تحریر: خالد نجیب
ہمیشہ قومیں اپنے اسلاف خصوصا اساتذہ کرام کے احترام و ادب کی بدولت عظیم سے عظیم تر ہوئیں ہیں۔5 اکتوبر یوم استاد کے موقع پر اساتذہ کرام کو خراج عقیدت پیش کرنا شاگردوں کا فرض عین بنتا ہے۔محترم جناب پروفیسر محمد الطاف ڈاہر کو ان کی پی ایچ ڈی کامیابی سے مکمل کرنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آپ کا تحقیقی مقالہ “سرائیکی لوک قصیں اُتے چولستانی قصیں دے اثرات” سرائیکی ادب کے فروغ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ آپ کی اس کامیابی میں نگران مقالہ جناب پروفیسر (ر) ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو (چئیرمین شعبہ سرائیکی و سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگوئجز، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور) کا اہم کردار رہا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ آپ کا علمی سفر مزید کامیابیوں کے ساتھ جاری رہے۔پروفیسرڈاکٹر محمد الطاف ڈاہر صاحب میرے محسن ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے ایم اے سرائیکی کی تیاری کروائی۔ جب پی پی پی ایس کے ذریعے سرائیکی لیکچرر کی سیٹیں آئیں تو میں نے سب سے پہلے ڈاکٹر الطاف ڈاہر صاحب کو کال کی اور بتایا کہ لیکچرر کی سیٹیں آگئی ہیں، مجھے تیاری کرنی ہے، رہنمائی فرمائیں ۔ انہوں نے پہلا سوال کیا کہ، کتنی سیٹیں ہیں؟ میں نے بتایا کہ 5 سیٹیں ہیں، تو انہوں نے درود شریف پڑھا اور کہا، ایک سیٹ تمہاری پکی ہے اور باقی چار سیٹیں ہیں اور آپ کو میری طرف سے ایڈوانس مبارک ہو ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد الطاف خان ڈاہر سرائیکی زبان و ادب کی ترقی میں نمایاں خدمات کے حامل ہیں۔2011ء میں بطور سرائیکی سی ٹی آئی لیکچرر گورنمنٹ بوائز کالج بہاولنگر پڑھایا۔۔سرائیکی لیکچرارز کی پوسٹوں کی منظوری کے لیے 2012ء میں آپ کی قیادت میں احتجاج ہوا، اور پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ تک لگایا گیا، جس کے نتیجے میں حکومت کو مجبوراً 35 لیکچرارز کی سیٹیں منظور کرنی پڑیں۔سرائیکی سلیبس کی منظوری،سرائیکی مضمون کی تشہیر اور طالب علموں کو اس کی طرف راغب کرنے میں آپ کی کاوشیں بے مثال ہیں۔ آپ ہمیشہ طالب علموں کی مالی معاونت کرتے اور انہیں لیکچرار کی تیاری کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔ایسے نایاب چراغ جن کی بدولت ملک و قوم کے افراد کو علم وادب کی روشنی ملے اور وہ معاشی و سماجی ترقی و خوشحالی کا باعث بنیں یقینا ایسے استاد ہی حقیقی معاشرے کا سرمایہ ہوتےہیں۔اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کی دل و جان سے محبت و احترام کا خزینہ عطاء فرمائے۔