میری بیٹیاں اور میں – یوم خواتین کا پیغام

تحریر۔نعیم اختر، راولپنڈی

روایتی اور قبائلی ”اسلام“ کے چند برس چھوڑ کر، جسے میں دور جہالت سے تعبیر کرتا ہوں، میں نے اپنی چار بیٹیوں کو پہلے انسان اور پھر عورت سمجھا ہے۔ ہمارے پدرسری سماج میں عورت کی پہلی خوشی اس کی پیدائش پر ہی چھینی جاتی ہے جہاں خوشی منانے کے بجائے منہ بسورے جاتے ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹی کا وجود بے معنی ہوتا ہے۔ اسے دوسرے تیسرے درجہ کا انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کی خوراک، تعلیم، تربیت کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کو جانور سمجھ کر اسے کھونٹے سے باندھ لیا جاتا ہے۔ اس کے بنیادی حقوق اس بری طرح پائے مال کیے جاتے ہیں کہ شادی بیاہ میں بھی اس کی مرضی معلوم کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اسے معاشی طور پر دوسروں کا دست نگر رکھا جاتا ہے۔ اسے ہر اعتبار سے کمزور، بے وقعت اور بے معنی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ چادر اور چار دیواری کے تقدس کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ اس پر اعلی تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ غیرت کے نام پر اسے زندہ گاڑ دیا جاتا ہے۔

ایسے زہریلے، سفاک اور خوفناک سماج میں، مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی چاروں بیٹیوں کو وہ تمام حقوق دینے کی کوشش کی ہے جو شاید کچھ گھرانوں میں بیٹوں کو دینا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک یہ جملہ بھی انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کی بدترین پائے مالی ہے کہ ”ہمیں خواتین کے حقوق ان کو دینا چاہئیں“ حق تو وہ ہوتا ہے جو پیدائشی اور جبلی ہوتا ہے۔ ہم کون ہوتے ہیں حقوق دینے والے؟ یہ حقوق تو انہیں بطور انسان حاصل ہیں۔ میں نے کبھی کسی بچی کو کبھی کسی خاص شعبے میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا، البتہ بڑی بیٹی ڈاکٹر زون نے ہم دونوں ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کے شعبے کا انتخاب کیا اور انشا اللہ ایک کامیاب مستقبل اس کا منتظر ہے۔

باقی تین رمشا، عطوفہ اور عفیفہ نے بھی اپنی مرضی کے شعبے اپنائے۔ ڈاکٹر زون اور عطوفہ تو ماشا اللہ برسر روزگار ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے کبھی واعظ خشک بیان بن کر بیٹیوں کے سامنے لمبے چوڑے بھاشن نہیں دینا پڑے۔ وعظ و نصیحت کی پٹاری نہیں کھولنا پڑی کیونکہ گھر کے ماحول، ماں کی تربیت و توجہ اور بہترین صحبت نے انہیں رمز و زمانہ شناس بنا دیا تھا۔ وہ سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں سے کماحقہ واقف ہیں۔ کوئی محفل ہو، کوئی جگہ ہو، کوئی مقام ہو، کیسی گیدرنگ ہو، انہیں یہ بتانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی کہ وہ کیسا لباس پہنیں، کس سے، کیا اور کتنی بات کریں۔ کس وقت جائیں اور کب واپس آئیں۔ وہ انسانی فطرت کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشرتی نزاکتوں اور باریک بینیوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔

مجھے اس بات کی بے انتہا خوشی ہے کہ میری اہلیہ بھی میری ہم خیال ہیں۔ یعنی مرزا غالب اور ان کی اہلیہ کی طرح دونوں کے خیالات و افکار میں بعد المشرقین نہیں ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم دونوں نے کبھی بیٹوں اور بیٹیوں میں ذرہ برابر فرق روا نہیں رکھا بلکہ بعض معاملات میں بوجوہ ہمارا پلڑا بیٹیوں کی طرف ہی جھکا۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں ہر گز کوئی آئیڈیل یا مثالی باپ نہیں۔ بہت سے معاملات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے کوتاہیاں ہوئی ہوں گی مگر میری اولاد نے کبھی کوئی حرف شکایت لب پر نہیں لایا۔

آج خواتین کے حقوق کا عالمی دن ہے۔ آپ بھی یہ عہد کریں کہ بیٹیوں اور بیٹوں میں کبھی کوئی فرق روا نہیں رکھیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *