گرین زون فلاسفی والے ڈاکٹر خالد سہیل پاکستان میں سستی پھیلا رہے ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل نہ صرف خود انتہائی سست انسان ہیں بلکہ ہر جگہ سستی پھیلاتے بھی ہیں۔ یقین کریں وہ اتنی سستی پھیلاتے ہیں کہ اگر کسی فاسٹ باؤلر سے مل لیں تو وہ بے چارہ گھوم کر محض ایک سپن باؤلر رہ جاتا ہے۔ شکر ہے کہ شعیب اختر کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی ورنہ اس کی بال کی سپیڈ کبھی بھی سو کلومیٹر والا ہدف پار نہ کر پاتی۔

وہ اتنے سست ہیں کہ پاکستان کے برابر عمر ہو چلی ہے اور ابھی تک شادی نہیں کر سکے۔ حالانکہ پاکستان میں تو یہ کام ہم ٹین ایج میں ہی مکمل کر لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ان کی بہن کھینچ کر انہیں ایک شادی ہال تک لے گئی لیکن خالی ہاتھ واپس آنا پڑا۔ اس دفعہ وجہ شاید دلہن کی عدم دستیابی تھی۔ وہ پھر بچ گئے ورنہ ان کی ساری سستی ہوا ہو جاتی۔

ڈاکٹر صاحب کے سست ہونے کا اندازہ تو ان کے سر کے بالوں کی لمبائی دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بال ترشوانے کے لیے حجام کے پاس جانے کی مہم ان کے لیے کے ٹو سر کرنے کے مترادف ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ سر کے بالوں نے مایوسی کے عالم میں خود ہی گرنا شروع کر دیا ہے۔ باقی ماندہ حجام کی قینچی کے انتظار میں رشتہ داروں کے خون کی طرح سفید ہو گئے ہیں۔

ڈاکٹر سہیل صاحب کی کاہلی ان کے مذہبی چوائس میں بھی نظر آتی ہے۔ اپنی سستی کی وجہ سے انہوں نے ایک ایسے مذہب کا انتخاب کیا جس میں کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا اور جو اس دنیا کے ساتھ ساتھ اگلی دنیا میں بھی انہیں آسانیاں عطا کرے گا۔ مختصر یہ کہ اگلے جہان میں تو وہ اٹھنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے اس لیے انہوں خود کو گیم سے ہی باہر کر لیا ہے۔ سستی اسی کو کہتے ہیں۔

سستی کے مارے خود تو شادی کی نہیں اور جنہوں نے یہ معرکہ سر کر لیا ہے انہیں سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ اب سست ہو جاؤ۔ یہ کتنی غیر منطقی بات ہے۔ لوگوں نے شادی سست ہو کر بیٹھ جانے کے لیے نہیں کی ہوتی بلکہ ایکشن لینے کے لیے کی ہوتی ہے۔ شادی کے بعد کے تین مسلسل ایکشن تو خاص طور اہم ہوتے ہیں۔ ان میں ایک فیملی پلاننگ کے منہ پر طمانچہ کہلاتا ہے اور دوسرے دو کو پیار کی زبان میں ایک دوسرے پر عذاب بن کر ٹوٹنا کہتے ہیں۔ یاد رہے شادی کا عذاب آپ کو سست نہیں ہونے دیتا۔ یہ عذاب کروٹ کروٹ، لغوی معنوں میں، آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ اس لیے شادی میں سست ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شادی کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ ایک دوسرے کو گرم توے سے اٹھنے ہی نہیں دینا۔ لیکن ڈاکٹر خالد سہیل یہاں بھی سستی پھیلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

اب انہوں نے ایک نئی تھیوری نکال لی ہے۔ اس تھیوری کو وہ گرین زون کہتے ہیں۔ وہ لوگوں کو سکھاتے رہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی کسی بات کا برا منانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ آپ اپنے شریک حیات سے بات بھی اس وقت کریں جب آپ کو ہر چیز خوب صورت اور گرین نظر آ رہی ہو تو پھر معاملات حل ہو جائیں گے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اچھے موڈ میں شریک حیات سے بھلا کون بات کرتا ہے۔ شکر ہے کہ سیانے لوگ ان کی باتوں میں نہیں آتے ورنہ تو شادی شدہ زندگی بوریت کا شکار ہو جائے گی۔ سب لڑائیاں ختم ہو جائیں گی۔ اور تو اور ”گاسپ“ ختم ہو جائے گی۔ اور ”گاسپ“ کے بغیر تو زندگی بالکل ہی پھیکی ہو جائے گی۔

اس لیے میں سب لوگوں کی بتا رہا ہوں ڈاکٹر خالد سہیل کی باتوں میں آ کر اپنی زندگی کو پھیکا مت بنائیں۔ پہلی بات تو یہ ہے اگر آپ شادی شدہ ہیں تو آپ گرین زون سے واقف ہی نہیں ہوں گے اور اگر خدانخواستہ کبھی گرین زون مل ہی جائے تو فوراً اس سے باہر نکلیں تاکہ آپ شریک حیات کا مقابلہ پوری دلیری اور طاقت سے کر سکیں۔ گرین زون میں رہ کر لڑائی کرنے کی کوشش کی تو آپ شکست کھا جائیں گے۔ اور ڈاکٹر خالد سہیل کی سازش ہی یہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب چونکہ کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتے اس لیے سوچتے رہتے ہیں اور کتابیں اور آرٹیکل لکھنے پر اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں انہوں نے بہت سے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے اور وہ لوگ بھی ان کی کتابیں اور آرٹیکل پڑھ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں اور گرین زون فلاسفی کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے اس آرٹیکل سے ڈاکٹر خالد سہیل کی سستی پھیلانے والی سازش کا بھانڈا پھوٹے گا اور لوگ خود کو گرین زون فلاسفی سے بچا پائیں گے۔

اسلام علیکم!

ا گر اپ دوست کالمز لکھنا چاھتے ہیں تو

dailyaaghosh@yahoo.com

پر ارسال کر دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *