ترتیب
15 ماہ تک جنگ جاری رہنے کے دوران -غزہ پر 85 ہزار ٹن بارود برسایا گیا، 47 ہزار فلسطینی مارے گئے،18000 بچے مارے گئے، 23 ہزار لوگ مستقل معذور ہوئے، -لاتعداد بارود کی آگ میں جل گئے اور ان کے جسم نہ ملے
پورے غزہ میں شدید قحط اور پانی کی کمی ہوگئی ، سارے ہسپتال تباہ ایک لاکھ پندرہ ہزار لوگ زخمی ہوئے ،4500 بچے ٹانگوں سے معذور ہوئے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے ہزاروں لاپتہ فلسطینیوں کی لاشیں ملنے کا خدشہ ہے،
60% سے زیادہ عمارات مکمل تباہ جس کا ملبہ ہٹانے میں 10 سال کا وقت لگے گا ، غزہ پہ اب کون حکومت کرے گا اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے حماس کی پہلی دوسری اور تیسری قیادت ماری جاچکی ہے ،
لیکن؟؟ اگر ایک سال مزید یہ معرکہ اسی طرح جاری رہتا تو غاصب ریاست کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ایک خطرناک بحران کا شکار ہو جاتا ، ٹرمپ ایک دور اندیش سیاست دان ہیں انہونے الیکشن جیتنے کے بعد پوری کوشش آس بات پر لگائی کہ کسی طرح جنگ بندی ہو جائے ، جس میں وہ کامیاب ہوگئے ، اور جنگ بندی معاہدے کے جو نتائج سامنے آئے اس کا اندازہ امریکی حکومت کوبھی نہیں تھا کہ اتنی تباہی بربادی کے باوجود شہر عزیمت کی گلیوں کوچوں میں فتح کا جشن منایا جارہا ہے چراغاں کیا جارہا ہے جبکہ غاصب ریاست میں اس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر سوگ منایا گیا اور اپنی شکست بھی تسلیم کرنا پڑی ، آخر ایسا کیسے ممکن ہؤا؟؟ “دراصل “معاہدے طاقت کے متقاضی ہوتے ہیں ۔ایک غیر اصولی معاشرے میں ایک فریق دوسرے فریق کو جب تک جھکانے کی طاقت رکھتا ہے معاہدوں پر عمل بھی ہوتا ہے ورنہ کمزوروں سے معاہدے نہیں ہوتے ، انہیں بڑی طاقتیں جبرا غلام بنا کر رکھتی ہیں مزاحمت جب تک طاقت کا مظاہرہ کرتی رہے گی معاہدوں کی پاسداری ہوتی رہے گی جس دن مزاحمت کمزور ہوئی معاہدے ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے جاتے ہیں، قوموں اور قبیلوں کو غلام بنا لیا جاتا ہے ، دراصل اسرائیل اس مرتبہ بھی 1948 جیسے عزائم لیکر فلسطین کے ان علاقوں پر حملہ آور ہوا تھا جو اقوام متحدہ نے فلسطینی ریاست کو دیئے تھے۔ فضائیہ ، آرٹلری اور زمینی دستوں کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر قتل عام کیا تھا کہ صرف ایک ہفتے کے اندر 8 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنے ہی علاقوں سے ہجرت کر گئے تھے ان کی زمینوں اور گھروں کو پہلے ملٹری زون قرار دے کر ضبط کر لیا گیا پھر وہاں یہودی بستیاں قائم کر لی گئیں۔ دیر یاسین ، عین کارم ، نطاف ، بیت عنان ، المحالہ ، مخاس ، عرتوف ، عقور ، خربۃ العمور ، الجورہ ، عماش ، ام لیسون ، دیر الشیخ ، کس کس کی بات کروں؟ ؟ سینکڑوں گاؤں ملیا میٹ کر دیئے گئے اور تاثر دیا گیا کہ یہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ اسرائیل یہ ہی فارمولا لے کر دوبارہ پھر غزہ میں حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ شمالی غزہ کو بالکل برباد کرد یا جائے ، یہاں سے لوگوں کو نکال کر صحرائے سینا اور کانگو بھیج دیا جائے اس کامل بربادی کے بعد یہاں اسرائیلی بستیاں آباد کی جائیں۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں ۔ اسرائیل میں اسے ’’ جرنیلی منصوبہ‘‘ کہا گیا اور اس کا خالق جنرل آ ئلینڈ تھا جس کا پہلا منصوبہ یہ تھا کہ ’’غزہ کو مکمل تباہ کیا جائے، بوڑھی عورتوں تک پر کوئی رحم نہ کیا جائے ، یہ ہی تو ہیں جنہوں نے مزاحمت کاروں کو جنم دیا ہے۔ شمالی غزہ کی مکمل بربادی ، جس کے بعد وہاں رہنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے،
جنرل آ ئلینڈ جو اب فوج کا باقاعدہ حصہ نہیں مگر اس کا ریٹائرڈ افسران پر مشتمل تھنک ٹینک اب بھی غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے ،اور اسرائیلی پارلیمان اس سے رہنمائی لیتی ہے ، جنرل پلان کے پہلے حصے پر عمل کیا گیا ان کو اہلیان غزہ کو دہشت گرد‘ قرار دے کر گولی مارنے کا حکم دے دیا اس حکم پر عمل در آمد کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ کوئی شخص شمالی غزہ میں نظر نہ آئے ۔ عورت ہو بچہ ہو یا بوڑھا،
جنرل پلان کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ شمالی غزہ کو ’’ کلوزڈ ملٹری زون‘‘ قرار دیا جائے۔ بالکل ایسے جیسے 1948 میں فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے انہیں کلوزڈ ملٹری زون‘ قرار دیا گیا اور بعد میں وہاں یہودی بستیاں بسا لی گئی یا جنگل اگا لئے گئے تاکہ فلسطینیوں کی یادداشت سے یہ سب محو ہو جائے ، جنرل پلان کا تیسرا منصوبہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو کہیں ا ور منتقل کر دیا جائے۔ اسرائیل کی وزارت انٹیلی جنس کی جانب سے اس کی سربراہ گیلا گیمیل نے باقاعدہ رپورٹ جاری کر دی کہ انہیں مصر کے صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے۔ افریقہ کے چند ممالک سے مذاکرات ہونے لگے کہ وہ ان فلسطینیوں کو اپنے علاقوں میں آبا د کر لیں تاکہ ان سے اسرائیل کی مکمل جان چھوٹ جائے۔ اب ہوا کیا؟؟ اس کے برعکس، بالکل الٹا ہوا۔ غزہ بے شک برباد ہو گیا ، لیکن غزہ خالی نہیں ہوا۔ غزہ والے نہ صحرائے سینا گئے نہ کانگو ۔ وہ اپنے ہی گھروں کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔ وہ نہتے تھے اور نہتے ہیں لیکن انہوں نے 1948 کی تاریخ نہیں دہرائی۔ اب کی بار انہونے ہجرت نہیں کی ۔ وہ جیے یا مرے ، اپنی ہی زمین پر رہے ، انہوں نے اپنا آخری مورچہ خالی نہیں کیا۔ جو لوگ 1948 میں اپنے علاقوں سے بے دخل کیے گئے تھے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل نے انہیں آج تک واپسی کا حق نہیں دیاتھا جو حق اقوام متحدہ انہیں نہ دلوا سکی ، غزہ والوں نے اپنا یہ حق اپنی قربانیوں اور مزاحمت سے خود حاصل کرلیا غزہ کے لوگوں کی اکثریت 1948 کے قتل عام میں ہجرت کرجانے والے مہاجرین کی ہے۔ ان کی کیفیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک زمانے میں امن کے وقفے کی تلاش میں ہی اپنے گھروں سے نکل گئے تھے۔ اب وہ یہاں سے بھاگ کر کہیں جانے کو تیار نہیں۔،، اب جہاں تک گریٹر اسرائیل کی بات ہے تو جو اسرائیلی فوج پندرہ مہینے کی طویل اور بھیانک جنگ اور غزہ کے تقریبا ساٹھ فیصد علاقے کو کھنڈر بنانے کے باوجود وہاں سے واپس لوٹ چکی ہے وہ عرب کے دوسرے علاقوں میں
کسی طرح داخل ہو سکیں گے ؟؟
“لیکن” یہودی انسانوں کی اس نسل میں سے ہیں جن پر آسمان سے من و سلویٰ نازل ہوا جن کے لیے اللہ تعالٰی نے سمندر کو چیر کر راستہ بنایا اور ان کے پاس ہدایت دینے ہزاروں انبیاء مبعوث ہوئے مگر انہونے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہی نہیں کی اپنے انبیاء تک کو شہید کردیا پھر ایسی قاتل قوم سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی اس لیے اس امن معاہدے سے یہ امید لگانا فضول ہوسکتا ہے کہ اسرائیل فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر بھی قبول کر لے گا یا اگر اسرائیل عالمی طاقتوں کے دباؤ میں کسی طرح راضی ہو بھی جاتا ہے تو کیا حماس کے رہنما فلسطین کے ایک چھوٹے سے خطے پر اپنی ریاست قائم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ۔کیا فلسطینی یروشلم پر اپنے دعوے سے دست بردار ہو جائیں گے اور خود اسرائیل یروشلم کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر راضی ہو جاۓ گا ۔بالکل نہیں ۔اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ ایک جنگ بندی معاہدہ ہے اور اس معاہدے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی بات ہی نہیں ہے ۔ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اور حماس نے اپنے اپنے طور پر کچھ وقت کے لئے وقفہ حاصل کر لیا ہے،،،