جعلی ادویات حکومت کی لاپرواہی

ترتیب
نظام الدین

ملتان نشتر ڈائیلاسز سینٹر کے بعد راقم نے گردوں کے امراض کی مزید تحقیق شروع کی تو معلوم یہ ہوا پانچ ہزار گردوں کے مریضوں میں سے ایک ہزار ایسے مریض بھی تھے جنہیں شوگر تھی نہ ہی بلڈ پریشر لیکن وہ ڈائلیسس کے عمل سے گزر رہے تھے ؟ ان میں میرے علاقے لائینز ایریا میں بھی سو کے قریب افراد شامل تھے آخر ایسا کیوں ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ملک میں ادویات اور آلات کی ترسیل و تقسیم کے نظام کو جاننا ضروری ہے ،
اس وقت پاکستان میں بیرونِ ملک سے دواؤں کے دس ہزار برانڈز درآمد کیے جا رہے ہیں، جبک پچیس ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت لگ بھگ چار سو لائسنس یافتہ کمپنیاں سالانہ ستر کروڑ ڈالر کی دوائیں تیار کررہی ہیں آن ادویات میں وہ برانڈز بھی شامل ہیں جن کی استعمالی معیاد ختم ہونے کے بعد تازہ لیبل لگا کر ری کنڈیشنڈ انداز میں فروخت کی جاتی ہیں اس طرح کی ادویات ملی بھگت کے بعد سرکاری سیکٹر کو فراہم کی جاتی ہیں ،۔ اسی طرح بہت کم اسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیں ، انجکشن اور طبی فضلہ تلف کرنے کا موثر نظام نہیں ہے ۔ لہذٰا زیادہ تر استعمال شدہ سرنجیں، انجکشن اور استعمال شدہ سامان و مواد ری سائیکل اور ری پیک کر کے مارکیٹ میں بھیج دیا جاتا ہے۔
اس طرح کی صورت حال کو دیکھنے کے لیے ملک میں تین ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کراچی، لاہور، اسلام آباد میں موجود ہیں اس طرح ملک میں دوا سازی اور اس کے معیار سے متعلق لگ بھگ وہی قوانین اور ڈھانچہ موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوتا ہے ۔نئی دوا کی رجسٹریشن کا عمل آٹھ سے دس ماہ میں مختلف مرحلوں سے گذر کر وزارت صحت کے کئی افسروں کے دستخطوں کے بعد مکمل ہوتا ہے۔ تمام سرکاری اسپتال جو ادویات خریدتے ہیں ان کے سیمپلز ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز کے سرٹیفکیٹس کے ساتھ آتے ہیں۔ان دواؤں کی اثر پزیری (پوٹینسی) اور مواد (سالٹس) کی چھان بین کے علاوہ ہر دوا کے ہر مینو فیکچرڈ بیجز کو بھی چیک کیا جاتا ہے۔چاروں صوبوں میں وفاقی و صوبائی ڈرگ انسپکٹرز بھی تعینات ہیں۔ان کی رپورٹ کی روشنی میں کسی بھی دوا کی فروخت روکی جا سکتی ہے یا فیکٹری و دوکان کو بند کر کے سربمہر کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان تمام انتظامات و قوانین کے ہوتے ہوئے بھی جعلی و غیر معیاری یا زائد از معیاد ادویات کی بھرمار ہے۔ جبکہ جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنے سے جو اموات ہوتیں ہیں اس پر قتل کی دفعہ تین سو دو عائد نہیں کی جاسکتی ، زیادہ سے زیادہ لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے یا مجرمانہ غفلت کا مقدمہ بن سکتا ہے اور سزا بھی صرف چند سال ہے اور یہ سزا بھی پوری ہونے سے پہلے ہی رہائی مل جاتی ہے۔ ویسے تو مجرم عدالت جانے سے پہلے ہی رشوت کے عوض رہائی حاصل کرلیتا ہے یہ ہی وجہ ہے جعلی ادویات جعلی ڈاکٹراور حکیموں کی پاکستان میں بھرمار ہے ان کے خلاف کوئی قانون اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام نافذ نہیں جن کی وجہ سے آج ملک بھر میں لاکھوں افراد گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں ، “جبک ڈاکٹر حضرات گردوں کے فیل ہونے کی وجہ شوگر بلڈ پریشر اور گردوں میں پتھری بتلاتے ہیں ، جبکہ میری تحقیق اور گردوں میں مبتلا مریضوں کے مشاہدے کے بعد پتہ چلا کہ موجودہ دور میں گردوں کے امراض میں سب سے زیادہ عمل دخل جعلی غیر میعاری جنسی تسکینِ کی ادویات کے ساتھ جعلی ڈاکٹروں اور حکیموں کا ہے جبکہ “
پاکستان میں معیاری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی غیر میعاری ادویات کی روک تھام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان یا ڈریپ نامی ادارا کرتا ہے اور ایف آئی اے گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتا ہے ،
ڈرگ کنٹرول کے شعبے کے کئی اعلی اہلکاروں سے ملاقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں جعلی ادویات کا کوئی کاروبار ہے ہی نہیں ؟ نہ ہی کسی شہر میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹری قائم ہے ؟ راقم ایسے اہکاروں کے ان دعووں کی تردید کے لیے محض ، چند حقائق پیش کررہا ہے
کراچی: شہر کے علاقے لائنز ایریا میں ایک گھر میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹری پکڑی گئی راقم بھی اس فیکٹری میں گیا جہاں ایف آئی اے کے اہلکار موجود تھے
ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق لائنز ایریا کے گھر میں جعلی ادویات بنائی جا رہی تھیں، چھاپے کے دوران گھر سے کئی ملزمان گرفتار کر لیے گئے۔ گھر میں بنی فیکٹری سے مشینیں اور آلات بھی برآمد ہوئے جن کی مدد سے گھر میں کینسر اور جنسی تسکین کی دواؤں کے ساتھ 82 سے زیادہ مختلف اقسام اور کمپنیوں کی جعلی ادویات تیار کی جا رہی تھیں۔ ایف آئی اے نے یہ کارروائی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ مشترکہ طور پر کی تھی ملزمان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ جعلی ادویات کراچی کے علاؤہ پاکستان بھر میں میڈیکل اسٹورز پر سپلائی کرتے تھے اس فیکٹری کا تزکرہ میڈیا پر بھی ہوا ، لیکن اس کارروائی کے بعد اس جرم کے اہم کردار کو رشوت اور سیاسی مداخلت کے بعد چھوڑ دیا گیا؟
اسی طرح کراچی کے مختلف
ڈائیلاسز یونٹ کے ذرائع نے بتایا کہ گردے فیل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں 25 سے 40 سال تک کے عمر کی ہے جن میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو جنسی خواہشات کی تکمیل کےلئے مختلف قسم کی ادویات استعمال کرتے رہے ہیں جو وقتی طور پر تو نوجوانوں کو تسکین پہنچاتی ہے مگر چند سال میں ہی ان کے گردے بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں محکمہ صحت کا عملہ ان ادویات کےخلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کےلئے تیار نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے مختلف میڈیکل اسٹورز‘ ہومیو پیتھک اور دیسی حکیموں کی دکانوں پر یہ ادویات بڑی تعداد میں فروخت ہورہی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر بھی جنسی خواہشات کی تکمیل کےلئے اشتہار پڑھ کر نوجوان وہ ادویات استعمال کررہے ہیں
اسی طرح پاکستان میں میڈیکل کے لیے جو رامیٹریل تیار کیا جاتا ہے اس کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے دوسری جانب جو رامیٹریل باہر سے آٹا ہے اس کو مناسب انداز میں اسٹور نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اس رامیٹریل سے تیار ہونے والی ادویات کی افادیت اور اثر وہ نہیں رہتا یہ غیر معیاری اور جعلی ادویات پاکستان کے 65 ہزار میڈیکل اسٹورز اور کیمسٹوں کو فروخت کردی جاتی ہیں اور اس طرح کے غلطی یا قانونی سقم کی وجہ سے وزارت صحت کے افسران ڈیڑھ ارب روپے سالانہ وصول کرتے ہیں ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *