ڈاکو راج، مغوی سندھ

تحریر۔وجاہت حسین، کراچی یونیورسٹی

گزشتہ روز ایک فرض شناس استاد اللہ رکھیو نندوانی جس کی 2 دن قبل لائسنس یافتہ بندوق کے ساتھ سکول کی ڈیوٹی پر جانے کی ویڈیو میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہید ہو گیا، ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں سندھ کے ضلع شکارپور میں ڈاکوؤں نے تاوان کی رقم نہ ملنے پر مغوی منظور لاشاری کو گولی مار دی جو 23 روز قبل جنوں شریف سے اغوا کیا گیا تھا، اس سے ایک دن پہلے ڈاکوؤں کی جانب سے تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تھی جس میں مغوی ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کرتا رہا لیکن ڈاکوؤں نے ایک نہ سنی۔

ضلع گھوٹکی کے شہر میرپور ماتھیلو کے رہائشی رتک کمار کو ایک ماہ قبل ڈاکؤں نے اغوا کیا تھا جسے لاکھوں روپے لے کر کچھ دن قبل بازیاب کیا گیا، ٹھیک اس کے دو دن بعد میرپور ماتھیلو کے ایس پی آفس کے قریب سے ایک نوجوان کو اغوا کر لیا گیا۔ لاتعداد افراد اب بھی ڈاکوؤں کے قید میں ہیں جن کے وارث اب تک تاوان ادا نہیں کر پائے ہیں۔

لوگ مارے جا رہے ہیں جبکہ پولیس ابھی تک لاشوں کے پوسٹ مارٹم اور مقدمہ درج کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ شمالی سندھ کے علاقوں گھوٹکی، شکارپور اور کندھ کوٹ میں پولیس کا کردار ڈاکوؤں اور مغویوں کے درمیان ایک بروکر کا ہے، جو تاوان کے ریٹ فکسنگ اور کمی پیشی کے درمیان آتے ہیں۔ تحفظ کا دار و مدار تاوان پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ”شمالی سندھ: پائیدار حل کی تلاش“ کے مطابق اغوا کے ذریعے ہر سال مغویوں کے وارثوں سے ایک ارب روپے بٹورے جاتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے اور روایتی ہتھیاروں سے ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے ضلع گھوٹکی کے ایس ایس پی کی جانب سے سندھ پولیس کے آئی جی کو لکھا گیا خط بھی سامنے آیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے اور وہ پولیس کو دھمکیاں دے رہے ہیں، انہیں ملٹری گریڈ کا اسلحہ دیا جائے۔ ان سے لڑنے کے لیے۔ خط میں مزید بتایا گیا ہے کہ اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، ڈاکو تاجروں سے رقم مانگ رہے ہیں، قیام امن کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ ”وزیراعلیٰ سندھ نے خود بدامنی اور ڈاکوؤں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن حیرت ہے کہ ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف کسی اعلیٰ سطح کارروائی یا آپریشن کی کوئی رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی۔

کیا یہ صرف ڈاکوؤں کے پاس بھاری اور جدید اسلحہ رکھنے کا معاملہ ہے یا کوئی اور وجوہات ہیں کہ پولیس ڈاکوؤں کے معاملے میں اب تک کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ سوال یہ ہے کہ خطرناک ہتھیار کہاں سے آئے؟ کیا سندھ میں اسلحے کی خطرناک فیکٹریاں ہیں؟ اگر نہیں تو اتنے وفاقی سیکیورٹی ادارے، صوبائی سرحدوں پر چیک پوسٹ، اور پولیس، کی موجودگی میں جنگی نوعیت کے ہتھیار ان پڑھ ڈاکوؤں تک کیسے پہنچے؟

آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ سندھ میں کچے کے علاقے پولیس کے لیے نو گو ایریا بن چکے ہیں، جہاں عام لوگوں کی زندگی ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہے۔ سندھ میں مختصر عرصے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں کیسے اضافہ ہوا؟ کیا یہ سب کچھ سندھ کو ہر وقت لاقانونیت کی آگ میں جلائے رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ نہیں!

عام رائے یہ ہے کہ ڈاکوؤں کو سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی تقرریاں بھی سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور اعلیٰ پولیس حکام کی جانب سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکامی اور با اثر جماعتوں کا مجرمانہ رویہ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہے۔

خطرناک ہتھیاروں کی مسلسل فروخت کے باعث ڈاکو جدید ترین جنگی اسلحے سے لیس ہیں اور بغیر کسی خوف و خطر کے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ سکھر، گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ اور لاڑکانہ کے کچے کے علاقے ڈاکوؤں کا گڑھ بن چکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سخت قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا نیٹ ورک وسیع اور منظم بنا لیا ہے، عوام کی جان و مال تب ہی محفوظ ہو گا جب حکومت حقیقی معنوں میں موثر منصوبہ بندی کے ساتھ ڈاکوؤں کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی، تب تک شمالی سندھ ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *