اسلام آباد ( اے بی این نیوز )کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ 21 ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ ماشل کیسے ہوگیا؟ ۔ سوال یہ ہےکہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرا ئل پر سوالات اٹھا دیئے۔
جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل کی بھی تا ئید۔ کہا فوجی عدالتوں کا طریقہ کار شفاف ٹرائل کے تقاضوں کے برخلاف ہے۔ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریما رکس میں کہا کیا دھماکہ کرنے والے اور عام سویلنز میں کوئی فرق نہیں ہے؟ وکیل نے کہا میں کسی دہشتگرد یا ملزم کے دفاع میں دلائل نہیں دے رہا۔ سویلنز کا کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو اکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔ فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں ۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا 21 ترمیم میں تو کچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیے گئے تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا۔ خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ۔ سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشتگردی اور جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے کہاکہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو۔
جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے۔ ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج۔ آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر عائد 20 ہزار روپے جرمانہ کا حکمنامہ واپس لے لیا۔ ۔ سماعت کل تک ملتوی۔