تحریر۔نظام الدین
کسی بھی سماج اور ریاست کی ترقی امن ؤ امان،انصاف، اور قوانین کے نفاذ کے ماحول کا دارومدار ،ریاست کے بہترین اور صحت مند، سیاسی ڈھانچہ پر منحصر ہوتا ہے، لیکن؟
جب ریاست پر سیاست کرنے والے بدعنوان حکمران اپنے مطلب کے قوانین بنائیں اور اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے طاقتور اداروں کو استعمال کریں اور سیاست کے نام پر ریاکاری کرنے لگیں تو” سماج میں مایوسی ، خوف اور ناامیدی پھیلنے لگتی ہے؟
” تب” ریاست اور اس کے سماج کے مستقبل کی یقینی صورتحال کی پیشنگوئی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے ” تب” سماج کا کردار بھی مغلوب قوم کی طرح ہو جاتا ہے؟
اور پھر اس سماج میں ہر اندرونی ؤ بیرونی فاتح کی تقلید کا شوق پیدا ہوتا چلا جاتا ہے ؟ فاتح کی وردی وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن بٹنوں پر کندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، سیاسی چالبازیاں ، تمام حالات، رسم و رواج ،، “حتیٰ کہ وہ سماج حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
سماج اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتے ہیں
اور زوال پذیر ریاست میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، دولت کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق ؤ سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دان اور افواہیں پھیلانے والے کی بہتات ہوجاتی ہے ۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاست برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔
بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے “ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، ریاست ایک سرائے میں بدل جاتی ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، پرانے محلے ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں!!!
“دراصل انسان کو جس مٹی سے گوندھا گیا ہے اس کی سرشت میں فنا اور پچھتاوے رکھ دیے گئے ہیں اسے گم ہوتیں چیزوں کا احساس فنا کے وقت ہوتا ہے۔
ریاست اور اس کی آزادی کا احساس بھی اس وقت ہوتا ہے جب ریاست ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی ہے۔ پھر اس کی اصل قدر و قیمت جانتے ہیں۔ “حتیٰ کہ بکھرے سماج کے پاس کوئی چیز باقی رہ جاتی ہے تو وہ ریاست اس کی آزادی اس کی اہمیت کا احساس، اور پچھتاوے !!!