پنشن حق ہے خیرات نہیں

تحریر۔نظام الدین

بزرگ اور معذور افراد کوریاست کے بیت المال سے وظیفہ دینے کا رواج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت سے شروع ہوا اور مسلم ریاستوں سے ہوتا ہوا دیگر مزاہب کی ریاستوں تک پہنچا ،
1680 کی دہائی میں نیدرلینڈز میں فوجیوں کے لیے پنشن کا منصوبہ متعارف ہوا ،
1698 میں جرمنی کے برشین بادشاہ نے فوجی افسران کے لیے پینشن کا نظام قائم کیا ،
1787 انقلاب فرانس کے احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کے بعد پنشن سسٹم قائم کیا گیا ، اس طرح دیگر ممالک میں مختلف ترامیم اور اصلاحات کے ساتھ پنشن کا نظام جدید ترقی کی جانب گامزن ہوتا گیا،
پاکستان میں پنشن کے ابتدائی انتظامات برطانوی سول سروس رولز کے تحت وراثت میں ملے ، ایمپائر پراویڈنٹ فنڈ ایکٹ 1952,سول سروسز رولز 1954, کنٹریبیوٹری پراویڈنٹ فنڈ ایکٹ 1969، پاکستان پنشن اسکیم 1976, اولڈ ایج بینیفٹس انسٹی ٹیوشن ایکٹ 2006, ، وزارت خزانہ ، سمندر پار پاکستانی ، اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن ، اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ، جیسے اداروں اور
وزارتوں کو سرکاری ملازمین کے پنشن کی دیکھ بھال کا کام سونپا گیا، حالیہ دنوں پاکستان کو قرضے دینے والے عالمی ادارے (آئی ایم ایف) نے سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس لگائے کا مطالبہ کیا ؟ جس پر حکومت نے پنشن میں پندرہ ترامیم کریں ؟ جبکہ کچھ حکمران اور سیاستدان سرکاری ملازمین کو سرکاری خزانے سے گریجویٹی اور پنشن کی صورت میں ملنے والی رقم کی ادائیگی کو بادی النظر میں محض تبرع و احسان سرکار سمجھ کر اسے سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ تصور کر بیٹھتے ہیں۔؟
جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پنشن کی رقم تو اس ملازم کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ جو کہ حکومت اور اس ملازم کے درمیان طے شدہ معاہدہ کے مطابق گریجویٹی اور پنشن ادا کر نے کی پابند ہے۔
؟ کیوں کہ جب کوئی شخص کسی بھی سرکاری ادارہ میں ملازمت اختیار کرتا ہے تو ادارے اور ملازم کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے۔ جس کے مطابق حکومت ملازمت کے اختتام پر ملازم کی بنیادی تنخواہ اور اس کی سروس کے حساب سے “سو” فیصد رقم ادائیگی کی پابند ہوتی ہے ۔اور اس کی ادائیگی کس طریقہ کار سے کی جائے گی اس کے بھی تمام قواعد و ضوابط طے پاتے ہیں۔ جیسا کہ “سو” فیصد کے حساب سے ایک ملازم کے “ایک” ہزار روپے بنتے ہیں تو حکومت کی جانب سے یکمشت اس ملازم کو “ایک ہزار” روپے کی ادائیگی کر دینی چاہیے ؟ مگر اصل صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ حکومت اپنے مفاد میں حالات اور وقت کے حساب سے قاعدے و قانون ترتیب دیتی رہتی ہے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں حکومت نے پنشن کی معد میں بھی قوائد ؤ قانون میں ترامیم کی ہیں ؟ موجودہ قانون کے مطابق حکومت سروس مکمل کرنے والے ملازم کو ملنے والے “ایک” ہزار روپے میں سے “تین سو” روپے پہلے ہی کٹوتی کر لیتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا ہے۔ ملازم کو اس کی رقم کا صرف اور صرف “ستر” فیصد دیا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے بھی حکومت کی جانب سے مختلف قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں اب “ستر” فیصد کے حساب سے جو “سات” سو روپے بقایا بچتے ہیں اس کی تقسیم کار کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ اس رقم کو پنشن اور گریجویٹی کی معد میں دو حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے اس کا “پیتس” فیصد گریجویٹی کی معد میں یکمشت ادائیگی کردی جاتی ہے۔ جو کہ “دو سو پینتالیس” روپے بنتی ہے اس طرح باقی بچ جانے والی رقم “چار سو پچپن” روپے حکومت اپنے پاس رکھ لیتی ہے جو کہ وہ ماہانہ پنشن کی صورت میں ملازم کو تاحیات دیتی ہے یا پھر ملازم کے وفات پا جانے کی صورت میں حکومت قاعدہ قانون اور معاہدہ کے مطابق اس کی شریک حیات اور اس کے بچوں کو ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے ،
اب یہاں سوال ؟ یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو “ایک ہزار روپے” میں سے کیا دیا ہے۔ ملازم کو صرف ( 245 ) روپے ادا کئے اور ( 755 ) روپے اپنے پاس رکھ لئے ہیں۔ اس مسلئے کو اگر سادہ الفاظ میں سمجھایا جائے تو ریاست ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو ایک ہزار ( 1000 ) میں سے صرف ( 245 ) دو سو پینتالیس روپے کی ادا کئے اور ( 755 ) روپے اپنے پاس ہی رکھ لیے ؟ یعنی کہ 100 فیصد رقم کی بجائے 35 فیصد رقم کی ادائیگی کی اور 65 فیصد رقم اپنے پاس ہی رکھ لی۔ جس میں سے حکومت ملازم کو ہر ماہ پنشن کی ادائیگی کرتی ہے ؟ اور عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ریٹائرڈ ملازمین پر کوئی نوازش، مہربانی، احسان یا پھر کوئی خصوصی عنایت فرما رہی ہے۔ایسا ہرگز نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کی رقم سے 65 فیصد کاٹی گئی رقم حکومت کے پاس امانت کے طور پر موجود ہے قاعدے، قانون اور طے شدہ معاہدہ کے مطابق حکومت ہر ماہ پنشن کی صورت میں اس رقم کی بروقت ادائیگی کی پابند ہے۔اسی طرح ملازمت دو اقسام کی ہوتی ہیں
1۔ پنشن ایبل ملازمت
2۔ نان پنشن ایبل ملازمت
1۔ پیشن ایبل ملازمت
پنشن ایبل ملازم کی تنخواہ اصل تنخواہ سے تقریباً ایک تہائی کم رکھی جاتی ہے۔ جو ایک تہائی کے برابر رقم ہے وہ پنشن فنڈ میں جمع ہوتی ہے۔ حکومت کی صواب دید پر اس پنشن فنڈ کو یا تو کسی مالیاتی نظام سے منسلک کیا جاتا ہے جیسا کہ انشورنس کمپنی، میوچوئل فنڈ یا دیگر عالمی کاروباری ادارے جہاں اس جمع ہونے والی رقم سے محفوظ سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ اس رقم میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اور پھر ریٹائر ہونے کے بعد ملازم کو زندگی بھر اسی کی پس انداز رقم سے پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ یہ پیسے ملازم کے اپنے ہوتے ہیں اور حکومت پر اس کا ایک پیسے کا بوجھ نہیں ہوتا ہے
دوسرے نان پنشن ایبل ملازمت جہاں پر ملازمت اختیار کرنے والے ملازم کو تنخواہ زیادہ دی جاتی ہے۔ اس طرح ملازم اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے بعد رقم کا کچھ حصہ بچا لیتا ہے۔ اور یوں ملازم دوران ملازمت اس تنخواہ میں سے کچھ رقم بچا کر اسے کسی فنڈ، انشورنس کمپنی، حصص مارکیٹ، یا پھر اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ جہاں سے اسے ایک معقول آمدنی حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جو اس کے خاندان کے تابناک مستقبل کے لئے ایک مستقل ذریعہ آمدن بن جاتی ہے۔
ہر دو صورتوں میں حکومت کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی حکومت کے خزانے پر کوئی اضافی مالی بوجھ ہوتا ہے۔ اکثر ذمہ دار معاشروں میں سینئیر سٹیزن ریٹائر ہو کر اپنی ایک نئی خوشگوار زندگی کا آغاز کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی بھرپور صحت اور توانائی والی زندگی حکومت اور معاشرے کے لیے وقف کردی تھی ،
جبکہ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ حکمران ملازمین کی پس انداز رقم کو نہ کسی مناسب فنڈ میں جمع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مناسب اور بہتر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
آخر کار اس کا تمام تر خمیازہ اور تکالیف اس ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو بھگتنی پڑتی ہیں جس نے نہایت جانفشانی، لگن، محنت اور ایمانداری کے ساتھ اس ملک و قوم اور ادارے کی خدمت میں اپنی زندگی کے سنہرے ماہ و سال قربان کیے ہوتے ہیں۔ اس کو اپنے جائز حقوق کے حصول کی خاطر جن پریشانیوں، دشواریوں، ذلت، تذلیل اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ معاملات اس قدر گھمبیر صورت حال اختیار کر جاتے ہیں کہ اپنا حق بروقت نہ ملنے کے سبب ایک روبن مسیح بے بس، مجبور، لاچار اور مایوس ہو کر اپنی جان دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جبکہ ایک ہی ریاست کی چھتری کے نیچے ملازمین کے ساتھ یہ نامنصفانہ دہرا معیار سمجھ سے بالاء تر ہے ایک طرف تو پنشن کی ادائیگی کو ریاست کے خزانے پر ناروا بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ تو دوسری جانب ریاست کی جانب سے پیشن کے نام پر کچھ ریاستی ملازمین کو استثنائی مراعات کی معد میں نوکر، پلاٹ، زرعی زمین، پیٹرول کوٹہ، یوٹیلٹی بل کی ادائیگی، اخبارات، کتابوں کی لائبریری اور سیر سپاٹے کے لیے گاڑی جیسی نوازشات کی صورت میں اضافی سہولیات سے نوازا جاتا ہے۔ تو دوسری جانب اپنے حقوق کے حصول کی خاطر اپنے جان سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس معاشرے میں عدل و انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے معاملات میں تضاد پایا جائے جہاں دہرے معیار اپنائے جاتے ہوں تو وہاں ایسے دل خراش واقعات کا وقوع پذیر یا رونما ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
ایک ہی حکومت کے ماتحت کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بلاجواز ناروا برتاؤ اور دہرا معیار ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کا بہتر حل یہ ہے کہ دوران سروس ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی گریجویٹی اور پنشن کی معد میں ملنے والی رقم سے جو رقم حکومت اپنے پاس رکھتی ہے۔ اس فنڈ کا مصرف انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے۔ تاکہ بہتر سرمایہ کاری سے نفع حاصل کیا جا سکے۔ اور ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو ان کی گریجویٹی اور پنشن کے پیسوں کی ادائیگی بلا کسی تفریق، بلا تعطل، یکسوئی اور سہولت کے ساتھ بر وقت عمل میں لائی جا سکے۔ پنشن کے نام پر کچھ حکومتی ملازمین کو استثنائی مراعات کی معد میں اضافی سہولیات اور مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں کچھ اداروں کے ملازمین دوران ملازمت یا بعد از ملازمت اپنے معاوضہ، الاؤنسز اور دیگر مراعات کا تعین خود کرتے ہیں وہ بھی معقول اور باقی ملازمین کو دی جانے والی سہولیات سے مطابقت رکھتی ہوں پیشن اور گریجویٹی کے تمام معاملات اور پہلو پر مکمل جائزہ پیش کیا جا چکا ہے امید ہے کہ وہ حضرات جو پینشنرز کو حکومتی خزانے پر بے جا بوجھ تصور کرتے ہیں توان کے سمجھنے کہ لیے کافی ہے کہ موجودہ پینشنرز اپنے پس انداز پیسوں کی پنشن لے رہے ہیں کسی کا ان پر احسان نہیں۔ بلکہ حکومت ان کی رقم کی امانت دار، محافظ اور امین ہے اس طرح اب یہ حکومت کا فرض عین ہے کہ وہ اپنے اس فرض کو دیانت داری، ایمانداری، خلوص دل، خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس امانت کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ ان کے حقداروں تک پہنچائے۔ تاکہ یہ بھی معاشرے میں باعزت اور باوقار زندگی بسر کر سکیں
اس حوالے سے میرے ایک دوست ناصر صاحب جو بلدیہ کراچی کی ملازمت کے دوران گردوں کی بیماری کا شکار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں ان کے بقیہ جات ابھی تک نہیں ملے بلکہ 2016 سے بلدیاتی ملازمین اپنے بقیہ جات سے محروم ہیں ، میری معلومات کے مطابق مصطفی کمال کی بلدیاتی نظامت کے دور میں بلدیہ کے ملازمین کے پنشن کی معد میں جمع ہونے والی کثیر رقم وہ منافع دینے والے بینک سے نکلوا چکے ہیں جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کے ریٹائر ملازمین کے مسائل گھمبیر صورت اختیار کرچکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *