تحریر: ارشاد احمد خان ڈاھر
سرائیکی وسیب سمیت پورے پاکستان میں میٹھی زبان کا اعزاز سرائیکی زبان کو حاصل ہے۔جس طرح آم کو پھلوں کا بادشاہ اس وجہ سے کہا جاتا کہ وہ مٹھاس میں اپنی مثال آپ ہے ۔دنیا کی ہر لینگویج اپنی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔قدیم وادی ھاکڑہ تہذیب وتمدن روہی چولستان کے ساتھ وادی سندھ میں سرائیکی زبان صدیوں سے اپنا ادبی، سماجی، ثقافتی، تاریخی و تحقیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔مادری زبان ہی دراصل انسانی عروج کا تاج ہے۔ہر آدمی اپنا ما فی الضمیر آسان اور موثر ترین انداز صرف ماں بولی میں بیان کرسکتا ہے۔قصہ ہر زبان کے شاعری و نثری ادب کا نوبل قیمتی اثاثہ ہے۔رب العزت خود قصہ گو ہیں۔قرآن مجید کی ایک سورہ القصص درحقیقت ادب صنف قصہ کو عروج بام بخشنا مقصود ہے۔اس میں بے شمار و بے پناہ موضوعات کا خزانہ موجود ہے۔قصہ لوگوں کے لیے رشدوہدایت کے ساتھ خوبصورت تفریح کا باعث بھی ہے۔سرائیکی لوک قصے نے اپنے وس وسیب کو علم، دانش و تربیت کا بہترین نصاب مہیا کیا ہے۔اگر دنیا سے کتابیں ختم ہوجائیں گیں تو قصولی زندہ رہیں گے۔وہ نسل در نسل، سینہ بہ سینہ اپنی تخلیق، اپنے ادب کو دنیا تک پہنچاتے رہیں گے اور پھر بکس و لائیبریرییاں وجود میں آ جائیں گیں۔لکھی ہوئی تحریر اپنا لوہا منواتی ہے۔ شاید دنیا کے پہلے ادیب عیبد نے کونی فارم رسم الخط کوئی قصہ لکھا ہوگا۔ جو دنیا کی 6500 ہزاز قدیم ترین میسوپوٹومپیا سمیرین تہذیب وتمدن کی نشاندہی کرتاہے۔
مصری اہرام اور سوڈانی اہرام دریائے نیل پر قدیم تاریخی آباد شہروں کی گواہی ہیں۔اردن کے پرانے کھنڈرات محلوں کا ثبوت ہزاروں سالوں کی انسانی منظم معاشرے کا قدیم حوالہ ہے۔ آثارقدیمہ ریسرچ سے معلوم ہورہا ہے کہ وادی سندھ تہذیب وتمدن کی ماں 6000 چھ ہزار سال پرانی وادی ھاکڑہ تہذیب وتمدن موجودہ روہی چولستان ہے۔دریائے ہاکڑہ جس کو دریائے گھاگھرا، گھگھر، گھارا، یا دریائے سرسوتی جس کا ذکر دنیا کے قدیم ترین ویڈک لٹریچر میں درج ہے۔تقریبا ساڑھے چھ سو سال پرانی قصہ گوئی تاریخ کے مطابق جب دریائے ہاکڑہ نے اوچ شریف میں سیلاب کی شکل میں ورلڈ ہیرٹیج مقبرے بی بی جند وڈی،حلیم و نوریا کے آدھے حصوں کو نقصان پہنچایا ، تو حکم ربی و کرامت ولی کامل روحانی شہنشاہ ولایت حضرت شیر شاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے دریائے ہاکڑہ واپس چلا گیا۔شہر مزید تباہی سے محفوظ رہا۔ “سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات ” کے مقالہ نگار ڈاکٹر محمد الطاف خان ڈاھر، نگران مقالہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو سابق چیئرمین شعبہ سرائیکی و ڈین فکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگؤیجز اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور (پاکستان) ہیں۔شعبہ سرائیکی نے 25 ستمبر 2024ء بروز بدھ اوپن ڈیفینس میں کامیابی پر پی ایچ ڈی ڈگری کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔بیرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی سابق پرنسپل گورنمنٹ صادق ایجرٹن گرائجوئٹ کالج بہاولپور، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کیمپس تھے۔قصہ عربی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مطلب کوئی واقعہ یا کوئی حادثہ، کہانی، کتھا، داستان وغیرہ ہے۔سرائیکی وسیب کا خوبصورت جغرافیہ قدرتی حسن سے مالامال ہے۔دھرتی کے باکمال حصوں میں میدانی، پہاڑی،تھلوچڑ اور روہی چولستان واضح ہیں۔سرائیکی علاقہ اپنے منفرد تہذیب وتمدن، ثقافتی و ادبی ورثے کا مالک ہے۔یہاں کے قدرتی وسائل،دستکاریاں اور مال مویشی ایک طرف ملکی معاشی استحکام اور خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں، تو دوسری طرف یہاں کی ریت روایت اور مقامی کلچر ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہے۔اس سال سرائیکی زبان و ادب کو انٹرنیشنل لینگؤیجز میں شامل بھی کر لیا گیا ہے۔موجودہ عہد کے آرکیالوجسٹس کی ریسرچ میں ملنے والے صحراء چولستان میں مختلف مقامات سے شواہد و نمونوں کے مطابق وادی ھاکڑہ تہذیب وتمدن (روہی چولستان گنویری والا قدیم ترین شہر، پتن منارہ، قلعہ ڈیراور وغیرہ) کو وادی سندھ تہذیب وتمدن(ہڑپہ و موہنجوداڑو)کی ماں مانا گیا ہے۔ہمیشہ ماں اپنی اولاد پر اپنی تہذیب وتمدن اور تربیتی اثرات مرتب کرتی ہے۔ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر نے شاید اس وجہ سے اپنے مقالے بعنوان “سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات ” منتخب کیا۔چولستانی قصولیوں کے قصوں نے پورے سرائیکی وسیب کے دوسرے خطوں دمان و تھل کے قصولیوں کے قصوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔لوک قصہ دراصل انسانی عروج و زوال کی تاریخی دستاویز ہے۔حق سچ، شر و خیر میں فیصلہ کرنے کا عملی مظہر ہے۔نصیحت و وصیت کا عملی نمونہ ہے۔قصہ گوئی کا خوبصورت فن اس دن سے شروع ہے، جب سے قوت گوئی کا آغاز ہوا۔لوک قصہ میں امن و رواداری کا پیغام ہے۔لوک دانش و تربیت کا بہترین نصاب ہے۔آرٹ کا شاندار اظہار ہے۔سرائیکی لوک قصہ سرائیکی وسیب کے قصولیوں کی حکمت و ست کا نچوڑ ہے۔مقالے کے نتارا سمیت سات ابواب ہیں۔پہلا باب “سرائیکی لوک قصے دی لوڑ تے ایندے سماجی اثرات ” جس میں سرائیکی قصے کا آغاز، قصوں کی اقسام، قصے و کہانی کے بارے ماہرین کی رائے کے ساتھ قصے کے سماجی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
لوک قصے میں انسانی شعور، ماضی، حال اور مستقبل کی روشن ضمانت ہے۔مقالے کا دوسرا باب “روہی چولستان دی تاریخ” ہے۔جس میں قدیم چولستانی مورخین کی آراء میں صحراء چولستان کے سیاق وسباق کو پڑکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔تیسرے باب ” چولستانی لوک کہانیاں دے ہر قصے دا فکری ویورا ” ہے۔احمد غزالی/ ڈاکٹر نسیم اختر کے ہر قصے کا فکری تجزیہ کیا گیا ہے۔چوتھے باب ” قلعہ ڈیراور وچ وسدے لوکاں دے قصے ” شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،محقق محمد الطاف خان ڈاھر کے ایم فل تھیسز میں موجود ہر قصے کا بھی فکری تجزیہ شامل ہے۔پانچویں باب ” لوک قصے تحصیل لیاقت پور دی حدود وچ موجود زبانی قصیں دی گول” کلید عمر محقق ایم فل تھیسز شعبہ سرائیکی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہر قصولی کے قصے کا تجزیاتی فکری مطالعہ شامل ہے۔پی ایچ ڈی مقالے کا اہم باب چھٹا ہے۔جس کا عنوان ” سرائیکی لوک قصیں اتے چولستانی قصیں دے اثرات ” ہے۔
چولستانی قصولیوں کے قصوں کے اثرات کو دوسرے سرائیکی وسیب میدانی، تھل و دمان کے قصولیوں کے قصوں پر اثرات کو ان پہلوؤں سے تجزیاتی و تقابلی تحقیق سے ثابت کیا گیا ۔ قصے کےعنوانات کے حوالے سے، قصے کے آغاز سے، مذہب پرستی،روحانیت اور عقیدت پرستی کے حوالے سے، ہیرو، شاہی کرداروں، مافوق الفطرت عناصر کے حوالے سے، گھریلو اور مقامی وسیبی کرداروں کے حوالے سے، فانا اور فلورا، آکھانیں /ضرب المثل ،دعائیں، ثقافت، محاوریں اور ٹھیٹھ زبان کے استعمال کے حوالے سے، شخصیات، شئیں، جگہوں کے حوالے سے، متن و فکری سانجھ کے حوالے سے سرائیکی چولستانی قصوں کے اثرات کا سرائیکی وسیب کے دوسرے خطوں کے قصولیوں کے قصوں پر لیا گیا ہے۔
آج بھی جدید عہد میں چولستان جیپ ریلی، چولستان یونیورسٹی کے اثرات تھل جیپ ریلی و تھل یونیورسٹی پر واضح ہیں۔روہی چینل ، روہی آٹوز، روہی ٹرانسپورٹ سروس اب سرائیکی وسیب سمیت پورے پاکستان میں نظر آرہی ہے۔چولستانی فنکار ہر جگہ اپنے اثرات مرتب کرچکے ہیں۔ویندے وگدے ویندے وگدے، واہ واہ ہے اللہ بادشاہ ہے کاغذاں دی بیڑی ہے مکوڑا ملاح ہے۔خلقت پئی چڑھدی ہے ساڈی صلاح ہے۔ہک ہا بادشاہ، وہ تاں صرف زمینی ٹوٹے دا بادشاہ ہا، اصل بادشاہ تاں صرف آپ اللہ اے۔۔متنی ٹوٹے جو ہمیں چولستانی لوک قصوں میں بار بار ملتے ہیں۔یہی ایک جیسا ٹیکسٹ ہمیں دوسرے سرائیکی قصوں پر بطور اثرات نظر آتے ہیں۔لوک قصے کی جدید ٹیکنالوجی ہمیں فلم، تھیٹر، ڈرامے،فنکشنز میلوں اور مشاعروں میں نظر آرہی ہے۔
مقالہ نگار ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر نے آخر میں اپنے تھیسز کی ریکمنڈیشنز/کمنٹس/سفارشات جو مرتب کیں ہیں،آنے والے نئے ریسرچرز کے لیے بہترین معاون ثابت ہوگیں۔میرے نزدیک یہ ہی مقالے کا محاکمہ/حاصل بھی ہے۔سفارشات Comments/Recommendations
قصہ بنیادی طور پر انسانیت کی اصلاح و تربیت کے لیے ایک مضبوط اور سایہ دار درخت کی طرح نسلاں کے لیے پھل بھی ہے چھاؤں بھی ہے،جس طرح تپتے صحراء میں جال کا گھاٹا درخت پیلھوں پھل اور گھاٹی چھاؤں دونوں کا باعث نعمت خداوندی ہے، جس کی چھپر چھاؤں کے نیچے ضعیف نحیف بڈھڑے قصولی اپنا ما فی الضمیر قصے کی شکل میں بیان کرتے ہیں ۔ان کی اور ان کے پاس قصوں کے خزانے کی بقاء، حکمت ودانش کی حفاظت بہت ضروری ہے۔چولستانی قصےگو اس سے پہلے جو اپنے قیمتی ادبی خزانے کے ساتھ دنیا سے پردہ کرجائیں ،فوری جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ان کی اپنی آواز وچ قصوں کو ریکارڈ کرکے محفوظ کرلیا جائے ۔چولستانی قصولیوں کی طرح تھل،دمان سمیت پورے سرائیکی وسیب کے قصولیاں کو مراعات یافتہ بنایا جائے۔ان کی معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے فوری انفراسٹرکچر و مالی امداد کااعلان کیا جائے،تاکہ یہ لوگ اقتصادی آسودگی کے ساتھ سرائیکی قصوں کو ہم تک پہنچا سکیں۔ہر چولستانی قصولی دراصل ہک آرٹسٹ ہے، اس لیے ان کے سماجی مقام و مرتبہ کے لیے قصولیوں کے درمیان مقابلے کرائے جائیں ۔ایوارڈز،میڈلز وظائف مقرر کیے جائیں۔چولستانی قصےگو اور ان کی نئی نسل کے لئے اعلی تعلیم وتربیت اور صحت کے ماڈل ادارے تعمیر کیے جائیں ۔پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں چولستانی قصولیاں کے بچوں کوٹہ مقرر کیا جائے۔مال مویشی و جڑی بوٹیاں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔ روہی چولستان کا خطہ وادی ہاکڑہ چھ ہزار سال قدیم تہذیب وتمدن کا آمین ہے۔
قلعہ ڈیراور،پتن منارہ،گنویری والا کے آس پاس قصولیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کلچرل اینڈ آرکیالوجی سوسائٹی ریسرچ سنٹرز تعمیر ہونے چاہئیں،تاکہ مقامی لوک ادب ،وذڈم، حکمت و دانش کو فروغ دیا جا سکے۔* ریڈیو، ٹیلی ویژن، چینلز ، آگاہی سمینار میں آن ائیر قصولیوں کے قصے چلائے جائیں۔ہفتہ وار پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا جائے ۔ تاکہ نئی نسل اپنےادبی ورثے کے ساتھ شناخت ہوسکے۔* چولستان جیپ ریلی و تھل جیپ ریلی کے موقع پر چولستانی قصہ گو کے فن کی حوصلہ افزائی کے لئے سرکاری سطح پر انتظامات کئے جائیں۔انہاں کی حوصلہ افزائی کیلئے انفرادی وظائف مقرر ہونے چاہئیں تاکہ چولستانی قصہ گو کی مقامی دستکاری کی صنعت کی مالی امداد ہوسکے۔* قومی و صوبائی سطح کی نصاب سازی میں چولستانی قصولیوں کے قصوں کو شامل کیا جائے ۔سرائیکی چولستانی قصولیوں سمیت تھل ،دمان پورے وسیب کے قصولیوں کے حقوق کے تحفظ کی آگاہی کے لیے نیشنل و انٹرنیشنل سطح سہ ماہی و سالانہ سمینار،اجلاس، مشاعرے وغیرہ کا انعقاد ہونا چاہیے ۔* روہی چولستان کے ادیب،دانشور، شاعر قصولیوں کے قصوں کے اثرات کی بدولت چولستان یونیورسٹی و چولستان جیپ ریلی سے تھل جیپ ریلی،تھل یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے، ہر یونیورسٹی میں چولستانیات شعبے کھولیں جائیں۔ روہی چینل، روہی آٹوز، روہی بس سروس پورے سرائیکی خطہ سمیت پورے پاکستان میں نظر آنا خوش آئند ہے۔
فنون لطیفہ کے شعبوں میں روہی چولستان آرٹ بھی شامل کیا جائے ۔چولستانی سرائیکی قصولیوں کے قصوں نے جو اثرات سرائیکی لوک قصہ گو کے قصوں پر مرتب کیے ہیں، اوہ پہلو یہ ہیں۔عنوانات کے اعتبار سے ، قصے کے آغاز کے حوالے سے، مذہب پرستی،روحانیت اور عقیدت پرستی کے اعتبار سے،ہیرو، شاہی کرداروں اور مافوق الفطرت عناصر کے حوالے سے، گھریلو اور مقامی وسیبی کرداروں کے حوالے سے ، فانا، فلورا کے حوالے سے ، آکھانیں ، دعائیں، ثقافت،محاوریں اور ٹھیٹھ زبان کے استعمال کے حوالے سےشخصیات،جگہوں، شئیں کے اعتبار سے، متن اور فکری سانجھ کے حوالے سے اثرات پر آنے والے نئے ریسرچرز ایک ایک پہلو پر ایم فل، پی ایچ ڈی مقالے لکھیں گے ۔چولستانی قصہ گو میدا رام،سمارا ، مجید مچلا، مہر غلام رسول، احمد غزالی کے قصوں کے اثرات طاہر غنی (تھل)، ملک عبداللہ عرفان (میدانی)، ملک آصف سیال (دمان) کے قصوں پر واضح ہیں۔سرائیکی مہان صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ کا اٹھارہ سال روہی چولستان میں گزارنا، انہاں کے آفاقی کلام میں روہی، چولستان کا قصہ موجود ہے۔کلام میں موجود چولستانی بودوباش کو عام کرنے کے لیے عالمی سطح پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ بنائیں جائیں۔