تحریر۔مولانا محمد اکرم اعوان
نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں جب اسلام پھیلنا شروع ہوا اور لوگ اسلام کے نور سے بہرہ ور ہونے لگے تو مشرکین تو خیر مخالفت کرتے ہی تھے لیکن جو اہل کتاب دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے‘ انہوں نے بہت زیادہ مخالفت کی اور خصوصاً یہودیوں نے بے پناہ مخالفت کی۔ قرآن کریم میں یہ بات ملتی ہے کہ نصاریٰ مسلمانوں کے لئے یہودیوں کی نسبت کم ضرر رساں تھے۔ ان میں بعض اچھے لوگ بھی تھے لیکن یہودیوں نے تو مخالفت کی انتہا کر دی۔ اس جھگڑے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام نامی کی بہت شہرت تھی اور انساب عرب میں بھی ان کا تذکرہ ملتا تھا۔ ان کے حالات سے عوام الناس واقف تھے اور عوام کے دلوں میں ایک عظمت و عقیدت تھی۔ اہل کتاب نے جھگڑے کی بنیاد یہ بنالی کہ دین ابراہیمی پر تو صرف ہم ہیں۔ فرمایا:کہ تم ابراہیم علیہ السلام کی ذات کو لے کر کیوں جھگڑا کرتے ہو‘ تم دین ابراہیمی کے پیروکار کیسے ہو سکتے ہو یا تمہارا دین اس سے کس طرح مشابہت اختیار کر سکتا ہے؟ یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ہماری طرح عقیدہ رکھتے تھے اور وہ یہودی تھے۔ نصرانیوں کا دعویٰ تھا کہ ان کا عقیدہ ہمارے جیسا تھا اور وہ نصرانی تھے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ تو بے جا بحث ہے۔ ابراہیم علیہ السلام خود صاحب کتاب نبی تھے‘ موسیٰ علیہ السلام کم و بیش ایک ہزار سال بعد مبعوث ہوئے اور ان پر تورات نازل ہوئی۔ عیسیٰ علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے بھی غالباً ایک ہزار سال بعد تشریف لائے اور وہ بھی صاحب کتاب تھے اور ان پر انجیل نازل ہوئی۔اپنے اپنے وقت میں دونوں اللہ کے صاحب کتاب نبی اور رسول تھے۔ ابراہیم علیہ السلام تو ان سے بہت پہلے گزر چکے تھے‘ بھلا وہ ان کے پیروکار کیسے ہو سکتے ہیں؟ تم عجیب بات کرتے ہو! تمہیں اتنی بھی عقل نہیں۔ جس بات کا تمہیں کچھ علم تھا یعنی دین موسوی‘ تو اس کے متعلق تمہارا جھگڑنا ایک الگ بات تھی لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں تمہیں علم ہی نہیں‘ اللہ جانتا ہے کہ وہ سیدھے مسلمان تھے‘ نہ یہودی تھے نہ عیسائی‘ ان کے متعلق تم کیوں جھگڑتے ہو؟ پھر دوسری عجیب بات یہ ہے کہ تم یہودیوں سے تو دین موسوی اور تورات کی حفاظت نہ ہو سکی اور تم نے اس میں خرد برد کر کے احکام بدل دیئے بلکہ عقیدہ تبدیل کر دیا۔ بنیادی بات‘ عقیدہ ہے اور پھر اس کے فروعی احکام ہوتے ہیں۔ فروعات پہ تمہارے ساتھ کس طرح بات کی جائے جب تم اصول سے ہی گمراہ ہو گئے‘ اصل بات سے ہی بھٹک گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے۔ یہودیوں نے بھی توحید باری سے ہٹ کر حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مان کر الوہیت میں شریک کر لیا تھا۔ اولاد والد کے اوصاف میں پورے طور پر شریک ہوتی ہے جیسے انسان کا بچہ انسان ہونے میں کم نہیں ہوتا۔ علم میں کمی ہو سکتی ہے‘ قوت و طاقت میں کمی ہو سکتی ہے‘ شکل و صورت میں‘ خوبصورتی میں فرق ہو سکتا ہے لیکن انسان کا بیٹا انسان ہو گا۔ اس میں انسانی اوصاف ہوں گے۔ اسی طرح اگر اللہ کی بھی اولادمانی جائے (نعوذ باللہ) تو اولاد بھی الوہیت میں شریک ہو گی۔ اللہ سے کم تر سہی‘ کمزور سہی‘ اوصاف میں اللہ جیسا نہ ہو لیکن ذات میں اور الوہیت میں تو شریک ہو گا۔ اللہ تو ان باتوں سے بالا تر ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں‘ کوئی اس کا ہم سر نہیں۔
نہ اس کا کوئی والد ہے‘ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کی ہمسری کا‘ برابری کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے لے کر حضور نبی کریمﷺ تک یہ جو ایک عقیدہ توحید آ رہا تھا‘ جس کی تبلیغ اللہ کے ہر نبی ہر رسول نے کی‘ جو ہر دین کی بنیاد تھا‘ تم تو وہ بد بخت ہو جن سے عقیدۂ توحید کی حفاظت نہ ہو سکی۔ جب تم اصل کی حفاظت نہیں کرسکتے تو فروعات پر تمہارے ساتھ بات کرنا ہی فضول ہے۔ اس میں تم نے کس قدر غلطیاں کی ہوں گی‘ کتنی ٹھوکریں کھائی ہوں گی‘ کتنے گمراہ ہوگئے ہو گے‘ اس کی بات کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے‘ نہ نصرانی تھے۔بلکہ وہ بالکل سیدھے مسلمان تھے۔ یہ جو تم نے ایچ پیچ لگا لئے ہیں‘ شرک کے عقیدے وضع کر لیے ہیں‘ جو بدعات وضع کر لی ہیں‘ کتابوں کو مسخ کر دیا ہے اور اپنی مرضی کے احکام جاری کر دیئے ہیں‘ ان سب سے بالکل الگ اللہ کو ماننے والے‘ اس کی توحید‘ اس کی ذات‘ اس کی صفات پر خالص اور ٹھوس ایمان رکھنے والے تھے۔بالکل سیدھے سیدھے مسلمان تھے۔
ان کے نام کے ساتھ شرک کو جمع کرنا‘ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ان کا شرک کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا اور تم نے تو مشرکانہ عقائد وضع کر لئے ہیں۔ تمہارا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تعلق ہو سکتا ہے!
ہاں ابراہیم علیہ السلام کے اگر کوئی قریب تر ہے‘ ایمانیات میں‘ عقائد میں‘ اللہ کے دین میں‘ اللہ سے محبت میں‘ اللہ سے تعلق میں‘ تو یہ وہ لوگ ہیں جو ان کا اتباع کرتے ہیں‘ یعنی آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہﷺ کا تباع کرتے ہیں جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرح کھرے صاف ستھرے دین کی دعوت دی‘ خالص توحید کی دعوت دی اور جس میں شرک کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ تم لوگ جو شرک میں مبتلا ہو چکے ہو‘ اپنا کون سا رشتہ ابراہیم علیہ السلام سے استوار کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہو۔ تمہیں تو یہ دعویٰ زیب ہی نہیں دیتا۔ ابراہیم علیہ السلام کے قریب تر تو نبی محمد رسول اللہﷺ ہیں یا وہ لوگ جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔ صحابہ کرام‘ جنہیں شرف صحبت نصیب ہوا یا وہ جو قیامت تک آپﷺ پر ایمان لائیں گے اور انہیں اتباع محمد رسول اللہﷺ نصیب ہو گا۔
دین اسلام میں بعض وہ سنن بھی ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے عہد میں تھیں‘ جیسے بیت اللہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنایا‘ ناخنوں کا اتروانا یا اس طرح کی بعض باتیں جو دین ابراہیمی میں تھیں۔ وہ سنن محمد رسول اللہﷺ بھی ہیں اور ہم بحیثیت امت محمد رسول اللہﷺ نبی کریمﷺ کے اتباع میں ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم براہ راست ابراہیم علیہ السلام کی پیروی نہیں کرتے نہ اس کے مکلف ہیں۔ سنن ابراہیمی اگر اختیار فرمائیں تو حضورﷺ نے اختیار فرمائیں۔ ان کی عظمت‘ ان کی نبوت و رسالت پہ ایمان لانا ایمان کا تقاضا ہے۔ ہر نبی کو نبی ماننا ایمان کا نقاضا ہے اور کسی بھی ایک نبی کی نبوت کا انکار ایمان سے خارج کر دیتا ہے لیکن ہم اتباع محمد رسول اللہﷺ کا کرتے ہیں۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ہم دس ذوالحج کو قربانی کرتے ہیں لیکن اس لئے کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے قربانی کی اور قربانی کرنے کا حکم دیا۔ اگر حضورﷺ نہ کرتے‘ حکم نہ دیتے تو امت اس کی مکلف نہیں تھی۔ اس لئے امت جو بھی کرتی ہے‘ وہ اپنے نبی کریمﷺ کا اتباع کرتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے بعض سنن ابراہیمی پسند فرمائیں اور اللہ کے حکم سے انہیں اختیار فرمایا لیکن آپﷺ کے اختیار فرمانے سے وہ سنن محمد رسول اللہﷺ بن گئیں ا ور مومنین ان کا اتباع کرتے ہیں۔
ہر عبادت کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو من جانب اللہ وارد ہوتی ہے۔ انوارات و برکات‘ تجلیات الٰہی ہر رکن دین پر نازل ہوتے ہیں۔ جہاد پہ الگ‘ تبلیغ پہ الگ‘ رکوع و سجود پہ الگ‘ قربانی پہ الگ‘ طرح طرح کی رحمتیں اور برکات نازل ہوتی ہیں۔ یہ قربانی کی ایک عجیب مثال تھی کہ بڑھاپے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک لخت جگر عطا ہوا اور وہ بھی ایسا درخشاں پیشانی والا جس کی پیشانی سے نور محمدﷺ شعلہ زن تھا۔ اسے قربان کرنے کا حکم ہوا تو آپ علیہ الصلوٰۃ السلام نے اس کی گردن پہ چھری چلا دی۔ کس طرح کی رحمتیں نازل ہوئی ہوں گی! نبی کریمﷺ نے بحکم الٰہی اس سنت کو اپنایا۔ قربانی کرنے والا ایک جانور ذبح کرتا ہے‘ گائے بیل بکرا دنبہ ذبح کرتا ہے تو اس جانور کی قربانی پر اسے ان رحمتوں سے حصہ نصیب ہوتا ہے جو قربانی کی بنیاد رکھنے والے اللہ کے خلیل علیہ السلام پر اور ذبیح اللہ علیہ السلام پر نازل ہوئیں۔ ان رحمتوں میں وہ شریک ہوتا ہے۔ یہ اللہ کریم کا کتنا بڑا احسان ہے۔
اسی طرح حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیاس سے پریشان ہو کر پانی کی تلاش کے لئے صفاء اور مروہ پہ جو دوڑ لگائی تو وہ اللہ کو ایسی پسند آئی کہ فرمایا‘ اس انداز سے ان پہاڑوں پہ جہاں وہ دوڑی ہیں وہاں دوڑو‘ جہاں وہ چلی ہیں وہاں چلو اور جتنے چکر انہوں نے لگائے وہ لگاؤ۔ چنانچہ آقائے نامدارﷺ نے بھی وہاں سعی فرمائی۔ جو بھی حاجی حج پہ جاتا ہے‘ اس کا طواف مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ سعی نہیں کر لیتا۔ طواف کے ساتھ سعی کرنا حج کا رکن ہے۔ تو نیک لوگوں نے جو کام عبادت الٰہی میں کئے اور جس انداز سے اور جس خلوص سے انہوں نے وہ کام کئے‘ اگر وہ کام
کئے جائیں تو اس طرح کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔