ایک آنے کی برف اور روما شبانہ

تحریر۔حفیظ طاہر

ننگے پاؤں (8)

گھر سے دو آنے ملتے تھے۔ آدھی چھٹی ہوتی تو میاں اقبال حسین ہائی سکول کے گیٹ کے باہر ایک آلو چھولوں والا اور سڑک کے پار ایک حلیم والا بھیا ہمارا منتظر ہوتا۔ ایک آنے کی حلیم اور ایک آنے کا نان۔ ایک دکان اور بھی تھی جہاں سے ایک آنے کی دال اور روٹی مفت ملتی، آلو چھولوں والا بھی ایک آنے کی پلیٹ دیتا۔ بھیا جہاں حلیم کا سیٹ اپ لگاتا اس کے پیچھے ایک دیوار تھی جس پر ایک شعر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا

کہاں جا رہے ہو کدھر کا خیال ہے
بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے

اس شعر کے آس پاس ہی سائیکلوں کے پھٹے ٹائروں اور ٹیوبوں کو پنکچر لگانے اور خراب سائیکلیں ٹھیک کرنے کی دکان تھی۔

زمانۂ حال کی وحشی ٹریفک کا فقدان تھا اس لئے ہم بچے ادھر ادھر دیکھے بغیر بھاگ کر سڑک پار کرتے اور نان حلیم کی عیاشی کرتے جو میرے لئے فقط سردیوں ہی میں ممکن ہوتی۔ گرمیوں میں، میں ایک آنے کے آلو چھولے کھاتا یا ایک آنے کی روٹی اور دال مفت تناول کرتا اور ایک آنہ برف خریدنے کے لئے بچا لیتا۔

واپسی کے سفر میں مجھے خون پسینہ ایک ہونے کا محاورہ سمجھ آ جاتا۔ ٹانگیں تھک رہی ہوتیں، سانس پھول رہی ہوتی، چہرہ سرخ ہو رہا ہوتا اور پسینہ سر سے دھڑ کی طرف روانی سے بہہ رہا ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ اسمٰعیل میرٹھی کی نظم یاد آ رہی ہوتی

مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ

میاں میر پہنچ کر برف والے سے برف لیتا تو ٹھنڈک ہاتھوں سے ہوتی ہوئی دماغ تک پہنچ جاتی۔ گلی نمبر 10 مکان نمبر چار کے لکڑی کے دروازے کے پاس ہی امی جان منتظر ہوتیں، رومال میں لپیٹی ہوئی برف میرے ہاتھ سے لیتیں، مجھے سینے سے لگاتیں اور وہی برف لسی یا دودھ میں ڈال کر مجھے پلا دیتیں۔

جب اسی سکول سے میٹرک کا امتحان دیا تو ابا جی نے کویت بلا لیا کہ نتیجے تک کا وقت فیملی کے ساتھ گزار سکوں۔

میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھا جب امی جان میرے چھوٹے بھائی نعیم اختر کو ساتھ لے کر ابا جی کے پاس چلی گئیں۔ یوں ان کی اپنی مسلسل جدائی تو ختم ہو گئی مگر میرا مقامی دور مہاجرت شروع ہو گیا۔ مہاجرت کا لفظ میں نے جان بوجھ کر بنایا ہے کیونکہ ہجرت کا لفظ کسی اور حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں لاہور میں تن تنہا سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی تلاش کرنے کے لئے رہ گیا۔ میری تنہائی دور کرنے کے لئے کبھی میری سوتیلی نانی مہراں آ جاتیں جن کی غصہ انگیز طبیعت سے نہ امی جان کی بن پائی اور نہ میری بنی۔ کبھی اپنے تایا جی کی دوسری بیوی معراج بیگم کا احسان مند ہونا پڑتا تو کبھی باغبان پورہ میں ماموں احمد دین کی فیملی میں رہنا پڑتا۔ وہیں انور بھائی کی صحبت نصیب ہوئی جنہوں نے مجھے زندگی کی کئی جہتوں سے آشنا کیا۔

اس پہلی بار کویت جانے کے لئے میں نے بحری جہاز کا انتخاب کیا کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ بحری اور ہوائی، دونوں طرح کے اسفار کا مزا لے سکوں۔ کراچی سے مجھے الوداع کہنے کے لئے انور بھائی ہی ساتھ گئے۔ ان کا ایک رنگین مزاج دوست بھی ان کے ہمراہ تھا۔

وہ دونوں، بحری جہاز پر سوار کرانے سے ایک شب پہلے مجھے روما شبانہ لے گئے جو مجھ سولہ سالہ، جوانی پکڑتے ہوئے بچے کے لئے عجائب کدہ تھا۔ اس سے پہلے میں نے کوئی ایسی فلم بھی نہ دیکھی تھی کہ جس میں نائٹ کلب کا کوئی منظر ہو۔

ہم تین لوگ ایک میز کے گرد بیٹھے تھے۔ روشنیاں جل بچھ رہی تھی اور نامانوس موسیقی قدم تھرکا رہی تھی۔ نظروں کے سامنے سٹیج پر ایک غیر ملکی، حسین رقاصہ اجنبی سا رقص کر رہی تھی اور میں پینڈو آنکھیں پھاڑے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اور پھر جب اس نے دوران رقص اپنے لباس کو مختصر کرنا شروع کیا تو دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اور جب وہ مختصر ترین لباس میں رقص کرتی ہوئی ہماری میز کی طرف بڑھی تو سورج سوا نیزے پر آ گیا۔

میرے بدن کی کیفیت وہی ہو گئی جو خشک گرمیوں کی دوپہر میں سکول سے گھر جاتے ہوئے ہوتی تھی اور میرا جی چاہا کہ میں بھاگ کر میاں میر پنڈ کے مرکزی راستے کے ایک طرف بیٹھے برف والے کے پاس پہنچوں اور ایک آنے کی برف خرید کر سر پر رکھ لوں

اور پھر کئی دہائیوں بعد نین تارا تھی، ایک چھوٹے زمیندار کے بیٹے کی شادی پر محو رقص۔ ایک سٹارلٹ جسے اپنے اور سراپا اور دلکش آنکھوں سے زیادہ اپنے بالوں پر بھروسا تھا، کمر سے نیچے تک بھرے ہوئے کھلے بال۔ وہ نین تارا تھی اور میں زندگی کا پہلا مجرا دیکھ رہا تھا اور یاد کر رہا تھا روما شبانہ میں دیکھے ہوئے پہلے کیبرے ڈانس کو۔ مگر نین تارا اس سے کہیں مختلف انداز میں اپنی گردن کو بار بار جھٹکے دے کر زلفوں کو کبھی آگے لاتی، کبھی پیچھے لے جاتی اور کبھی دائرے میں گھمانے لگتی اور دیکھنے والوں کے دل ان کے ساتھ ساتھ گھومتے۔ اس میں ایسی کشش تو نہیں تھی کہ غالب اس کے لئے یہ شعر کہتے

مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

مگر تماشائی اسے دیوانہ وار دیکھتے، نوٹ لٹاتے، نئے جام بناتے، اور اس کی طرف بڑھا کر پی جاتے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے غالب کے شعر والی کشش اس لئے محسوس نہ ہو رہی ہو کہ میں تو کہیں دور تھا، رومانہ شبانہ کی کشش میں، جو اب نہیں ہے اور کراچی بھی وہ نہیں جہاں روما شبانہ تھا اور وہ گھر تھا جس کے چوبارے کی کھڑکیوں سے کلاسیکی گائیکی کی تانیں فضا میں بکھرتی تھیں۔

ہاں نین تارا کے دائروں میں گھومتے ہوئے بال اور اس کا لباس ذہن سے محو نہیں ہوا جس میں بسنت کے رنگ بھی تھے

رنگ دے بسنتی چولا
سردیوں کے موسم میں
کسمساتے دیپوں کی
کانپتی لویں جس دم ٹمٹمانے لگتی ہیں
موسم بہاراں کا نیم آتشیں سورج
شہر کے درختوں پر کونپلیں اگاتا ہے
دل میں تیرے ہونٹوں کی
لالیاں جگا تا ہے
جب پتنگیں کٹ کٹ کے
دوش پہ ہواؤں کے
شاخ سے لپٹتی ہیں
میرے لکھے لفظوں میں
تیری باس اگتی ہے
جسم کے جزیرے میں
سرخ گھاس اگتی ہے

میری یہ نظم ان دنوں کی ہے جب بسنت کا تہوار ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اغوا نہیں کیا تھا، جب اندرون شہر کی چھتیں لاکھوں روپے کرایے پر نہیں چڑھتی تھی اور بسنت کے نام پر شراب و شباب کی محفلیں بپا نہیں ہوتی تھیں اور یہ ان دنوں سے پہلے کی نظم ہے جب

پتنگ باز سجنا سے
پتنگ باز بلما سے

آنکھوں آنکھوں میں الجھی ڈور کی دھوم مچی تھی۔ اس گیت کی گلوکارہ فریحہ پرویز کی آنکھوں کی ڈور تو کسی اور سے الجھی تھی مگر گانا ستار خان نے پروڈیوس کیا۔ اسد بھنڈارا کا خواب یونہی اغوا ہوا تھا جیسے بسنت کا تہوار، یہ خیال تو سوچا ہی چارلی ماموں نے تھا۔ مگر

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے (شاد عظیم آبادی)

میری مصورہ بہن عابدہ نسرین کی شادی جب قیوم قریشی سے ہوئی تو یہ بسنت تنازع کا باعث بن گئی۔ اس کے سسرا ل میں بسنت دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ قیوم کو پتنگ اڑانے کا بے حد شوق تھا اور عابدہ اسے شوق فضول سمجھتی تھی۔ اس وجہ سے ان کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا۔ یہاں بھی ادب میرے کام آیا۔ میں نے اسے ایک چینی افسانے کا حوالہ دے کر سمجھایا کہ خواہ مخواہ الجھنے کی بجائے اس ہلے گلے میں شامل ہو جانا چاہیے۔ اس نے یوں ہی کیا اور بسنت نے ان کے تعلقات میں رنگ بھرنا شروع کر دیے۔

قیوم بہت ایکوریٹ انسان ہیں۔ جب ہم عابدہ کے لئے انہیں دیکھنے گئے تو انہوں نے ہمارے لئے سیب چھیلنا شروع کیے۔ میں غور سے دیکھتا رہا اور جب انہوں نے پورا چھلکا ایک دائرے میں بغیر ٹوٹے اتار لیا تو میں نے ان کا انتخاب کر لیا جو سو فی صد ایکوریٹ ثابت ہوا۔ ہاں شعبہ ٔ صحافت میں ان کے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن سے ضرور رائے لی تھی جو مثبت تھی۔

بسنت والے دن میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سسمن کو ایک چھوٹی سی گڈی میں دھاگے کی تناویں ڈال کر اور ان کے ساتھ تھوڑا سا دھاگہ باندھ کر دے دیتا۔ وہ گھر کی گلی میں بھاگتی پھرتی اور گڈی اس کے عقب میں اڑتی۔ اور جب گڈی گر جاتی تو وہ رونی صورت بنا کر میرے پاس آتی اور میں اسے کہتا ”پریشان نہ ہو ایک دفعہ پھر کوشش کرو“ اور وہ ایک دفعہ پھر گڈی کا دھاگہ پکڑ کر بھاگنے لگتی۔

عینک والا جن کے دنوں میں پوری ٹیم کیپیٹل سنیما کی چھت پر اکٹھی ہوتی اور بسنت منائی جاتی

پھر عدالت نے ہم سب سے یہ معصوم خوشی چھین لی۔ دھاتی ڈور بنانے والوں پر تو پابندی نہ لگا سکی۔ نیم عریاں رقص کو تو نہ روک سکی اور عام آدمی کی خوشی چھین لی، لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا، سسمن کی معصوم مسرت اور اس بچے کا وہ غرور چھین لیا جو ٹانگے کی مدد سے پتنگ پکڑنے کے بعد اس کے ماتھے پر چمکتا تھا۔

بسنت اور ابرار الحق کی بلو
یادوں کی اک لہر سی ہے جو پتنگوں کی اڑان کی طرح دل کی فضا میں آج بھی رواں ہے

اندرون شہر ہی کے کسی اونچے مکان کی چھت پر بسنت کے پروگرام کا سیٹ لگا تھا۔ میں اس پروگرام کا پروڈیوسر تھا۔ آس پاس کے کئی گھروں کی چھتیں اس چھت سے اونچی تھیں اور پتنگوں کے اڑتے رنگوں اور بو کاٹا کی آوازوں سے مزین تھیں۔ موسیقی کی لہریں بھی پتنگوں کے لہریوں کے ساتھ لہرا رہی تھیں۔ ابرار الحق کی شہرت آسمانوں کو چھو رہی تھی اور اس کا گانا بلو ہر طرف گونجتا تھا۔ ان دنوں یہ رواج ہو چکا تھا کہ گانے والے اور گانے والیاں اپنی کیسٹس اور سی ڈیز ساتھ لے کر آتے اور پلے بیک پر لپ سنک کرتے۔

میزبان نے ابرار الحق کی اناؤنسمنٹ کی، اس کی انٹری ہوئی، گفتگو ہوئی اور جب پلے بیک کا لمحہ آیا تو معلوم ہوا کہ ابرار الحق اپنی کیسٹ لے کر نہیں آیا۔ ایک لمحہ کو پریشانی ہوئی مگر دوسرے ہی لمحے میزبان نے چھتوں پر پتنگ اڑانے والوں سے درخواست کی کہ اگر کسی کے پاس ابرار الحق کی کیسٹ ہو تو پھینک دے۔ سب سے اونچی چھت سے ایک خوش پوش خوبصورت نوجوان نے کیسٹ اس طریقہ سے پھینکی کہ وہ سیدھی میرے اسسٹنٹ پروڈیوسر الیاس چوہدری کے ہاتھ میں آئی۔ میں نے او بی سیٹ اپ میں بیٹھے ہوئے ریکارڈنگ دوبارہ شروع کی اور کیسٹ پلے بیک کے لئے کیسٹ پلئیر کے سپرد کی۔ پلے بیک شروع ہوا

کنے کنے جاناں اے بلو دے گھر
(جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *