یوم دفاع پاکستان

طارق خان ترین

خصوصی ایڈیشن

یوم دفاع پاکستان ہر سال 6 ستمبر کو قومی دن کی حثیت سے جوش و ملی جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس دن مادر وطن پر جان نچھاور کرنے والے بہادر سپوتوں کو خراج عقیدت جبکہ پوری قوم کی جانب سے افواج پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی، محبت و الفت کا والہانہ اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ دن پاکستان کے لئے ایک ناقابل شکست جبکہ بھارت کے لئے انکے غرور کو خاک میں ملیامیٹ کرنے کا دن ہے۔ 6 ستمبر 1965 کے دن کو اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے اچانک لاہور پر حملہ کیا۔ بھارت کے اس حماقت پر آفواج پاکستان اور عوام نے یکجہتی اور حوصلے کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی۔ بھارت کے پاس پاکستان سے کہیں گنا زیادہ جنگی وسائل تھے۔ مگر ان تمام تر وسائل کی وافر مقدار بھی بھارت کو جیتا نا سکی، حملہ بھی بھارت نے کیا اور دفاعی پوزیشن بھی بھارت نے اختیار کرلی، جبکہ پاکستان کی جانب سے کم ترین وسائل کے باوجود جارحانہ پوزیشن لیتے ہوئے دشمن کے پرخچے ہوا میں بکھیر کر رکھ دیئے گئے۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان اور بھارت کی جنگی صلاحیتوں کا موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ بھارت کے پاس عددی اعتبار سے زیادہ فوجی قوت تھی، لیکن پاکستانی افواج نے اپنی تربیت، جنگی حکمت عملی، اور جنگی سازوسامان کے بہتر استعمال سے میدان جنگ میں اعلی کارکردگی دکھائی۔ پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی خصوصاً نمایاں رہی اور بری فوج نے بھی کئی محاذوں پر شاندار دفاع کیا۔ تاریخ کے اس فتح سے معلوم ہوا کہ جنگیں حقیقت میں نظریات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں نہ کہ مادی وسائل کی بنیاد پر۔ فتح انہی کو نصیب ہوتی ہے جو حق کے راستے پر گامزن ہو۔

ہمارے ہیروز جنہوں نے جانفشانی سے ملکی سرحدات کا دفاع کیا نہ صرف بلکہ دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی 1965 کی جنگ کے سب سے نمایاں ہیروز میں سے ایک ہیں۔ وہ لاہور سیکٹر کے برکی علاقے میں دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اپنی یونٹ کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے چھ دن اور چھ رات تک دشمن کے شدید حملوں کا سامنا کیا اور دشمن کو اہم پیش قدمی سے روکے رکھا۔ ان کی بہادری اور قربانی کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ 1942 ءکے کمشن یافتہ بریگیڈیئر شامی شہید ستمبر65ءکی جنگ میں فرسٹ آرمر ڈویژن کے آرٹلری کمانڈر کی حیثیت سے قصور سیکٹر میں متعین تھے۔ ان کی زیر کمان فورس نے برمحل گولہ باری سے دشمن کے علاقے میں قیامت برپا کر رکھی تھی۔ میدان جنگ کی صورت حال جانچنے کیلئے 10ستمبر کو اپنی جیپ میں دشمن کے علاقہ میں دور تک چلے گئے اور مشین گن برسٹ کا نشانہ بن گئے ان کی میت دشمن علاقہ میں عارضی طور پر دفن کردی گئی تھی، اورسیز فائر کے بعد پاکستان لا کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کی گئی۔ بے پناہ جرات و شجاعت، بے مثل قیادت اور بے لوث قربانی پر انہیں ہلال جرات عطا کیا گیا۔ 1965ء کی جنگ کے دوران لیفٹیننٹ کرنل نصیر اللہ بابر ایوی ایشن اسکواڈرن کی قیادت کر رہے تھے۔ﭘﺎک ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﻟﯿﻔﭩﯿﻨﻨﭧ ﮐﺮﻧﻞ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﺎﺑﺮ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯿﻠﯽ ﮐﺎﭘﭩﺮ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻣﻮﺭﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﺎﺭ ﻟﯿﺎ، ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ نصیر اللہ بابر ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮔﮭﺒﺮﺍئے۔ بھارتی مورچوں کے پاس پہنچ کر انہوں نے ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺧﺒﺮﺩﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮔﮭﯿﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺱ لیے ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﮈﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺮﻧﻞ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺭﯾﻮﺍﻟﻮﺭ ﺗﮭﺎ۔ اس خطرناک صورتحال میں بھی انہوں نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور 55 سکھ سپاہیوں کو گرفتار کیا۔ اس شاندار کارنامے پر انہیں ستارۂ جرات سے نوازا گیا۔بعد ازاں ﻟﯿﻔﭩﯿﻨﻨﭧ ﮐﺮﻧﻞ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﺎﺑﺮ میجر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، بلاشبہ وہ ایک بہادر افسر تھے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) نے 1965 کی جنگ کے دوران فضائی محاذ پر بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بھارتی فضائیہ کے 5 طیارے مار گرائے، جو کہ عالمی ریکارڈ ہے۔ حالانکہ وہ شہید نہیں ہوئے لیکن ان کی خدمات اور بہادری کو جنگ کے ہیروز میں شامل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ، فلائٹ آفیسر عباس مرزا، فلائٹ لیفٹیننٹ یونس شہید، فلائٹ لیفٹیننٹ سرفراز فیقی، وِنگ کمانڈر سیسل چوہدری اور کرنل کے ایم رائے (جو کرسچین تھے) اور نیول کمانڈر احسان ناگی نے بہادری کے ساتھ اپنے وطن کا جارحانہ دفاع کیا۔

911 کے بعد پاکستان نے امریکی وار آن ٹیرر میں شامل ہوکر دہشت گردی کے خلاف اہم کردار ادا کیا، لیکن اس کے نتیجے میں ملک کو عالمی سطح پر تنہائی، داخلی انتشار، اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے سیکیورٹی اور معیشت متاثر ہوئیں۔ پاک فوج، انٹیلیجنس اداروں، ایف سی، پولیس، اور لیویز نے آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد سمیت متعدد کامیاب آپریشنز کیے۔ تاہم، اب پاکستان کو ففتھ جنریشن وار کا سامنا ہے جس کا مقصد ملک کو سیاسی، اقتصادی، اور معاشرتی طور پر کمزور کرنا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج، ایف سی، لیویز، اور پولیس کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان اداروں نے امن و امان کی بحالی کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ فوج نے بڑے آپریشنز اور عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا، جبکہ ایف سی اور لیویز نے دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں سرحدی نگرانی اور سیکیورٹی فراہم کی۔ پولیس نے بھی دہشتگردی کے خلاف روزمرہ کی بنیاد پر کارروائیوں میں حصہ لیا، لیویز جو کہ ایک قبائلی فورس کہلاتی ہے نے بھی اس وطن پر اپنے شہدا کی قربانیاں پیش کی ہیں اور عوامی تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ ان تمام فورسز کی قربانیاں اور محنت ملک کی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ میں یہاں بلوچستان فرنٹیئر کور کے کردار پر چند ایک جملے ضرور لکھنا چاہونگا۔ ایف سی بلوچستان صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی یے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں پر دہشت گردی یا عسکریت پسندی کے خطرات موجود ہو۔ یہ فورس پاک-ایران اور پاک-افغان سرحدوں کی نگرانی اور حفاظت کے فرائض سرانجام دی رہی ہے تاکہ غیر قانونی نقل و حرکت اور اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔ ایف سی بلوچستان دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب ہو یا دیگر ایمرجنسی حالات میں ریلیف کی کارروائیوں میں بھی ایف سی بلوچستان شامل ہوتی ہے۔ ایف سی بلوچستان کی خدمات اور کردار کی نوعیت علاقے کی سیکیورٹی صورتحال اور مقامی چیلنجز کی بنیاد پر مختلف ہو سکتی ہے مگر صوبے میں امن و امان، تعلیم، صحت اور دیگر صحتمندانہ سرگرمیوں میں انکے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح سے بارڈر منیجمنٹ کے حوالے سے ایف سی کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کسی بھی ملک میں داخل ہونے یا پھر نکلنے کے لئے قانونی دستاویزات کا ہونا ضروری ہے۔ مگر بد قسمتی سے چمن بارڈر پر لوگ بغیر کسی دستاویزات کے آتے اور چلے جاتے تھے۔ جس کے سبب بلوچستان میں دہشتگردی کو روکنے میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی تھی۔ بارڈر معاملات پر ریاست نے فیصلہ کیا کہ بغیر قانونی دستاویزات کے کسی بھی بارڈر پر نا کسی کو جانے دیا جائیگا اور نا کسی کو داخل ہونے دیا جائیگا۔ اس ریاستی فیصلے کے خلاف چمن کے رہائشی سمگلرز نے دھرنہ دیا نہ صرف بلکہ بارڈر پر تعینات ایف سی کے جوانوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئی۔ جھوٹ، تہمتیں، پروپیگنڈے باندھے گئے یہاں تک کہ ان اہلکاروں کو زخمی بھی کیا گیا۔ مگر ایف سی کے جوانوں نے آخر تک جس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا وہ ایک قابل تقلید عمل ہے۔

اس وقت ملک میں دہشتگردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے، ابھی حال ہی میں 25 اور 26 اگست کے درمیانی شب دہشتگردوں نے بلوچستان کی مختلف شاہراہوں کو بلاک کرکے 23 معصوم پاکستانیوں کو بسوں سے اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بلوچستان میں دہشتگردوں نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں 40 افراد کو شہید کیا جبکہ سیکیورٹی فورسز، ایف سی کی جوابی کارروائی میں 21 دہشت گرد ہلاک ہوئے، بہادری سے لڑتے ہوئے کیپٹن محمد علی سمیت 14 جوانوں نے شہادت پائی۔ اسی طرح سے پشین، نوشکی اور تربت کے علاوہ دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے، جس میں بے گناہ شہریوں کو شہید کردیا گیا۔ دہشتگردی کے ان واقعات میں ایف سی بلوچستان، پولیس اور لیویز نے جس جاں فشانی سے دہشتگردوں کا قلع قمع کیا وہ لائق تحسین ہے۔ جس پر بلوچستان کی عوام اپنے سیکیورٹی فورسز کو نہ صرف خراج تحسین پیش کرتی ہیں بلکہ جواں مردی سے دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے پر یکجہتی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں نے پاکستان کے دفاع میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ یہ علاقے کی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل، اور عسکری تنازعات کے باعث خاص طور پر حساس ہیں۔ بلوچستان کے عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، اور ملک کے دیگر چیلنجز کے دوران بڑی قربانیاں دی ہیں۔ بلوچستان کے فوجی جوانوں، پولیس و لیویز اہلکاروں، اور عام شہریوں نے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ ان کی قربانیاں ملک کی سلامتی اور استحکام کی ضامن ہیں۔ یہ قربانیاں نہ صرف فوجی سطح پر بلکہ شہری سطح پر بھی دیکھی جاتی ہیں، جہاں بلوچستان کے لوگ دہشت گردی اور دیگر مسائل کے باوجود ملک کے ساتھ وفاداری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے، شہدا کو خراج عقیدت پیش کرے اور دنیا پر باور کرائے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں جو اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ ہمہ وقت کھڑے ہیں، جو اپنے شہدا کو کبھی بھولتے نہیں، جو اپنے ملک کی سلامتی کے لئے، امن و خوشحالی کے لئے ہمیشہ انکے شانہ بشانہ کھڑے رہے گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *