طارق خان ترین
سوشل میڈیا کی ڈیجٹل کاری 2010 سے پاکستان میں اس مقام تک پہنچی جسے تدریجا لوگ اس کو جاننے لگے، تب ہی عمران خان کے پراجیکٹ کو بھی لانچ کیا گیا۔ جیسے جیسے ڈیجٹل کاری ملک میں بڑھنے لگی ویسے ویسے پی ٹی آئی کو کھاد ڈالا گیا اور اس پارٹی کو اس ڈیجٹل کاری کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ اب ایک طرف لوگوں میں ڈیجٹل میڈیا پروان چڑھنے لگی تو دوسری طرف غیر شعوری طور پر عوام میں پی ٹی آئی کے ساتھ قربتیں بڑھنے لگی۔ یہ ایک بہت ہی باریک منصوبہ تھا، جس میں ایک ایک چیز کو بڑے مہارت کے ساتھ رکھا، پرکھا اور تولا گیا۔ اسی لئے پی ٹی آئی کی جانب سے دعوے کیے جاتے ہے کہ عمران خان نے عوام میں شعور اجاگر کیا، حالانکہ یہ شعور نہیں بلکہ جہالت کی انتہا کو اجاگر کیا گیا۔ اگر شعور ہوتا تو ہر شخص اپنے اپنے لیڈر سے احتساب کرتا، مگر وہ پرانی روش جو دہائیوں سے وجود پذیر ہے کہ مخالف لیڈر، مخالف پارٹی پر بے دریغ لعن طعن کی جائے اور خود کو فرشتہ صفت سمجھا جائے۔ جب آہستہ آہستہ ڈیجٹل کاری میں پی ٹی آئی ایکسپوز ہونے لگی تو اس پارٹی نے اسلام کارڈ کھیلنا شروع کیا، جس لیڈر کو ‘خاتم النبیین’ (ص) پڑھنا نہ آتا ہو، جس کا دعوٰی ہو کہ مجھے جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی، جو بڑے فخر کے ساتھ کہتا ہو کہ جسطرح سے نبی (ص) کی اللہ تعالٰی نے تیاری کروائی، میری بھی اسی طرح سے تیاری کی جارہی ہے (معاذ اللہ)، یہ شخص ریاست مدینہ کا دعوٰے دار ہو تو اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ شعور ہے یا پھر جہالت! پھر فوج کا سہارا لیا گیا، کسی بھی ملک کی بقاء و تحفظ کیلئے فوج کی اپنی کریڈایبلٹی ہوتی ہے، اسی لئے اسلامی کارڈ کے استعمال سے تھک ہار کر افواج پاکستان کی کریڈایبلٹی کو کیش کیا جانے لگا، اور کہا گیا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے، انٹیلیجنس ایجنسیوں کے گن گاتے تھکتے نہیں تھے۔ پھر آرمی چیف کو کن کن القابات سے نوازا گیا، انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہان کو کیا کچھ نہیں کہا گیا یہ سب کو پتہ ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جب یہاں بھی دال نا گلی تو آج کل یہ تحریک انصاف سے زیادہ تحریک انتشار ثابت ہورہی ہے جو انقلاب کا خود ساختہ نارہ لگا کر، عوام کو بہکا کر، روڈوں پر نکال بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کب نکالا جاتا ہے جب کوئی غیر ملکی وفود ملک میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے آتا ہو۔ غرض یہ کہ تحریک انصاف جھوٹ، تہمت، اور انتشار سے شدت پسندانہ رجحانات کے حامل جماعت ثابت ہوچکی، مگر ریاستی اداروں کی مصلحت پسند حکمت عملیوں نے جہاں یہ ثابت کیا کہ ریاست ہمیشہ سے شفقت دراز ہوتی، وہاں اس شفقت درازی نے احتساب کے عمل پر بہت سارے سوالات کھڑے کر دیئے، اور ملک میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ اگر 9 مئی کے مجرمان کو سزا دی جاتی تو نوبت یہاں تک نا پہنچتی۔
بحرحال حال ہی میں ایک انٹرنیشنل ادارہ جو دنیا میں فیک نیوز کو ایکسپوز کرنے پر کام کرتی ہے، نے تحریک انصاف پر تحریک انتشار کی محر ثبت کردی۔ فیک نیوز واچ ڈاگ کے رپورٹ کے مطابق، نومبر 2024 کے احتجاجات کے دوران غلط معلومات کو منظم انداز میں پھیلایا گیا۔ جھوٹے دعوے کیے گئے کہ حکومت نے عوام کے بنیادی حقوق ختم کر دیے ہیں۔ جعلی ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے ہنگامہ آرائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہ سب ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے کیا گیا۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افواج پاکستان کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ جعلی خبریں اور افواہیں پھیلائی گئیں جن میں فوجی قیادت پر غلط الزامات عائد کیے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ عوام کا اعتماد افواج پاکستان سے ختم ہو اور انتشار پیدا ہو۔ حالانکہ یہ کام بھارت کی جانب سے بڑے دوام کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ رپورٹ میں یورپی یونین ڈس انفولیب کے انکشافات کو بھی شامل کیا گیا، جنہوں نے انڈین کرونیکلز جیسی مہمات کو بے نقاب کیا۔ ان مہمات میں جعلی این جی اوز، جھوٹے صحافتی ادارے، اور دیگر ذرائع سے پاکستان کے خلاف منفی بیانیے کو فروغ دیا گیا۔ خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق اور دہشت گردی سے متعلق مسائل کو بین الاقوامی فورمز پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، خصوصاً سوشل میڈیا، پروپیگنڈے کے فروغ میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، جعلی اکاؤنٹس، بوٹس، اور وائرل مواد کے ذریعے جذباتی بیانیے تخلیق کیے گئے۔ مثال کے طور پر، واٹس ایپ اور فیس بک گروپس کے ذریعے غلط معلومات عوام تک پہنچائی گئیں، جنہوں نے احتجاجات اور انتشار کو بڑھاوا دیا۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ جھوٹی خبروں کو عوامی رائے کو متاثر کرنے کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جذباتی اور سنسنی خیز سرخیاں، جعلی ویڈیوز، اور گمراہ کن بیانات اس عمل کا حصہ ہیں۔ ان کا مقصد صرف عوام کو گمراہ کرنا نہیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا بھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، جھوٹے بیانیے نے سماجی تقسیم کو بڑھایا اور عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا۔ جھوٹی خبریں نہ صرف احتجاجات کو بڑھاوا دیتی ہیں بلکہ ریاستی مشینری کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کا اثر بین الاقوامی تعلقات پر بھی پڑتا ہے، جس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ رپورٹ نے جھوٹے بیانیے سے نمٹنے کے لیے چند تجاویز پیش کی ہیں، جن میں شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سخت نگرانی۔ مؤثر فیکٹ چیکنگ میکانزم کا قیام۔ عوامی آگاہی مہمات تاکہ لوگ غلط معلومات کے جال میں نہ پھنسیں۔ میڈیا ہاؤسز کو سنسنی خیز رپورٹنگ سے باز رکھنا شامل ہے۔
یہ ساری رپورٹ جنہیں حقائق کی بنیاد پر پیش کیا گیا، درحقیقت پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کا حق گو ہونے کی دلیل ہے۔مگر کیا ریاست اب فیصلہ سازی میں آگے آئی گی؟ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا کہ احتجاجات کی وجہ سے ملکی معیشت کو یومیہ 180 ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ کیا ان نقصانات کے ازالے کا وقت نہیں ہوا؟ کیا یہ صرف ریاستی اداروں کا کام ہے؟ یا پھر حکومت وقت کی اصل ذمہ داری ہے کہ وہ محض مراعات لینے تک اپنے آپ کو محدود نا کرے اور موثر ترین اور قابل عمل پالیسیاں بناکر ملک کی انتشار سے نکال کر استحکام کی طرف لیکر جائے۔ اگر آج بھی بروقت اور اہم فیصلے نا لیے گئے تو یقین جانئے کہ پھر عوام اور ریاست کے درمیان ہم آہنگی کی ناپیدگی مزید بڑھے گی اور اس کے نقصان کا اندازہ بعید از عقل ہوگی۔