تحقیق: **محمد الطاف ڈاہر **
altafkhandahir@gmail.com
0300 -7806375 wats app
دنیا کے تمام مذاہب کا فلسفہ و خلاصہ احترام آدمیت کے ساتھ دنیا و آخرت میں کامیابی کا حصول ہے۔مگر اسلام دنیا کا خوبصورت،پاکیزہ اور پرامن دین حق ہے۔اللہ پاک نے تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام اجمعین ہر عہد میں انسانیت کی خیر و بھلائی اور رشدوہدایت کے لیے بھیجے۔نبی کریم آخری زماں خاتم الرسل رحمت العالمین حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کی پوری روشن حیات طیبہ جو قرآن مجید کا عملی نمونہ ہے، ہر بشر سمیت تمام جہانوں کے لیے رحمت و برکت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کے اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تمام اولیاء کرام نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی پرنور ذات اقدس سے فیض یاب ہو کر پوری دنیا میں اسلام کو پھیلایا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ والسلام رحمت العالمین کے داماد، چچا زاد بھائی اور شوہر بتول حضرت مولا علی علیہ السلام سے ولایت کا خوبصورت در کھلتا ہے۔نواسان رسول صلی اللہ علیہ والہ والسلام حسنین کریمین علیہ السلام حضرت سیدنا امام حسن علیہ السّلام اور حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت طریقت، شریعت اور ولایت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی تکمیل ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ والسلام کے روضہ انور مدینہ منورہ شریف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے روضے مبارک ہیں۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لکھے رقعے پر دریائے نیل مصر کا چلنا بہت مشہور کرامت ہے۔ولایت آفتاب حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ کا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جاکر ملتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان کوٹھے وال 569ھ بمطابق 1175ء کو حضرت حافظ جمال الدین سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پیدا ہوئے۔سرائیکی دھرتی تصوف کی دولت سے مالا مال ہے۔سرائیکی علاقہ بزرگان دین کا ہمیشہ سے مرکز رہاہے۔ درگاہوں اور خانقاہیں پر منت منوتی سرائیکی وسیب میں صدیوں سے جاری ہے۔نیک،خیر و سلامتی کے اعمال کی دعائی تاثیر کا کرشمہ تصوف ہے۔نبی آخری زماں حضرت محمد مصطفٰی خاتم الرسل صلی اللہ علیہ والہ والسلام کا فرمان مبارک ہے کہ “عبادتوں کا مغز دعا ہے”۔ جو انسان اللہ پاک اور اس کے محبوب ترین نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی مان کر زندگی گزارتا ہے پھر اللہ پاک کی تمام رحمتیں اور برکتیں پاتا ہے۔تصوف کی عام تین منازل فنا فی شیخ ،فنا فی رسول صلی اللہ علیہ والہ والسلام اور آخری منزل فنا فی اللہ ہے۔جس کی بہترین عظیم الشان مثال شہادت نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ والسلام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام ہیں۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کا شمار چشتیہ سلاسل کے معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے۔ سلسلہ چشتیہ میں سلطان الہند حضرت سید خواجہ معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نوازؒ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد سب سے زیادہ شہرت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے حصے میں آئی۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کو سرائیکی زبان کا باقاعدہ پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔آپ کا کلام آفاقیت کا داعی ہے۔اشلوک صنف ابیات پر مشتمل ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا کلام سکھوں کی روحانی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کا حصہ ہے۔نمونہ کلام
رکھی سکھی کھا ٹھڈا پانی پی
فریدا ڈیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
سرور پکھی ہیکڑو پھائیوال پچاس
فریدا ایہ تن گڈ تھیا سچے تیری آس
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مریدین کی تعداد لاکھوں اور خلفا کی تعداد 700 کے قریب بتائی جاتی ہے۔چھ سو خلفاء انسانوں میں اور سو خلفاء جنات میں سے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ مجذوب السالک تھے۔ یعنی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانیت کے تین حصے جذب کے اور ایک حصہ سلوک پر مشتمل تھا۔والدہ ماجدہ بابا فرید قرسم خاتون رح ہر وقت عبادت خداوندی میں مشغول رہتیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ ابھی والدہ ماجدہ کےشکم میں تھے۔ والدہ ماجدہ قرسم خاتون رح رات کو ذکر الٰہی میں مشغول تھیں کہ ایک چور آگیا اور آفتاب ولایت کی کرامت سے نابینا ہوگیا۔پھر والدہ ماجدہ حضرت قرسم پاک دامن خاتون رح سے معافی چاہی اور ایمان لےآیا۔اس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔اللہ پاک کے ولی کے والدین کا فیضان بھی ہزاروں افراد کی زندگیوں میں کلمہ حق جاری کرا دیتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام مسعود اور والد گرامی کا نام حضرت حافظ سلیمان رح تھا۔ اسی نسبت سے مسعود بن سلیمان کہلائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فاروقی ہیں۔القابات میں گنج شکر ، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں اور باباصاحب مشہور ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پیر طریقت قطب الاقطاب حضرت خواجہ سیدقطب الدین بختیار کاکی اوشیؒ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔جن کے دست حق پر بیعت کی۔جو برصغیر پاک و ھند کے بانی سلسلہ چشتیہ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اول اور جانشین تھے۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد حضرت سید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ سمیت سلطان الہند حضرت سید خواجہ معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا فرمائی تھی۔اس موقع پر سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ “قطب الدین بختیار کاکی رح تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو۔ جس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا۔ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف سدرۃ المنتہیٰ پر ہے”۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مریدین خاص میں حضرت قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ(محبوب ترین مرید)،حضرت سید خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہیؒ(نظامی سلسلے کے بانی)حضرت مخدوم علاء الدین احمد صابر کلیریؒ(صابری سلسلے کے بانی)حضرت خواجہ بدرالدین اسحاقؒ (داماد)، حضرت خواجہ بابامنگھوپیرؒ (کراچی میں مدفون ہوئے) ،حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی پتیؒ(جنہیں آپ نے صابر کلیری ؒ کے ساتھ کردیا تھا) ،حضرت شیخ نجیب الدین متوکلؒ ہیں۔ ایک روایت کےمطابق حق سچ چار یار (بھائی دوست) ہم عصر اولیائے کرام میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ بانی برصغیر پاک و ھند سہروردی سلسلے کے بزرگ ہیں۔ان کو سرائیکی مقامی زبان میں خط لکھا۔ملتان شریف سے گاجریں آتیں تھیں بدلے میں بیر پاکپتن شریف سے جایا کرتے تھے۔پھر تحائف کا تبادلہ نہ ہوا تو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے خط لکھا حضرت بہاالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کو “ہتھڑیں وٹوں ہتھڑے پیراں وٹوں پیر تساں نہ متیاں گاجراں اساں نہ متے بیر”۔جن کا روضہ انور ملتان شریف میں ہے۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ پاک پتن شریف،حضرت سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاریؒ شہنشاہ ولایت نام سے ہی ظاہر ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ جلالی کیفیت کے حامل تھے۔حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع کے بارے میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک دوست جو اوچ شریف میں رہتا ہے ہر نماز باجماعت کعبہ شریف ادا کرتاہے پھر ان کی جگہ اللہ پاک اپنا ایک فرشتہ ہم شکل حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری ع مقرر کردیتا ہے کہ درس و تدریس کا عمل جاری رہے۔حضرت عثمان مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندرؒ رحمتہ اللہ علیہ آپ چاروں دوستوں میں سب سے کم عمر تھے۔ سیہون شریف سندھ میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔درگاہ خاص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے صاحب شجرہ خواجہ امین الدین نظامی کے مطابق آپ چاروں دوست تھے۔سب سے کم عمر حضرت لعل شہباز قلندر ؒ تھے۔ آپ چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت حضرت شیخ شہاب الدین سہرودری رح کی خدمت میں حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے۔نصف شب کو پہنچے، حضرت شیخ شہابؒ الدین سہرودری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عثمانؒ مروندی لال شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ کو بلایا۔ ان سے خدمت لی۔سینے سے لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں حضرت لعل شہباز قلندرؒبنادیا۔بعدازاں باری باری تینوں بزرگوں کو بلایا اور اپنی تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے نوازا۔چاروں اللہ پاک ولیوں نے حضرت شہاب الدین سہرودری رحمتہ اللہ علیہ سے خوب روحانی فیض پایا۔برصغیر پاک وہند کی پہلی فارسی تصوف کتاب کشف المحجوب حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔جس کے دیباچہ میں مشہور تاریخی جملہ درج ہے “لاہور یکے از مضافات ملتان است “۔ حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے چلہ کاٹا تھا۔فرید عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب فرد، واحد، یکتا،بےنظیر بےمثال اور لازوال کے ہیں۔حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے والدین کے مزارات ملتان شریف کے قصبے بدھلہ سنت میں موجود ہیں۔ حضرت بابا فریدؒ نے اپنے چھ خلفاء کبیر کو چھ علاقہ ولایت عطا کیے۔ حضرت قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسویؒ کو ہانسی،حضرت سید خواجہ نظام الدین اولیاءؒکو غیاث پور(دلی، انڈیا)،حضرت مخدوم صابر کلیریؒ رحمتہ اللہ علیہ کو کلیر شریف،حضرت خواجہ منگھوپیر بابا رحمتہ اللہ علیہ کو کراچی کا علاقہ عطا کیا۔ جبکہ اپنے داماد حضرت شیخ بدر الدین اسحاقؒ کو اپنے ساتھ رکھا۔ حضرت سید عثمان مروندی لعل شہباز قلندرؒ رحمتہ اللہ علیہ کو سیہون شریف سندھ بھیجا۔ ہر خلفاء کبیر کے ماتحت سوسو خلفاء رکھے جو کہ چھ سو ہوئے ۔جب کہ سو خلفاء جنات میں سے تھے یوں 700 کی تعداد پوری ہوتی ہے۔حضرت لعل شہباز قلندرؒ حضرت بابا فریدؒ گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کا بہت احترام کرتے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر حضرت لعل شہباز قلندرؒ حضرت بابا منگھوپیر رحمتہ اللہ علیہ سے ملنے کراچی تشریف لائے۔ اس وقت یہ جگہ غیر آباد تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مسکن ندی کنارے تھا ۔حضرت لعل شہاز قلندر رحمتہ اللہ علیہ ندی سے حضرت منگھوپیر بابا رحمتہ اللہ علیہ کے گھر تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے۔ بعدازاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چند خلفاء حضرت منگھوپیر بابا رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں آئے ۔حضرت بابا منگھوپیر رحمتہ اللہ علیہ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ حضرت لعل شہبازؒ کی تقلید کرتے ہوئے مگر مچھ پر سواری کرکے گئے۔ آج بھی سارے مگر مچھ حضرت منگھوپیربابا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر موجود ہیں اور انہیں وہاں کے مجاور باقاعدہ خوراک دیتے ہیں ۔ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے دو شادیاں کیں۔بادشاہ سلطان غیاث الدین بلبن آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سسر تھے۔چھ اولاد نرینہ اور تین اولاد زرینہ پائیں۔ حضرت شیخ بدرالدین سلیمان رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ شہاب الدین گنج علم رحمتہ اللہ علیہ،حضرت شیخ نظام الدین شہید رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ یعقوب رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ،حضرت نصراللہ رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت بی بی فاطمہ رح ، حضرت بی بی شریفہ رح ، حضرت بی بی مستورہ رح ہیں۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کی روشن کرامتوں میں پتھر کا سونا بن جانا بہت مشہور ہے ۔ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد (سورت اخلاص ) پڑھ کر دم کیا تو وہ رحمت خداوندی اور کرامت سے سونا بن گیا۔ بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی۔ لیکن پتھر پتھر ہی رہا۔ اس نے آکر آپ رحمتہ اللہ علیہ سےکہا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے تاریخی جملہ ادا کیا۔ “اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے پورا کردیتا ہے”۔والدہ ماجدہ حضرت قرسم خاتون رح کو کچھ مشکوک غذا کھانے نہ دی۔ایک بار دوران حمل آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت خراب کے ساتھ قے بھی ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا۔جب آپ رحمتہ اللہ علیہ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ میں نےدوران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی۔ تب ہی تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوئی تو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا تھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نےوالدہ ماجدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اجودھن کے جادوگروں کے ٹولے کو شکست دی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ اجودھن موجودہ (پاک پتن شریف) میں تشریف فرما تھے کہ ایک گوالن دودھ لے کر گزری۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خریدنے کی پیشکش کی تو وہ بولی کہ ایک جادوگر ہمارے جانوروں کا دودھ خریدتا ہے۔ اسے نہ بیچیں تو جانور مرجاتے ہیں ۔دودھ کی جگہ خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسے روک لیا اور تسلی دی۔گوالن کو ڈھونڈتے ہوئے جادوگر کاایک چیلا آیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسے کہا بیٹھ جاو۔ وہ بیٹھ گیا اور چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکا۔دوسرا آیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسے بھی بٹھالیا اس طرح پورا گروہ آیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے گئے بیٹھ جاو اور کوئی نہ اٹھ سکا۔اللہ پاک کے حکم سے اور ولی کامل کی روحانی کرامت سے سب چیلے بیٹھ گئے۔آخر میں ہندو جادوگر خود آیا اور وہاں بیٹھنے پر مجبور ہوگیا۔جب اٹھ نہ سکا تو سر زمین پر رکھ کر معافی چاہی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مشروط رہائی دی اور جادوگر تمام چیلوں سمیت وہ علاقہ فوری طور پر چھوڑ گیا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کرامات بے شمار ہیں۔ جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل تھا اس لیے اختصار کے ساتھ صرف یہ تین کرامتیں تحریر کی گئی ہیں۔گنج شکر کی وجہ تسمیہ کتب تصوف میں چار روایتیں ملتی ہیں۔اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نماز کی عادت کوبرقرار رکھنے کے لیے آپ کی والدہ بی بی حضرت قرسم پاک دامن خاتون رح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ جو بچہ اللہ پاک کا محبوب ترین عمل نماز پڑھتا ہے۔ اسےاللہ تعالیٰ بطور انعام (شرینی) شکر عطا کرتا ہے۔ ایک دن شکر رکھنا بھول گئیں ۔لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی ۔جس پر حضرت بی بی قرسم خاتون رح کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر ادا کیا۔دوسری روایت یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ درخت کےنیچے آرام فرما تھا ۔کچھ تاجر شکر لے کر گزرے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پوچھنے پر جھوٹ کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے۔ تاکہ بابا جی شکر نہ مانگ لیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ کے نمک میں برکت عطا فرمائے۔ بعد ازاں تاجروں نے دلی بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا۔ واپس آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا بوریوں میں شکر ہے تو شکر ہی ہوگی۔بوریاں کھولی گئیں تو شکر نکلی۔تیسری روایت یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ضعف (کمزوری)کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے ہوئےگرپڑے۔ منہ میں جو مٹی آئی وہ حکم ربی سے شکر بن گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پیرو مرشد نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو شکر گنج قرار دیا.چوتھی روایت ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پیرومرشد کے کہنے پر روزے رکھ رہے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ پانچ سے چھ دن سے روزے سے تھے۔ محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے۔ ضعف اور مدہوشی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو رب العزت کے حکم سے شکر بن گئی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے ولایت آفتاب کا وصال 90 سے 95 سال کی عمر کے قریب 5محرم الحرام665 ہجری کو بمطابق 1265ءعلالت کے سبب ہوا ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کے عزیز ترین مرید خاص خلیفہ اول محبوب حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیاؒ آپ کے پاس موجود نہ تھے۔ جس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ سید بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کےوقت موجود نہ تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک سرائیکی وسیب روحانی مرکز پاک پتن شریف میں واقع ہے۔ جہاں ہر سال عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔بہشتی دروازہ بھی کھولا جاتا ہے۔حضرت سید خواجہ نظام الدین اولیاءؒ رحمتہ اللہ علیہ نے جس جگہ عبادت خداوندی میں گزاری اور چلہ کاٹا اس جگہ کو بہشتی دروازہ کی زیارت نصیب ہوئی۔آج بھی لاکھوں زائرین و عقیدت مند درگاہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ حاضری دے کر روحانی فیض و تسکین پاتے ہیں۔سرائیکی زبان و ادب کے پہلے مایہ ناز صوفی شاعر (کلام اشلوک صنف شاعری)حضرت خواجہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کا عروج بام سرائیکی دھرتی کے باکمال شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ (صنف شعری کافی کی شکل دیوان فرید 272 کافیاں)کوٹ مٹھن شریف والے ہیں۔آج بھی پاکپتن شریف کو بجلی کی سپلائی میپکو ملتان شریف مدینہ الاولیاشریف سے دی جاری ہے۔سماج میں پھر سے حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ سے حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کے امن ومحبت کے پیغام کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج کے پُرآشوب عہد میں تکالیف اور پریشانیوں کا حل اولیاء کرام کی زندگیوں میں پوشیدہ ہے۔صوفی ہمیشہ اپنے عہد کا بہترین ماہر سماجیات،لسانیات اور معاشیات دان ہوتاہے۔وہ اپنے اخلاقی عملی مثالی کردار اور شاعری کے ذریعے ہر عام و خاص انسان کی روحانی و جسمانی تربیت کرکے معاشرے کا مفید فرد بناتا ہے۔
کالے میڈے کپڑے کالا میڈا ویس
گناہ بھریا میں لوک آکھن درویش
(بابا فرید گنج شکر رح)