پاکستانی شہریوں کی بیرون ملک منتقلی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر روزگار کے مواقع کی تلاش میں۔ 2024 میں چھ لاکھ تریسٹھ ہزار کے قریب پاکستانیوں نے قانونی طریقے سے مختلف ممالک کا رخ کیا، جن میں زیادہ تر خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔ تاہم، اس تعداد نے حکومتی ہدف کو پورا نہیں کیا، اور غیر قانونی ہجرت کے بارے میں اعداد و شمار اب بھی غیرواضح ہیں۔ معاشی مشکلات اور بہتر روزگار کی جستجو اس نقل مکانی کے اہم محرکات ہیں، جو معاشرہ اور معیشت دونوں پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔
2024 میں نقل مکانی کے اعداد و شمار
2024 میں پاکستان سے مختلف وجوہات کے ساتھ بڑی تعداد میں افراد ملک سے باہر جانے کا رجحان رکھتے ہیں۔ یہ نقل مکانی زیادہ تر روزگار، معیشتی دباؤ، اور بہتر مستقبل کی تلاش کے تحت ہوتی ہے۔ سرکاری طور پر اور غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقلی کے اعداد و شمار ملک کی معاشی اور سماجی حالت کا عکس پیش کرتے ہیں۔
بیرون ملک قانونی طور پر جانے والے افراد کی تعداد: بیورو آف امیگریشن کے مطابق
2024 میں تقریباً 6,63,186 پاکستانی شہریوں نے قانونی طور پر بیرون ملک منتقلی اختیار کی۔ یہ تعداد بیورو آف امیگریشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ تاہم یہ تعداد حکومت کے مقرر کردہ ہدف (10 لاکھ افراد) سے کم ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان بیرون ملک نوکریوں کے مواقع کو مکمل طور پر نہیں حاصل کر سکا۔
زیادہ تر افراد نے خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ممالک کا رخ کیا۔ سعودی عرب کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی جہاں 1,10,000 پاکستانی شہریوں نے ملازمت کے مواقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ، متحدہ عرب امارات، قطر، اور عمان جیسے ممالک میں بھی بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے ہجرت کی۔
یہ قانونی ہجرت پاکستان کے لیے معاشی طور پر تو مفید ثابت ہوتی ہے، کیونکہ ترسیلات زر میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک بڑا حصہ ملک کا ہنر مند اور تعلیم یافتہ طبقہ چھوڑ دیتا ہے، جسے “دماغی ہجرت” کہا جاتا ہے۔
غیر قانونی نقل مکانی
پاکستان میں غیر قانونی نقل مکانی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ یورپ جانے کی خواہش کئی افراد کو خطرناک راستوں کو اپنانے پر مجبور کرتی ہے۔ گاڑیوں کی چھتوں پر سفر، انسانوں کی اسمگلنگ، اور بحیرہ روم کے ذریعے خطرناک سفر کا سامنا کرنا عام ہو چکا ہے۔ لیکن یہ سفر اکثر مہلک ثابت ہوتے ہیں، اور کئی لوگ سمندری یا سرحدی راستوں میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
غیر قانونی نقل مکانی کے پیچھے چند عوامل موجود ہیں، جیسے:
- معیشتی مسائل اور بے روزگاری۔
- بہتر مستقبل کی امید۔
- قانونی طریقوں میں مسئلے اور طویل سرکاری عمل۔
تاہم اس کے نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کا جال، یورپی ممالک میں قانونی مسائل، اور ملک کی خراب ساکھ جیسے مسائل ان غیر قانونی ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان افراد کو اکثر دوسرے ممالک میں نچلے درجے کی ملازمتوں اور ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Photo by Kaboompics.com
یہ دونوں طرح کی ہجرت ایک طرف پاکستان کے معیشتی مسائل کو اجاگر کرتی ہے، تو دوسری طرف ان کی کوششیں ملک کے بیرونی معاملات میں ترسیلات زر کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس مسئلے کو بہتر طریقے سے حل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے؟ یا یہ رجحان جاری رہے گا؟
2024 میں نقل مکانی کے رجحانات
2024 میں پاکستانی شہریوں کی نقل مکانی کا رجحان کئی عوامل کی بنیاد پر بڑھا، جن میں بہتر ملازمت، معیشتی دباؤ، اور محفوظ مستقبل کی خواہش سر فہرست ہیں۔ اس رجحان کے تحت قانونی و غیر قانونی دونوں طریقوں سے ہجرت دیکھنے میں آئی، جو نہ صرف افراد بلکہ ملک کے معاشی و سماجی ڈھانچے پر بھی اثر انداز ہوئی۔
مقصد ممالک
2024 میں پاکستانیوں نے بیشتر خلیجی ممالک کی طرف نقل مکانی کی، جہاں بہتر ملازمت کے مواقع فراہم کیے گئے۔ ان ممالک میں شامل ہیں:
- سعودی عرب: یہ سب سے مقبول مقام رہا، جہاں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی قسمت آزمائی۔
- متحدہ عرب امارات: دبئی اور ابوظہبی جیسے شہروں میں رہائشی اور صنعتی شعبوں میں نوکریوں کی بھرمار ہے۔
- قطر: خاص طور پر فیفا ورلڈ کپ کے بعد، قطر میں تعمیراتی اور سروس سیکٹر میں ملازمت کے مواقع کھلے۔
- عمان اور بحرین: ان ممالک نے بھی پاکستانی مزدوروں اور ہنر مند افراد کی بڑی تعداد کو اپنے ہاں مواقعت کی۔
ان مقامات کے علاوہ یورپی ممالک (مانند اٹلی اور یونان) بھی غیر قانونی نقل مکانی کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے منزل بنے، جبکہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد نے ہجرت کا رجحان دکھایا۔
ہنر مند بمقابلہ غیر ہنر مند مزدور
نقل مکانی کرنے والے پاکستانی مزدور دو اہم زمروں میں تقسیم ہیں: ہنر مند اور غیر ہنر مند۔
- ہنر مند مزدور:
- اس طبقے میں انجینئرز، آئی ٹی ماہرین، صحت کے شعبے کے کارکنان، اور دیگر مہارت رکھنے والے شامل ہیں۔
- یہ افراد زیادہ تر ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرتے ہیں، جہاں ان کے ہنر کی زیادہ قدر ہے۔
- ان کی نقل مکانی پاکستان کے لیے “دماغی ہجرت” (Brain Drain) کا ذریعہ بنتی ہے، جو ملک کے طویل مدتی ترقیاتی امکانات کو متاثر کرتی ہے۔
- غیر ہنر مند مزدور:
- اس گروہ میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے تکنیکی تربیت حاصل نہیں کی اور زیادہ تر خلیجی ممالک میں دستی کام کرتے ہیں جیسے:
- تعمیراتی شعبہ
- ڈرائیونگ
- صفائی اور ہوٹل کی ملازمتیں
- یہ افراد ترسیلات زر کے بڑے حصے کے محرک بنتے ہیں، جس سے ملک کی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔
- اس گروہ میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جنہوں نے تکنیکی تربیت حاصل نہیں کی اور زیادہ تر خلیجی ممالک میں دستی کام کرتے ہیں جیسے:
تصویر کا دوسرا رخ
2024 میں نقل مکانی کے یہ رجحانات ایک طرف معیشت میں بہتری لاتے ہیں، دوسری طرف ملک کے سماجی و تعلیمی وسائل کو متاثر کرتے ہیں۔ ہنر مند افراد کی کمی پاکستان کے صنعتی اور تکنیکی شعبے کو کمزور کر سکتی ہے، جبکہ غیر ہنر مند مزدوروں کے لیے ترسیلات زر اہم اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔
Photo by Walls.io
نقل مکانی کے محرکات
پاکستان میں نقل مکانی کا رجحان ہمیشہ سے مختلف عوامل کے زیر اثر رہا ہے، لیکن 2024 میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہوا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، سماجی دباؤ، اور سیاسی عدم استحکام جیسے مسائل نے لوگوں کو بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونی ممالک جانے پر مجبور کیا۔ یہ محرکات نہ صرف انفرادی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پورے معاشرے کی بنیادوں کو بھی ہلا دیتے ہیں۔
معاشی عوامل: پاکستان میں بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر معاشی بحرانوں کا ذکر کریں
2024 میں پاکستان کو شدید ترین معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی کی شرح عروج پر رہی، اور بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوتی گئیں۔ گیس، بجلی اور ایندھن کے نرخوں میں تاریخی اضافہ دیکھنے میں آیا، جس سے عام طبقے کی زندگی مزید مشکل ہو گئی۔
- بے روزگاری:
تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوان بے روزگاری سے پریشان رہے۔ ملازمت کے کم مواقع اور نچلے درجے کی تنخواہیں لوگوں کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ بہتر روزگار کے لیے بیرونِ ملک کا رخ کریں۔ - مہنگائی:
روزمرہ زندگی کی اشیاء، جیسے کھانے پینے کی چیزیں اور ادویات، عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نکل چکی ہیں۔ - معاشی بحران:
ملکی معیشت میں مسلسل زبوں حالی، قرضوں کا بوجھ، اور کرنسی کی گرتی ہوئی قدر نے لوگوں کو مالی طور پر غیر محفوظ کر دیا ہے۔ نتیجتاً، روزگار کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر جیسے خلیجی ممالک پاکستانی عوام کی اولین ترجیحات بن گئے ہیں۔
سیاسی اور سماجی عوامل: ملک کی سیاسی غیر یقینی اور سماجی دباؤ جیسے گھریلو مسائل اور مواقع کی کمی کا ذکر کریں
ملکی سیاسی عدم استحکام نے نقل مکانی کے رجحان کو مزید تقویت دی۔ حکومتوں کی مسلسل تبدیلی، پالیسیوں کی عدم تسلسل، اور سیاسی کشیدگی نے عوام کو حد درجہ پریشان کر دیا ہے۔
- سیاسی عدم استحکام:
موجودہ سیاسی نظام میں عوام کو تحفظ اور مواقع فراہم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ حکومتی کمزوری اور مختلف اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان مزید مسائل پیدا کر رہا ہے۔ - سماجی دباؤ:
گھریلو تنازعات، تعلیم اور صحت کی ناکافی سہولیات، اور بہتر معیارِ زندگی کی کمی نے لوگوں کو بیرونِ ملک ہجرت پر مجبور کیا۔ - مواقع کی عدم دستیابی:
پاکستان کے اندر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی ترقی کے مواقع محدود ہیں۔ نتیجتاً، بہت سے نوجوان مہارت کے مطابق ملازمتیں نہ ملنے کی فریسٹریشن میں مبتلا ہیں اور ہجرت کو واحد حل سمجھتے ہیں۔
یہ عوامل کسی گہرے زخم کی طرح ملک کے لیے خطرناک ہیں، جو نہ صرف آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ملک کے ترقی کے عزائم کو بھی ناکام بنا رہے ہیں۔ نقل مکانی کا یہ سلسلہ بتاتا ہے کہ اگر ان مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں ان کے اثرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔
حکومتی نقطہ نظر اور پالیسیز
پاکستان میں نقل مکانی کی شرح بھاری رہی ہے، اور یہ رجحان 2024 میں بھی جاری رہا۔ حکومت نے بیرون ملک جانے والے افراد کے لیے مختلف منصوبے اور پالیسیز متعارف کروانے کی کوشش کی، خصوصاً وہ اقدامات جو قانونی ہجرت کے فروغ اور غیر قانونی ہجرت کی روک تھام پر مرتکز تھے۔ یہ تمام اقدامات نہ صرف معاشی فوائد کے لیے کیے گئے بلکہ ملک کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی بہتر بنانے کے مقصد سے۔
سرکاری پالیسیز: حکومت کی طرف سے نقل مکانی کو منظم کرنے کے لیے کی جانے والی پالیسیز اور پروگراموں کا تذکرہ
2024 میں حکومت نے نقل مکانی کے حوالے سے کئی اہم اقدامات کیے، جن میں شامل ہیں:
- “اوورسیز امپلائمنٹ کارپوریٹ” کا قیام:
یہ ادارہ بیرون ملک ملازمت کے خواہشمند افراد کو قانونی طریقے سے ملازمت دلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف قانونی ہجرت کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ اسمگلنگ اور غیر قانونی راستوں کے استعمال کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ - ویزا پروسیسنگ کو آسان بنانا:
حکومت نے بیوروکریسی کے عمل کو مختصر اور شفاف بنانے کی کوشش کی تاکہ ویزا حاصل کرنے کا عمل سہل ہو سکے۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے مشترکہ پروگرامز کی شروعات کی گئی۔ - “محفوظ ہجرت پروگرام”:
اس پالیسی کے تحت، مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کیے گئے تاکہ پاکستانی مزدوروں کو ان کے حقوق کی ضمانت دی جا سکے۔ اس میں تنخواہوں کا تحفظ، طبی سہولیات اور کام کے بہتر حالات شامل ہیں۔ - انسانی اسمگلنگ کی روک تھام:
غیر قانونی ہجرت کو ختم کرنے کے لیے حکومت نے مختلف قوانین بنائے اور سخت کاروائیاں کیں۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کئی مجرم گرفتار ہوئے۔
یہ اقدامات نقل مکانی کے عمل کو زیادہ محفوظ اور منظم بنانے کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات تمام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکے؟
غیر ملکی زرمبادلہ کی اہمیت: نقل مکانی سے حاصل ہونے والے غیر ملکی زرمبادلہ کے اہم پہلو
پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے غیر ملکی ترسیلات زر پر انحصار کرتی آئی ہے، اور 2024 بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ بیرون ملک مقیم شہریوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ملکی معیشت کا اہم ستون بنی رہیں۔ اس سال درج ذیل پہلو نمایاں رہے:
- ترسیلات زر میں اضافہ:
2024 میں پاکستانیوں نے بیرون ملک سے تقریباً $35 بلین کی ترسیلات زر بھیجی، جو ملکی زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ - زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنا:
ان رقوم نے نہ صرف درآمدات کی ادائیگی کو ممکن بنایا بلکہ معاشی استحکام میں بھی معاون ثابت ہوئیں۔ اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر بھی ترسیلات زر کے مثبت اثرات کا عکس ہیں۔ - معاشی بحران سے نجات:
غیر ملکی زر مبادلہ نے حکومت کو قرضوں کی واپسی، درآمدات کی ادائیگی، اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے میں مدد فراہم کی۔ - معاشی ترقی میں کردار:
ان رقوم کو مختلف ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کیا گیا، جنہوں نے ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا۔
لیکن اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ تمام ترسیلات زر مزدور طبقے کی محنت کا نتیجہ ہیں، جو اکثر مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی لیے، حکومت کے لیے یہ چیلنج ہے کہ نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھائے بلکہ بیرون ملک کام کرنے والے افراد کے لیے بہتر حالات بھی یقینی بنائے۔
نتیجہ
2024 میں پاکستانی شہریوں کی بڑی تعداد نے قانونی طور پر بیرون ملک روزگار کے مواقع حاصل کیے، لیکن حکومتی ہدف کے مقابلے میں یہ تعداد کم رہی۔ تقریباً 6,63,186 افراد کے خلیجی ممالک میں نوکریاں حاصل کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی معیشت کے مسائل ہجرت کی اہم وجہ ہیں۔
یہ رجحان محض معاشی فوائد سے وابستہ نہیں بلکہ ملک کے ہنر مند طبقے کے انخلا سے سماجی اور اقتصادی مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی روزگار کے مواقع بڑھانے اور ہنرمند افراد کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے پر توجہ دے۔
آپ کے خیالات کیا ہیں؟ کیا حکومت ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر پالیسیاں بنا پا رہی ہے؟ اپنی رائے ضرور شیئر کریں۔