تحریر-ظفر اقبال ظفر
قوت شفا سے لبریز نرم دل آویزدھیمہ لہجہ جن کی آواز جیسے کوئی بہت پیار سے دل کے رخسار پر ہاتھ رکھ دے جنہوں نے اپنے اور اگلے دور کی عوام کے جذباتوں کی ترجمانی کی معاشرے کے مسائل سمیت سیاسی تقاضوں کو شاعری کا مرکز بنایا ان کا شعر درد محبت سے بھی چُورہے کلاسیقی سطح پر ایک نیا جہاں روشن کیا ان کی ہر نظم غزل شعر لفظ میں خیال کی پھل جڑی ہے اپنے معنی کے تخلیقی تجربے سے اردو کی کائنات کو روشن کیا ماضی کی تمام بڑی شخصیات کا شعری خون کلام فیض کی رگوں میں دوڑتا ہے انسانی دوستی عدل و انصاف کا مسیحا محبتوں کا سفیر جذبات و احساسات کا ترجمان اردو کا فخر و ناز جرت اظہار کا معتبر نام فیض احمد فیض جن کا اصلی نام فیض محمد خان تھا۔
آپ 13 فروری 1911کو سیالکوٹ کے نواحی قصبے کالا قادرمیں پیدا ہوئے والد کا نام بیرسٹرچوہدری سلطان محمد خان تھا جن کی دوستی علامہ اقبال سر سلمان ندوی سر عبدالقادر ڈاکٹر ضیا الدین جیسی قدآور شخصیات سے تھی والد فیض والی افغانستان کے چیف سیکرٹری اوربرطانیہ میں افغان سفیر رہ چکے تھے والدہ سلطان فاطمہ گھریلو خاتون تھیں جنہوں نے اپنے بچوں کی مثالی تربیت کی فیض صاحب اور ان کے دونوں بھائیوں کو ایک چوینی جو خرچ کے لیے ملتی تھی ان کے بھائی وہ لٹو اور پتنگ جیسے کھیلوں میں خرچ کر دیتے مگر فیض صاحب دو پیسے میں محلے کی لائبریری سے کتابیں کرائے پر لا کر پڑھا کرتے تھے فیض صاحب نے چھوٹی سی عمر میں کلاسیقی نظم اور نثر کی بیشتر کتابیں پڑھ لی تھیں۔طلسم ہوش رُبا۔فسانہ آزاد۔عبدالحلیم شرر کے ناول سمیت موجود ادب کی تمام مشہور کتابوں کا مطالعہ ان کا جنون بن گیا اردو کے تمام استادوں کے شعری نظری مجموعے ان کے زہن کی زمین پر نصب ہو چکے تھے سادگی زبان میں امیر مینائی اور داغ سے بے حد متاثر ہوئے زمانہ سکول میں خواہش والد پر انگلش فنکشن کا مطالعہ بھی کیا جس میں چازڈیکن۔رائٹ ہیگز۔آرتھر کونل ڈویل جیسے رائٹر ز کو پڑھ ڈالا تھا۔
مادری زبان پنجابی تھی قرآن پاک کی تعلیم گھر میں حاصل کی تین سپارے حفظ کیے زندگی کے پچھتاوے میں ایک یہ بھی ہے کہ مرض چشم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مکمل قرآن پاک حفظ نہ کر سکے عربی اور فارسی کی تعلیم علامہ محمد اقبال ؒ کے استاد شمس العلما مولوی میر حسن سے حاصل کی مشن سکول سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا جہاں سے پہلی پوزیشن میں میڑک کا امتحان پاس کیا۔علامہ اقبال ؒ کی معرفت سے گورئمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ ملا یہاں انگریزی ادب اور نیشنل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے کیافیض صاحب شاعر جرنلسٹ استادکے علاوہ ہر انسانی حال کی الگ الگ خوشبو تھے۔
فیض صاحب کو بچپن میں مقابلہ کلام میں پہلا کلام لکھنے پرشمس العلما مولوی میر حسن صاحب سے ایک روپیہ بطورانعام ملا۔مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے یہ ان کی پہلی نظم تھی جیسے اُن کی شاعری کا اہم ترین سنگ میل سمجھا جاتا ہے ایک ابھرتے ہوئے شاعر کا پیغام تھا کہ اُس کے شعرو خیالات عوام کی امانت ہیں فیض صاحب کا پہلا مجموعہ نقش فریادی کے نام سے چھپاجو 1940میں منظر عام پر آیا اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا فیض صاحب کہتے ہیں پیام ایک ہی ہے کہ پروش لوح و قلم کرتے رہیں گے صرف وہی لکھو جو دل پہ گزرتی ہے کیونکہ وہی دوسرے دل پر اثر کرتی ہے فیشن و ثواب کے لیے مت لکھوکیونکہ آپ قلم کے جتنے بڑے بھی کاریگر ہوں آپ کا لکھا ہوا مصنوعی خیال کا پردہ چاک کر دیتا ہے اور معلوم پڑھ ہی جاتا ہے کہ اپنے دل سے بات کہی ہے یا یہ کسی لالچ خوشامد نقالی میں کہی ہے بس بنیادی بات یہی ہے دل پہ گزری لکھوانسان کی اپنی ذات بہت حقیر چیز ہے اس کی اپنی ذات کا وقار توقدرت کے کاروبار زندگی میں اک زرہ ہے وہ قدرت کے دریا کی اک بوند ہے اگر قطرے میں دریا دیکھائی نہ دے تو واسطہ نقلی ہے لکھاری کو تو قطرے کو دجلہ دیکھنا ہوتا ہے یہی حقیقی لکھاری کا حسن قلم ہوتا ہے۔
فیض صاحب کو پہلا عشق اٹھارہ برس کی عمر میں ہوا سوال ہوا کہ اسے زندگی میں حاصل کیوں نہ کیا فیض صاحب شرم و حیا کا پہرہ دینے والے خون و تربیت کے مالک تھے جس سے عشق ہوا اُس کے سامنے زبان اظہار کی ہمت ہی نہ کر سکے یک طرفہ پیار کی آگ مین جلتے رہے اور اُس لڑکی کی شادی کسی جاگیردار سے ہو گئی اس لڑکی کا تعلق افغان گھرانے سے تھا یہ نو عمر لڑکی ان کے ہمسائے میں رہتی تھی فیض صاحب اپنے کمرے کی کھڑی سے اسے آتے جاتے دیکھا کرتے تھے فیض صاحب نے اُس لڑکی سے منسلک اپنی خاموش محبت کی دیوانگی میں شعروں کے ڈھیر لگا دئیے اُن کا عشق اپنے شباب پر تھا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کو سیالکوٹ سے لاہور جانا پڑاپھر فیض صاحب چھٹیوں میں لاہور سے سیالکوٹ آئے تو کھڑی کی دوسری جانب انہیں وہ چہرہ نظر نہ آیا انہوں نے کسی سے دریافت کیا تو علم ہوا کہ اُس کی شادی ہو گئی ہے فیض صاحب اس خبر سے ٹوٹے دل کے ساتھ واپس لاہور آ گئے معزز قارئین میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دل کا ٹوٹنااور ناکامی کا حادثہ یہ قدرت کے وہ مراحل ہوتے ہیں جو انسان کو مضبوط و منفرد بناتے ہیں تاکہ وہ بڑے مقام پر بڑی عوامی تعداد کا ترجمان بننے کے لیے تیار ہو سکے کہتے ہیں خدا ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے یہ دلیل دل ٹوٹنے کو فائدے کا سودا بتاتی ہے کیونکہ جس دل میں خدا کا بسیرا ہو جائے وہی انسان مخلوق خدا کا محبوب بنتا ہے اور ناکامی ایک مقام سے گزر کر اُس سے بڑے مقام پر پہنچنے کا راستہ دیکھاتی ہے ایک بندی فیض صاحب کی نہ ہوئی مگر فیض صاحب زمانے کے ہو کر رہ گئے آئیے اب آگے بڑھتے ہیں اُس عورت کی جانب جس نے فیض صاحب کی زندگی کو مکمل و شاداب کر دیا۔
1941میں الیس جوج سے فیض صاحب نے والدہ کی رضامندی سے شادی کر لی الیس جوج نے فیض دوستی میں دیس کے ساتھ بیس اور وطن کے ساتھ زبان بدل لی الیس جوج سے پہلی ملاقات ہندوستان میں ہوئی تب فیض صاحب امرتسر کے ایم او کالج میں انگریزی کے لیکچرار تھے پرنسپل ایس پی کالج تاثیر صاحب کے ہاں اکثر شاعر ادیب لکھاری اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہفتہ اتوار کو جمع ہوا کرتے تھے جن میں فیض صاحب بھی تشریف لاتے وہاں الیس جوج سے ملاقات دوستی میں بدلی دوستی شادی میں بدل گئی فیض صاحب کا خاندان پنجابی چوہدری جٹ جو فیملی سے باہر شادی نہیں کرتے تھے مگرفیض صاحب پابند و تنگ سوچ سے پاک تھے الیس جوج نے اسلام قبول کیا اور الیس سے مسلمان ہو کر کلثوم بن گئیں کلثوم اور فیض صاحب کا نکاح شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کشمیر کے سری نگر میں پڑھوایاجس میں ایک تحریری معاہدہ بھی ہوا جس میں فیض صاحب نے دوسری شادی نہ کرنے اور طلاق کا حق الیس یعنی کلثوم کو سونپ دیا اُس وقت شادی کی تیاریاں دہرے کی دہری رہ گئیں کیونکہ جنگ عظیم چھڑ چکی تھی بحری راستے بند ہونے کی وجہ سے دلہن کو برطانیہ سے لانے کا خواب من چاہے ارادے کے مطابق پورا نہ ہو سکا اس لیے بارات میں چندلوگ ہی تھے جن میں فیض صاحب کے چھوٹے بھائی اور ایک دوست تھے بعد میں اس موقع پر مشاعرہ ہوا تھا جس میں جوش ملیح آبادی بھی شریک تھے
فیض صاحب کی زاتی پسند کے خلاف وقت و حالات نے پانچ برس تک برٹش آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ میں بطورکیپٹن رہنے پر مجبور کیا فیض صاحب بتاتے ہیں کہ فوج کی تربیت یہ تھی کہ یہ نمک جو تم کھاتے ہو یہ اس لیے ہے کہ تم اس کا تقاضہ پورا کرو یعنی نمک حرام نہ بنواور فرض پورا کرو اس کے برعکس فیض صاحب یہ اپنی بات منوائی کہ اس طریقے سے کام نہیں چلے گا اورسپاہوں سے یہ کہنا چاہیے کہ اپنے وطن کی خاطر حفاظت کے لیے تم لڑ رہے ہو تم نمک کے لیے نہیں لڑ رہے ہو اور فیض صاحب کی یہ بات نہ صرف مانی گئی بلکہ سپاہوں کو اس کے تابع بھی کیا گیا فیض صاحب اپنی قابلیت و عقل کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ میں میجر پھر کرنل بھی گئے پھر 1947میں پاکستان بنتے ہی انہوں نے فوج سے محکمے کو چھوڑ دیا اورفوج سے صحافت کی جانب اپنا رخ کر لیا اپنے دوست میاں افتخار الدین کے کہنے پر انگریزی اخبارپاکستان ٹائم کے ایڈیٹر بن گئے ان کی دور اندیش نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ آزادی کے خواب کی تعبیر ابھی کوسوں دُور ہے تقسیم کے نام پر انسانیت کی تزلیل اور خون ریزی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی آزادی کا مرثیہ لکھ دیا تھا وہ پاکستان ٹائم اور اردو روزنامہ امروز کے اداروں میں ارباب اختیار کی توجہ مقصد کی جانب دلاتے رہے یو ں ان کا قلم آزادی کی حقیقی ترجمانی میں فکر اقبال کا فرض بھی نبھاتا رہا فیض صاحب مزدوروں کے درد کو بھی اپنے سینے میں محسوس کرتے ہوئے وہ حقوق مزدور کی آواز بن کر پانچ سال لیبر ایڈویزری کمیٹی کے سرپرست رہے ٹریڈ یونین قائم کی انہیں منظم کیا اور فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے۔
جنوری 1959کی ایک دوپہر لاہور کی سڑک پر ایک عجیب منظر تھا ایک تانگہ دوڑے چلا جا رہا ہے پیچھے دو سپاہیوں کے درمیان ایک شخص ہاتھ کڑی پہنے بیٹھا ہے جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چہرے پر بلا کا اعتماد ہے جیسے غریب مزدورریڈھی والے سب اپنے محبوب کوپہچانتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اورتانگے کے ساتھ ساتھ ایک بڑھتا ہوا ہجوم دوڑ رہا ہے تانگے کی یہ سواری عاشقوں کے جھرمٹ میں سینٹرل جیل لاہور سے ڈینٹل کلینک کی جانب چلی جا رہی ہے تانگے میں سوار یہ وہ شخصیت ہے جیسے علامہ اقبال ؒ کے بعد ملک کاسب سے مشہور ترین شاعرفیض احمد فیض کہا جاتا ہے نہ کوئی جرم نہ کوئی گناہ 1958میں جنرل ایوب کا مارشل لا لگایا گیا تو انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا کہ یہ عوامی آواز ہی نہیں بلکہ طاقت بھی تھے اسی لیے اس عوامی پکار کو دبانے کے لیے جمہوری ہیرو فیض احمد فیض صاحب کو جیل میں قید کر لیا گیااور کہا گیا ایک بار لکھ کر دے دیں کہ مارشل لا حکومت کے خلاف کچھ نہیں بولیں گئے مگر فیض صاحب نے صاف انکار کر دیا اور چار ماہ کی قید کاٹنے کے بعد رہائی ملی فیض صاحب پر بغاوت اور حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا جاتا9مارچ 1951 فیض صاحب راولپنڈی سازش میں گرفتار ہوئے دس ان کی دونو ں صاحبزادیاں سالہ سلیمہ اور چھ سالہ منیزہ کبھی والد کوہاتھ کڑیوں میں تو کبھی جیل کی سلاخیوں کے پیچھے دیکھتی ہوئی کئی برس والد سے جدائی کی تکلیف برداشت کرتی رہیں بل آخرچار سال سے زائد مدت کے بعد 1955میں انہیں رہائی ملی۔
فیض صاحب خود کو اپنے بھائی طفیل کی موت کا زمہ دار سمجھتے رہے 1952میں طفیل فیض صاحب سے ملنے حیدرآبادجیل میں آنے والے تھے کہ فجر کی نماز کے وقت دل کا دورہ پڑا جس نے بھائی طفیل کی جان لے لی فیض صاحب کو حادثے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بیوی الیس کلثوم کوجیل سے خط لکھاکہ۔ آج صبح میرے بھائی کی جگہ موت میری ملاقات کو آئی تھی یہ لوگ میری زندگی کے عزیز ترین متاع مجھے دیکھانے لے گئے وہ متاع جو اب خاک ہو چکی ہے اور پھر وہ اسے ساتھ لے گئے میں نے اپنے غم کے غرورمیں سر اونچا رکھا اور کسی کے سامنے نظر نہیں جھکائی یہ کتنا مشکل اور کتنا ازیت ناک کام تھا یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔اگلے خط میں انہوں نے لکھا کہ میں اُن کے بیوی بچوں اور ماں کے خیال کو دل سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہوں میں نے اپنی ماں کی پہلی اولاد چھین لی ہے ہاں میں نے ہی سب کو اُن کی زندگی سے محروم کر دیا ہے حواس اس قدر پراگندہ ہیں کہ زیادہ لکھ نہیں سکتا یہ غم بہت اچانک اور بے سبب لگا ہے لیکن اسے سہنے کا حوصلہ مجھ میں ہے میرا سر نہیں جھکے گا۔۔اس صدمے کا اثر فیض صاحب پر کافی عرصہ طاری رہا انہوں نے کچھ دن بعد اپنے بھائی کا نوحہ ایک نظم کی صورت میں لکھ کر اپنی زوجہ کو روانہ کیا۔
فیض صاحب کو ملکی و عالمی حالات کی خبریں جیل میں بھی ملا کرتی تھیں وہ ان پر غزلیں اور نظمیں لکھا کرتے تھے فیض صاحب کی شاعری ہنگامی یا وقتی نہیں بلکہ آفاقی اور دائمی ہوتی فیض صاحب کے شہرہ آفاق شعری مجموعے،دست صبا،اور،زندہ نامہ، قیام اسیری کی ہی لازوال تخلیقات ہیں قید خانے سے بیوی اور بچیوں کے نام لکھے خطوط کا مجموعہ صلیبیں میرے دریچے میں کے نام سے لکھا قیدو بند کی جن جن آزمائشوں سے فیض صاحب گزرے ہیں ان میں آپ کی زوجہ الیس جوج کی غمخواری حوصلہ مندی کے بغیر ان جان لیوا مراحل سے یوں اعتماد اور یقین محکم سے گزرنا ناممکن تھا ساری زندگی اپنے محبوب شاعر شوہر کی ہمت بننے والی الیس جوج نے وفا کی مثال تو رقم کی ہی تھی مگر سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی کی صورت میں جو دوکلیاں فیض صاحب کے دامن میں ڈالیں جن کی مہک سے فیض صاحب کی زندگی معطر ہو گئی الیس جوج کی دل کشی اور حسن سیرت نے فیض صاحب کو ہمیشہ نہال رکھا دونوں ہونہار بیٹیوں نے والد کی میراث میں ملنے والے تحفے علم و ادب اور فنون لطیفہ کے شاندار تابناک ورثے کی دل و جان سے ناصرف حفاظت کی بلکہ اس سے اپنے ملک و قوم کو مستفید بھی کیاپاکستان ٹیلی وژن کو منزہ فیض نے اپنے پانچ سالہ دور میں جس طرح چلایا اور دیکھایا وہ وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔
وہ عبداللہ ہارون تعلیمی ادارہ لیاری کراچی کے پرنسپل ہوئے توعلم کی روشنی سے اس علاقے کو روشن کر ڈالا کھڈا مارکیٹ میں جہاں غربت جہالت اور منشیات کا راج تھا وہاں ٹیکنیکل سکول اور آڈٹیوریم قائم کیا اپنی جمع پونجی اسی کام پر لگا دی فیشرمین کارپوریٹو سوسائٹی قائم کی تو ادارے کی آمدن سے سو بچے مفت تعلیم حاصل کرتے فیض صاحب پاکستان ٹائم،امروز، لیل ونہار جیسے اُس دور کے نامور اخبارات و میگزین کے مدیر اعلیٰ بھی رہے 1959سے1962تک فیض صاحب نیشنل کونسل آف آرٹ کے سیکرٹری اور بعد میں نائب صدر بھی رہے انہوں نے 1959میں جاگو ہوا سویرا کے نام سے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی جو مشرقی پاکستان میں بننے والی پہلی اردو فلم تھی جنرل ایوب حکومت نے اس فلم کو کیمونسٹ پروپوگنڈا قرار دیتے ہوئے اس فلم پر پابندی لگا دی تھی مگر ان کی شاعری و افکار کی روشنی مشرق و مغرب تک پھیل چکی تھی وطن پاکستان کی حاضر1965کی جنگ میں فوج سے وابستہ ہوئے اور سپاہوں کے لیے نظمیں اور گیت لکھ کر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے ان کی کتاب دست تہ سنگ بھی انہی دنوں شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔
وہ دامن وطن کے تار تار کی خیر مانگتے رہے اور طاقت کے نشے میں ڈوبے لوگوں نے ان کی آواز حق کو نظر انداز کر دیا اور اقتدار کی چھینا چھینی میں پاکستان ایک بازو سے محروم ہو گیا اور عوام دیکھی کی دیکھتی رہ گئی فیض صاحب کی واقفیت زوالفقار بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان دونوں سے تھی اس کے باوجود وہ اس واقعے پر دونو ں کو زمہ دار سمجھتے رہے مشرقی پاکستان کی علیدگی پر فیض صاحب کی روح زخمی ہو گئی اور وہ اس موضوع پر اپنے احساسات و جذبات سپرد قلم کرتے رہے ان کی وہ درد ناک نظمیں آج بھی ان کے درد کو پڑھنے والے سینے میں محسوس ہوتی ہیں۔
بھٹو دور میں مشیرثقافت بنے پاکستان کے ٹوٹے اور روٹھے حصے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو معافی تلافی صلح صفائی کی گراہوں سے دو حصوں کو جوڑنے کا وفد لے کر وہاں پہنچے اُس وقت یہ افوہ تھی کہ بھٹو فیض صاحب کو بنگلہ دیش میں پاکستان کا سفیر مقرر کرنا چاہتے تھے مگر بنگلہ دیشی قیادت نے پاکستان سے تعلقات قائم کرنے میں کوئی گرمجوشی نہ دیکھائی جس کا فیض صاحب کو تاحیات دکھ رہا آپ نے اس موقع پر کہا کہ ہم تو یہ سوچ کر گئے تھے کہ احباب سے ملیں گے اپنی سنائیں گے اُن کی سنیں گئے گلہ گزاریاں ہوں گئی دوستی و محبت کے رشتے استوار کریں گے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا جیسے گئے ویسے ہی لوٹ آئے 5جولائی 1977کو جنرل ضیا نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فیض صاحب کی جلا وطنی کا نیا دور شروع ہو گیا
معززقارئین آپ نے کبھی بھی ماضی کا کوئی بھی دور حکومت جاننا ہو تو آپ کو چاہیے کہ اُس دور کا ادب پڑھیں فقط ادب ہی ایک ایک سچی و مضبوط روشنی ہوتی ہے تو آپ کو اندھیروں میں حقائق تک آشنائی دیتی ہے سچے لکھاری محب انسانیت ہوتے ہیں انہیں سچ کا قلم تھام کر عوام کے درد کو لکھنا ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ شاعروں کی نئی و پرانی نسل ان سے اس قدر متاثر تھی کہ فیض صاحب ان کے اندر درجہ محبوبیت پر فائز تھے فیض صاحب کی بے پناہ مقبولیت کا ایک اور انداز ان کی لازوال بے مثال نظموں وغزلوں کی گلوکاری ہے فیض صاحب بلاشبہ ایک عظیم لجینڈباکمال شاعر عظیم انسان جو اپنی زندگی سے منسلک ہر کردار کو اس خوبصورتی سے نبھاتے کہ وفا ان پر ناز کرتی پہلی محبت میں ناکامی کے باوجود فیض صاحب کا کہنا کہ محبت ہوتی ہی پہلی ہے اس کے بعد ہیرا پھیری ہوتی ہے وہ ہر کسی سے احساس اپنایت میں ملتے اور ملنے والے کو لگتا کہ جانے کب کا رشتہ ہے رائٹر لوگ کائنات کے ہر زرے کو اہمیت وعزت دیتے ہیں حیات کے ہر تلخ و شیریں منظر کو قبول کر کے زندگی کو شکریہ کا موقع دیتے ہیں یہ ممکن نہیں کہ آپ اردو جانتے ہوں اور فیض احمد فیض کو نا جانتے ہوں مجھے پڑھنے کے دنوں میں ہی ان کا تعارف حاصل تھا میں ترقی پسندتحریک کا ممبر تھا جو پی ڈبلیو اے رائٹر ایسوسی ایشن تھی یہاں سیکھنے والوں کا ایک حصہ میں بھی تھا اس وقت اردو ادب کے ستارے ستار جعفری ساحر لدھیانوی کرشن چندربیدی جیسے دیگر احباب تھے جو گھر والے تھے اورگھر والوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کس کا کیا مقام ہے یہ ادب کے ستارے جس کا نام عبادت کی طرح لیا کرتے تھے وہ فیض احمد فیض صاحب تھے جن کی شاعری پر مبنی کتاب یہاں سب پڑھتے تھے اس لیے ان کا مقام زہن نشین ہو چکا تھا وہ فقط استاد ہی نہیں تھے بلکہ ایسے لیڈر و راہنما تھے جوتحریک کومحبوبہ کی طرح مخاطب کرتے تھے وقت کی نبض رکتی ہے توملکہ ترنم نورجہاں اُن کی نظم گاتی ہیں اور وقت کی نبض چلنے لگتی ہے۔
فیض صاحب کی شاعری بڑے بلند قد کی ہے جیسے سمجھنے کے لیے علم و شعور کا وسیع ہونا لطف اندوز کرتا ہے جن کی سمجھ میں کچھ آئی اور کچھ نہ آئی اُن میں سے ایک میں بھی ہوں فیض صاحب استاد ہیں جن کے ہر پہلو تک ہماری رسائی نہیں پہنچ سکتی جبکہ ان کے کلام میں وسیع معانہ افرنی دل سوزی ترجمانی محبت شامل ہیں میرا مطالعہ کم ہے اور مشاہدہ اس سے بھی کم ہے مگر پھر بھی میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے زبان کا حسن طرز بیاں کسی اور قلم میں نہیں دیکھاانجمن ترقی پسند مصنفین چاہتے تھے کہ ادیب خیالی محل کی بجائے زمینی حقائق پر نظم اور نثر کی بنیاد رکھیں فیض صاحب نے تن من دھن لگا کر ایک شعوری گروپ تشکیل دیا جن کے زیرسایہ گاؤں گاؤں جا کر مزدوروں کسانوں کو حالات وجغرافیہ کا علم دینے لگے شام تک کالج میں فروغ تعلیم کی زمہ داری نبھاتے اس کے بعد رات گئے تک خدمت خلق میں مصروف رہتے فیض صاحب دیہاتی زندگی کے مسائل سے واقفیت رکھتے تھے معاشرے کا سب سے نچلہ طبقہ ان کی خدمت کا مرکز رہا غریبوں مزدوروں کے دکھ کو ذاتی غم بنا کر دور کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے فیض صاحب ایشاکے پہلے شاعر ہیں جنہیں روس نے لیلن امن ایوارڑ سے نوازاجو نوبل انعام کا ہم پلا مانا جاتا ہے 73سالہ زندگی کے ہمیشہ رہنے والے نشان چھوڑنے والے فیض صاحب 20نومبر 1984میں انتقال کر گئے ان کو ماڈل ٹاؤن لاہورکے گریویاڑ میں دفن کیا گیا ان کی رحلت کے ساتھ ہی روایات غم جاناں غم دوراں اور رومان کا منفرو دل کش عہد تمام ہو گیا مگر فیض صاحب کی شخصیت و کلام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا ان کے انتقال کے بعد حکومت پاکستان کی فیض صاحب کی اردو ادب کی خدمات پر انہیں حلال امتیاز سے نوازاجیسے ان کی زوجہ کلثوم نے قبول کیاتھا۔