۔
فلائٹ گلوبل کی 2024 کی عالمی فضائیہ کی ڈائریکٹری کے مطابق ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس 10 ہیلی کاپٹر ہیں، یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر کتنے عرصے سے استعمال میں تھا اور ایران کی حکومت ان میں سے کتنے ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے۔
اس سے حادثے سے قبل اس طرح کا ہیلی کاپٹر ستمبر 2023 میں متحدہ عرب امارات میں گر کر تباہ ہو گیاتھا ۔اس قسم کا حادثہ ایران میں 2018 میں پیش آیا تھا تب اس حادثے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ستمبر 2013 میں بیل 212 ٹوئن بلیڈ ہیلی کاپٹر ممبئی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے مطابق 1972 سے 2024 تک بیل 212 کو لگ بھگ 432 حادثے پیش
آچکے ہیں جن میں تقریباً 630 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
کئی دہائیوں سے عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کا ہوابازی کا شعبہ کمزور ہوگیا ہے
جب ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی طیاروں کو جدید بنانے کی کوششیں کی گئیں تو مغربی ممالک کے ساتھ بھی کچھ معاہدے کیے گئے
تاہم یہ کوششیں اس وقت ناکام ہو گئیں جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر پابندیاں عائد رکھیں ۔
ایران کو کئی برسوں سے پابندیوں کا سامنا رہا ہے اس لیے ایرانی طیارے غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں “کیونکہ” وہ جہازوں کے اسپیئر پارٹس یا نئے ایئر فریم حاصل نہیں کر پا رہے ،
“لیکن “ایران کے صدر ابرہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے گرنے کا تجزیہ وجوہات ، دستاویزات ، مختلف ممالک کے سربراہان کے بیانات حالاتِ ، مجرمانہ دھشت گردی تکنیکی پہلوؤں اور دھند موسم سمیت کسی مقروضے کو خارج یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،