معاشرے نے مولوی کو کیا دیا

تحریر۔علی رضا، لاہور

مولانا روم کہتے ہیں کہ اگر کسی کتے کو پتھر مارا جائے تو کتا پتھر کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ پتھر مارنے والے انسان کے پیچھے بھاگتا ہے۔ حالانکہ جانور کو تو پتھر ہی لگا ہے مگر جانور بھی جانتا ہے کہ قصور پتھر کا نہیں بلکہ اسے پھینکنے والے ہاتھ بلکہ دماغ کا ہے۔ لیکن ہمیں سطحی پن کی اس قدر عادت پڑ گئی ہے کہ ہم مسائل کی صورت خود کو لگنے والے پتھروں کو ہی کوسنے یا واپس ٹھڈا مارنے پر اکتفا کرتے ہیں، نا کہ ان مسائل کے محرکات کا تجزیہ کریں۔

اچھرہ کیس کو ہی لیجیے، عام آدمی کا تو کیا ہی کہیے ہمارا دانشور طبقہ بھی اس قدر کاہل، سست یا بے وقوف ہو گیا ہے یا ہم پر ایسا طبقہ دانشور بنا کر مسلط کر دیا گیا ہے کہ اس معاملے کی سیاسی، سماجی اور معاشی وجوہات دیکھنے کی بجائے صرف اس مولوی کو جاہل و جانور کہنے پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ بلکہ ہمارے اپنے کئی ترقی پسند ساتھی، جن کا دعوی ہے کہ انسان تو نیک فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور اس کے مادی حالات ہی اس کے شعور کی بنیاد ہوتے ہیں، وہ بھی ملائیت کی بجائے مولوی سے نفرت پر تلے بیٹھے ہیں۔ یہ تک نہیں پوچھا جا رہا کہ ریاست نے اس مولوی کو اتنی سی بھی تعلیم کیوں نہیں دی کہ وہ ان کپڑوں پر پڑھ ہی سکتا کہ لکھا کیا ہوا ہے۔

اب ہم ان کروڑوں لوگوں کو بحرالکاہل میں پھینکنے سے تو رہے۔ تو اس لیے ہمارے پاس اس انتہا پسندی کو ختم کرنے کا حل اس کی وجوہات، اس انتہا پسندی کا اظہار کرنے والے کردار یعنی مولوی کی حالت کو سمجھنے اور اس کے جوتوں میں پاؤں ڈال کر بھی صورتحال کو دیکھنے میں ہی ہے۔ موجودہ نفرت برائے نفرت تو ہمیں ایک ہی حل کی طرف لے کر جا سکتی ہے اور وہ ہے تمام مولویوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا، ایک نسل کشی۔

ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ مولوی نے معاشرے کو انتہا پسندی دی، تاہم یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا؟ ریاست نے مولوی کو کیا دیا۔ لیکن وضاحت کرتا چلوں کہ مولوی سے میری مراد نام نہاد چند امیر علما نہیں ہیں بلکہ ان کے کروڑوں فالورز اور دوسرے اور تیسرے درجے کے مولوی ہیں۔

ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے والدین انھیں اس امید پر کسی مدرسے بھیج دیتے ہیں کہ وہاں کم سے کم روٹی تو ملے گی۔ مختلف قسم کے تشدد کے سائیکل سے گزرنے کے بعد جب کچھ پڑھ پڑھا کر باہر نکلتے ہیں تو تب بھی محرومی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ پچھلے چالیس سال میں سرمایہ داری کس قدر تیزی سے عوام کے خرچے بڑھا رہی ہے، پہلے اپنا گھر نہیں بھی ہوتا تھا تو دیہات میں کم سے کم کسی کے خالی گھر میں رہا جا سکتا تھا مگر اب بھاری کرایا، بلوں میں مسلسل اضافہ، ہر چیز نقد اور مہنگی اور اوپر سے اشتہارات کے ذریعے مختلف اشیا کو خریدنے کا پریشر۔ بڑے بڑے حکیم ان مشہوریوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو رہے ہیں تو یہ کیوں نہ ہوں۔ مگر دوسری طرف ان کی آمدن کچھ بھی نہیں بڑھی۔ ان کو مارکیٹ کے لیے تیار ہونے کے مواقعے ہی نہیں دیے گئے۔ مرکزی دھارے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اب ان محرومیوں کا غصہ کہیں تو نکلے گا۔

اسی طرح تمام انسانوں کو تفریح کی ضرورت ہوتی ہے، اپنے جذبات کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم نے اپنے لیے اور معیار رکھے ہوئے ہیں اور مولوی کے لیے اور۔ کیا ہمارے معاشرے میں مولوی موسیقی سن سکتا، فلم دیکھ سکتا ہے، کبھی کسی پارٹی میں شریک ہو سکتا ہے یا کوئی گرل فرینڈ بنا سکتا ہے۔ بالکل نہیں، تو ان پابندیوں کا اظہار کسی صورت تو سامنے آئے گا۔ اگر کوئی عام آدمی یا امیر آدمی کوئی جرم کرے تو کہا جاتا ہے کہ قصور اس کا نہیں اس کی تربیت کا ہے اور حل سخت سزا نہیں اصلاح ہے۔ مگر یہ اصول ہم مولویوں پر اپلائی نہیں کرتے!

ان سب سے بڑی وجہ ہے ریاست کا اس انتہا پسندی میں کردار۔ اسی کی دہائی میں امریکہ سے ڈالر کمانے کے لیے مدرسوں کے نام پر انتہا پسندی کی فیکٹریاں لگائی گئیں تو اب سیاست دانوں پر چڑھانے کے لیے چند بڑے مولویوں کو موٹی رقوم اور فیض بانٹا جاتا ہے، میڈیا پر بیانیہ بنایا جاتا ہے۔ جب اتنے پڑھے لکھے لوگ بھی بک جائیں اور اپنے سامنے جھوٹ کو بار بار دہرایا جاتا دیکھ کر اس کو سچ ماننے لگیں تو یہ مولوی کس کھیت کی مولی ہیں جنھیں کسی دنیاوی علم کی ہوا تک نہیں لگنے دی گئی۔

مزید یہ کہ ترقی پسند سیاست کو ہماری ریاست ہمیشہ سے طاقت کے زور پر کچلتی چلی آئی ہے، آج بھی کچل رہی ہے۔ جب ترقی پسند سیاست کو کچل دیا جائے، لبرل سیاست لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو جائے تو لوگ واحد دستیاب آپشن کی طرف ہی جائیں گے۔ اور وہ ہے انتہا پسند جتھے۔

قصور وار صرف یہ مولوی نہیں ان کی طرف ہمارا تھوڑا اجتماعی سماجی رویہ بھی ہے، ریاست کی شیطانیاں بھی اور سب سے بڑھ کر اشرافیہ کی لوٹ مار اور سرمایہ داری کے اثرات بھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *