بچوں کی ذہنی صحت

تحریر ۔ کشف عبیر
ہم اپنے بچوں اور ان کی جذباتی كیفیت کو کس طرح تکلیف پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔
اکثر ہمارے بڑے بچوں کو اس طرح محسوس کرواتے ہیں یا ایسی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وه احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ کچھ بچوں کو اس قدر حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ خود کو سوشل سرکل میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں سمجھتے کیونکہ اس کو worthless محسوس کروایا جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھنا کہ وه مل جل کر رہنے کی بجائے تنہا رہنا اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں۔ ہم میں اکثر والدین اپنے بچوں کا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن سے بچے کی ذہنی كیفیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اکثر گھروں میں بچوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ شکل، رنگ، قد کے متعلق منفی باتیں کرنا اور کچھ گھرانوں میں بچے کو نظر انداز کرنا عام ہے۔ اس طرح بچوں میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہوتی ہے اور وه الگ رہنا مناسب سمجھنے لگتے ہیں۔ بچے کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وه کیا کرے اور کس کے سامنے بیان کرے کہ اس کی اس حالت کے ذمہ دار اس کے اپنے خونی رشتے ہیں۔
اس طرح کی صورت حال کی وجہ سے بچے ڈرے ہوئے اور پریشان رہتا ہے۔ بچوں میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے جس بنا پر وه ڈپرس رہنے لگتے ہیں اور نہ ہی زندگی میں کسی بھی قسم کے تعلقات استوار کر پاتے ہیں۔ لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز کرتے ہیں۔ پیار، محبت نہ ملنے کی وجہ سے غلط سر گرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ محبت حاصل کرنے کی خواہش میں اپنی عزت نفس کا خیال بھی نہیں کرتے۔ پڑھائی وغیرہ میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔بات بے بات غصہ کرنے لگتے ہیں۔ ہر وقت ڈر اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ گھریلو ماحول سے اكتا جاتے ہیں اور گھر سے بھاگ بھی جاتے ہیں۔ منفی ماحول کی وجہ سے بچے باغی ہوجاتے ہیں بڑوں کا ادب و احترام بھولنے لگتے ہیں۔بعض اوقات اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں کہ خود کو اذیت دینے اور خود کشی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ ضروری ہے کہ گھر کے بڑے افراد بچوں کے بدلے ہوئے رویے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ مت سوچیں کہ وہ جان بوجھ کر تنگ کرتے ہیں بلکہ اس بات کو سمجھیں کہ ان کے رویے میں تبدیلی کی آخر وجہ کیا ہے اور ان کے رویے کی وجہ سے ان کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھیں کہ وه خود کو کمتر سمجھنے لگیں۔
اپنے سب بچوں کو برابر پیار اور توجہ دیں تاکہ ایک کی نسبت دوسرا احساس كمتری کا شکار نہ ہو۔ اس طرح بچوں میں حسد پیدا ہوتا ہے اور وه ہر وقت چڑچڑے پن میں مبتلا رہتے ہیں۔ بچوں سے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان سے اتنی ہی امیدیں وابستہ کریں جن کو وه باآسانی پورا کر سکیں۔بچوں پر حد سے زیادہ پابندیاں لگانے سے پرہیز کریں کیوں کہ اس طرح بچے باغی ہوجاتے ہیں۔ ان کا موازنہ دوسرے بچوں سے کرنا چھوڑ دیں کیوں کہ ہر بچہ الگ فطرت اور صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ آپ کے سکھائے ہوئے ادب و اخلاق سے ہٹ کر کچھ سرگرمیاں سر انجام دے رہا ہے تو اس کو کسی بھی قسم کے دباؤ میں ڈالنے کی بجاۓ یہ سوچیں کہ آپ کس طرح اپنے بچے کو سیدھی سمت میں گامزن کرسکتے ہیں۔
بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ کسی کے سامنے بھی کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے بچے کو جذباتی طور پر تکلیف ہو اور اس کی عزت نفس متاثر ہو۔ حتی کہ ڈاکٹرز اور ٹیچرز کے سامنے بھی اس چیز کا خیال رکھیں کہ بچے کے سامنے اس کی کوئی بات نہ کریں یا پھر ایسے الفاظ کا چناؤ کریں جس سے بچے کو كمتری یا بے عزتی کا احساس نہ ہو۔
کیا آپ چاہیں گے کہ دوسروں کے سامنے آپکی ایسی بات بیان کی جائے جو آپ کسی کو نہ بتانا چاہتے ہوں؟
بچے کی شکل و صورت، رنگت، قد، موٹا ہونے پتلا ہونے پر ہم جب ہم انھیں مذاق کا نشانہ بناتے ہیں تو یہ کوئی عام بات نہیں ہمارا ایسا رویہ بچوں کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے لیکن وه اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کر پاتے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *