ترتیب
نظام الدین
لکھنے اور تحقیق کا جنوں مجھے سرد موسم میں بھی شہر ملتان کے سب سے بڑے پبلک اسپتال نشتر کے ڈائیلاسز سینٹر لے آیا تھا ؟ کیونکہ” راقم کے جب کئی دوست ؤ احباب گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہوئے تو کچھ دوستوں کے مشورے اور اسرار پرگر دوں کے امراض پر لکھنے اور تحقیق کا کام شروع کیا تو ایک سال میں تقریباً پانچ ہزار سے زیادہ ایسے افراد سے ملاقاتیں کیں جو گردوں کے کسی نہ کسی امراض میں مبتلا تھے اور کچھ ڈائیلاسز کے عمل سے بھی گزر رہے تھے , یہ جان کر حیرت ہوئی ان پانچ ہزار میں سے دو ہزار ایسے تھے جو ڈائیلاسز کے عمل کو خون کے بجائے گردوں کی صفائی سمجھ رہے تھے انہیں کسی بھی سطح پر آگاہی حاصل ہی نہیں تھی کہ وہ گردے نہیں خون صاف کروا رہے ہیں ؟ اس طرح کی لاعلمی یا غفلت سے عموماًایک مرض سے دوسرا مرض لاحق ہو جاتا ہے ، مگر پاکستان کے تو تمام ادارے منصبی فریضہ کی ادائیگی میں غفلت اور لا پرواہی میں ٹاپ آف دی لسٹ میں شامل ہیں “مگر اسپتالوں کے حوالےسے جو حقائق سامنے آئے ہیں اس پر لکھتے لکھتے تو صفحات کے انبار لگا جائیں گے ؟
اسی طرح کی ایک غفلت کے سلسلے میں مجھے ملتان کے سب سے بڑے پبلک اسپتال نشتر کے ڈائیلاسز سینٹر جانا پڑا جہاں پہلے شوسل میڈیا اور پھر الیکٹرونک ؤ پرنٹ میڈیا کے زریعے لگ بھگ 25 مریضوں میں ایچ، آئی، وی، کی موجودگی کی تصدیق ہوئی، تو ڈائیلاسز سینٹر سے ان مریضوں کو ایچ، آئی، وی، کے علاج کے لیے صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے دفتر بھیجا گیا اور صوبائی حکومت بھی متحرک گئی ۔ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز خود نشتر ہسپتال ملتان پہنچ گئیں تھیں ابتدائی انکوائری ہوئی اور نشتر اسپتال کے چند بڑے عہدیداروں کو معطل کر دیا گیا۔صوبائی حکومت نے بتایا کہ ان افسران کی ’غفلت‘کی وجہ سے ایچ آئی وی ڈائلیسز سینٹر کے مریضوں میں پھیلا۔ تاہم اس ضمن میں کی گئی انکوائری رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا اور یہ پوری طرح واضح نہیں کیا گیا کہ اس غفلت کی نوعیت کیا تھی۔ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ اس انفیکشن کا سورس کیا تھا یعنی مریضوں کو وائرس کہاں سے لگا۔ کیا وہ ایچ، آئی، وی، وائرس ہسپتال کے باہر سے لے کر آئے یا ڈائلیسز سینٹر کے اندر سے اُن کے جسم میں داخل ہوا؟ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے حکومتی انکوائری کو ’یکطرفہ اور عجلت میں کی گئی تحقیقات‘ قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج کیا اور او پی ڈیز کو علامتی طور پر بند رکھا گیا۔ اگر نشتر
اسپتال کے ڈاکٹروں کا موقف درست تھا تو سوال یہ ہے کہ وائرس ڈائیلاسز سینٹر کے 25 مریضوں میں کیسے پہنچا ؟ اور اگر سینٹر کے عملے اور انتظامیہ سے انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر عملدرآمد کرنے میں کوتاہی ہو رہی تھی تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ حکومت بروقت اس کو چیک کرنے میں کیوں ناکام رہی؟ راقم نے ان ہی سوالوں کی کھوج میں نشتر اسپتال کے ڈائلیسز سینٹر کے اندر تک رسائی حاصل کی
اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایچ ،آئی ،وی، ڈائلیسز سینٹر میں کیسے پہنچا اور مریضوں میں کیسے پھیلا؟ ایچ ،آئی، وی، کو ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس کہا جاتا ہے جو انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کر نشانہ بناتا ہے۔ یہ متاثرہ شخص کے سوائل فلوئیڈز سے آگے پھیلتا ہے جیسا کہ خون، ماں کا دودھ، اعضائے مخصوصہ سے خارج ہونے والے فلوئیڈز اور سرنج وغیرہ وغیرہ
اس کے لیے میں نے پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ نشتر اسپتال میں ڈائلیسز اور انفیکشن کنٹرول کرنے کا طریقہ کار کیا ملک کے دیگر اسپتالوں سے مختلف ہے؟ نشتر اسپتال کے ڈائلیسز سینٹر کے دو بڑے ہالز ہیں۔ ان میں چاروں اطراف دیواروں کے ساتھ ڈائلیسز بیڈز لگائے ہیں اور درمیان میں نرسنگ سٹیشن بنا ہوا ہے۔ ڈائلیسز بیڈز کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
زیادہ تر بیڈز ہیپاٹائیٹس سی کے مریضوں کے لیے مختص ہیں۔ کچھ بیڈز ہیپاٹائیٹس بی کے مریضوں کے لیے اور کچھ ان مریضوں کے لیے مختص ہیں جن کا ہیپاٹائیٹس کا رزلٹ نیگیٹو آچکا ہے۔ ایک طرف پردے کی پارٹیشن کر کے ایچ، آئی، وی، کے مریضوں کے لیے الگ بیڈز لگائے گئے ہیں۔ لگ بھگ 20، 25 بستروں میں صرف دو یا تین بستر ہی ایسے ہیں جو مکمل طور پر صحت مند مریضوں کے لیے مخصوص ہیں۔نرسنگ اسٹیشن اور ہالز کی دیواروں پر مریضوں اور عملے کے لیے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ہدایات درج ہیں۔
اسٹیشن کے ایک طرف ہاتھ دھونے کے لیے بیسن لگا ہے اور صابن وغیرہ دستیاب ہے۔
اس سینٹر میں ان لوگوں کا ڈائلیسز ہوتا ہے جو یہاں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ رجسٹر ہونے کے لیے ملک کے دیگر اسپتالوں کی طرح پہلے مریض کے ابتدائی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں یہ تسلی کی جاتی ہے کہ اسے کسی قسم کا انفیکشن تو نہیں ہے۔اس کے بعد ان کا فسٹولا بنتا ہے اور اس کے بعد ان کی ضرورت کے مطابق ہفتے میں دو یا تین بار ڈائلیسز کے لیے انھیں شیڈول دے دیا جاتا ہے جس میں ان کا ڈائلیسز کروانے کا دن اور وقت مقرر کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح اس سینٹر میں لگ بھگ دو سو سے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہیں۔
ہر بستر کے ساتھ ہی ڈائلیسز مشین لگی ہے۔ ہر ڈائلیسز کے لیے اس مشین کے ساتھ ایک نیا ڈائیلائزر اور ٹیوبوں کا ایک سسٹم نصب کرنا ہوتا ہے جس کو مریض کے جسم کے ساتھ سوئیوں کی مدد سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس طرح جب مشین چلتی ہے تو خون مریض کے جسم سے نکل کر اس ڈائیلائیزر سے صاف ہو کر دوبارہ اس کے جسم میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے جسم سے فاضل پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے۔ اب یہاں اگر ڈائیلاسز کی سوئیوں اور ٹیوبوں کے اس نیٹ ورک کو ایک سے زیادہ بار استعمال کیا جائے، مشینوں کو ڈس انفیکٹ نہ کیا جائے تو انفیکشن ایک مریض سے دوسرے میں پھیلنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ اس مکمل جائزہ کے بعد میں نے حکومت پنجاب
ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایک اہلکار سے رابط کیا اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ابتدائی تحقیقات کے کچھ نکات میرے ساتھ شیئر کیے۔
اس رپورٍٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈائلیسز سینٹر میں مریضوں کی ابتدائی سکریننگ نہیں ہو رہی تھی۔ ان کی ایچ، آئی ،وی، اور ہیپاٹائیٹس کی متواتر سکریننگ بھی نہیں ہو رہی تھی۔
یعنی قواعد کے مطابق سال میں ایک مرتبہ یا کسی قسم کے شکوک و شبہات پر مریضوں کے ایچ، آئی، وی،، ہیپاٹائیٹس بی اور سی کے ٹیسٹ ہونا لازمی ہوتے ہیں۔ تاہم رپورٹ کے مطابق ایسا باقاعدگی سے نہیں ہو رہا تھا۔ انفیکٹڈ اور نان انفیکٹڈ مریضوں کے لیے مشینیں الگ کرنے کا طریقہ کار بھی ناقص تھا جبکہ متاثرہ مریضوں کا ڈائلیسز نارمل مریضوں کے لیے مخصوص مریضوں کی مشینوں پر ہو رہا تھا۔ مشینوں کی متواتر حفاظتی دیکھ بھال نہیں ہو رہی تھی اور ہر ڈائلیسز اسیشن کے آخر میں مشین کو اس کے خود کار نظام کے ذریعے ڈس انفیکٹ کیے جانے کا ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔‘
مریضوں کی کسی کوالیفائیڈ نیفرالوجسٹ یا گردوں کے ماہر ڈاکٹر کی طرف سے نگرانی نہیں ہو رہی تھی۔ ’کوئی کوالیفائیڈ ڈائلیسز نرسیں اور ڈائلیسز ٹیکنیشن موجود نہیں تھے۔‘ سینٹر میں مریضوں کے ریکارڈ رکھنے میں کوتاہی تھی اور مشینوں اور فلوئیڈز کے کانفارمٹی سرٹیفیکٹس موجود نہیں تھے؟ جبک” نشتر اسپتال کے ایک ڈاکٹر سے رابط کیا تو حکومت کے ڈر سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر جو تفصیل بتائی وہ حکومتی رپورٹ سے بلکل الگ تھی ڈاکٹر نے بتایا کہ اسپتال کے تمام تر عملے کو باقاعدہ طور پر تربیت دی جاتی ہے جسے کچھ عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ ’اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نشتر کے ڈائلیسز سینٹر میں سرنجوں یا سوئیوں کا ایک سے زیادہ مرتبہ یا دوبارہ استعمال ہو رہا ہو۔ یہاں جو مشنیں موجود ہیں وہ اچھی کمپنی کی ہیں۔ ’ڈائلیسز مشین کے ذریعے وائرس پھیلنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ایک تو مشین ڈس انفیکشن کے خود کار نظام کے ذریعے
ایچ, آئی, وی، ہیپاٹائیٹس سی اور بی کے وائرسز کو آرام سے مار دیتی ہے۔ دوسرا یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ڈائلیسز کے دوران مریض کا خون مشین کے اندر جاتا ہے۔ ڈائلیسز کے دوران مریض کا خون مشین کے ساتھ جڑے ڈائلائیزر اور ٹیوبوں سے صاف ہو کر دوبار جسم میں واپس چلا جاتا ہے اور ڈائلیسز مکمل ہونے کے بعد اس مکمل نظام کو اتار کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔، سینٹر میں صرف رجسٹرڈ مریضوں کا ڈائلیسز ہوتا ہے جن کو ابتدائی سکریننگ کرنے کے بعد رجسٹر کیا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل گائیڈلائنز یہ ہے کہ ڈائلیسز مریضوں کے سال میں ایک مرتبہ ٹیسٹ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ نشتر میں حکام کی طرف سے سال میں دو مرتبہ یہ ٹیسٹ کرنے کی ہدایات ہیں۔ اس لیے ان مریضوں کے ایک نہیں سال میں دو مرتبہ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔‘ اسی سکریننگ پروٹوکول کے دوران ہی مریضوں میں
ایچ ،آئی، وی، کی تشخیص ہوئی ڈائلیسز سینٹر میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے ترتیب کردہ تمام تر انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر پوری طرح عمل ہو رہا تھا۔؟ مگر میرا ان سے سوال تھا جب سب کچھ درست ہو رہا تھا تو پھر سینٹر کے 25 مریضوں میں وائرس کیسے پہنچ گیا؟ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے کہ مریض وائرس ہسپتال کے باہر سے لے کر آئے ہوں۔ ان کا اشارہ پرائیویٹ ڈائلیسز سینٹرز اور لیبارٹریز وغیرہ کی طرف تھا ، ڈائلیسز کے مریضوں کو باقاعدگی سے جسم میں خون کی کمی کا سامنا رہتا ہے جس کے لیے انھیں خون لگوانا پڑتا ہے۔ نشتر ہسپتال کے اندر موجود بلڈ بینک کا انتظام ایک تھرڈ پارٹی یعنی انڈس فاؤنڈیشن‘ کے پاس ہے۔ان کا بلڈ لینے اور دینے کا طریقہ کافی شفاف ہے۔ ان سے بلڈ لینے کے مریض کو کسی بھی خون کی قسم کا ڈونر دینا ہوتا ہے۔ اس طرح بلڈ بینک میں جانے والا تمام خون ٹیسٹ وغیرہ کر کے رکھا جاتا ہے۔ اور وہی خون پھر مریضوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے۔نشتر اسپتال کے باہر تاہم ایک بہت بڑی تعداد میں پرائیویٹ بلڈ بینک، ڈائلیسز سینٹر، لیبارٹریز، اسپتال اور کلینکس موجود ہیں۔ میں مزید معلومات کے لیے تھوڑی دیر نشتر اسپتال کے باہر کھڑے ہو کر وہاں کے مناظر کا جائزہ بھی لیا جہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال کے اسٹریچر پر مریضوں کو ڈال کر ان پرائیویٹ لبارٹریز کی طرف مختلف قسم کے ٹیسٹ کروانے کے لیے جاتے نظر آرہے تھے ،
نشتر اسپتال کے ان ڈاکٹر کے مطابق ڈائلیسز کے مریضوں کو کیونکہ بہت زیادہ مرتبہ خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور خون لگوانا پڑتا ہے تو ان کو ڈونر ملنا بند ہو جاتے ہیں۔ ’ایسی صورت میں وہ پرائیویٹ لیبارٹریز اور بلڈ بینکوں سے خون کی بوتلیں خرید کر لگوا لیتے ہیں۔‘وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض اوقات ڈائلیسز کے مریض اگر اپنے دو سیشنز کے درمیان پانی زیادہ پی لیں تو انھیں فوری ڈائلیسز کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اس صورت میں انھیں نشتر کے باہر پرائیویٹ ڈائلیسز سینٹرز جانا پڑتا ہے۔اور پھر سینٹر میں آ کر وہ نہیں بتاتے کہ انھوں نے باہر سے ڈائلیسز کروایا ہے، اس لیے سینٹر کے عملے کو پتہ نہیں چلتا اور وہ ان کا دوبارہ ڈائلیسز کرنے سے پہلے ان کے ٹیسٹ نہیں کر پاتے۔‘ ان ڈائلیسز سینٹرز اور بلڈ بینکوں میں انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر کتنا عمل ہوتا ہے اس حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔
ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے نشتر اسپتال کے ڈائلیسز سینٹر میں رجسٹرد چند مریضوں سے بات چیت کی اور ان میں وہ مریض بھی شامل تھے جن میں حال ہی مین ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے۔
ہیپاٹائیٹس سی کے شکار ایک مریض نے یہ اعتراف کیا انھوں نے ایک مرتبہ ڈائلیسز سینٹر کے باہر سے پرائیویٹ سینٹر سے ڈائلیسز کروایا تھا۔ تاہم حالیہ سکریننگ میں اس مریض میں ایچ آئی وی کی تصدیق نہیں ہوئی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں سال میں کئی بار خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کبھی نشتر کے باہر سے پرائیوٹ جگہ سے خون خرید کر نہیں لگوایا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں خون نشتر ہی کے بلڈ بینک سے لگتا ہے جو ڈائلیسز سینٹر ہی میں بستر پر ان کو لگایا جاتا ہے۔ حال ہی میں جن مریضوں میں ایچ، آئی، وی، کی تصدیق ہوئی ہے ان میں لگ بھگ آدھی تعداد خواتین کی ہے۔ ایک متاثرہ خاتون سے بات کی جس نے بتایا ’ہم نے کبھی نشتر کے باہر سے خون نہیں لگوایا اور نہ ہی کبھی باہر سے ڈائلیسز کروایا ہے۔ ان کو سات، آٹھ برس قبل ایک پیچیدگی کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے ڈائلیسز پر منتقل ہونا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ پانچ برسوں سے نشتر کے ڈائلیسز سینٹر سے ڈائلیسز کروارہی ہے ، انھوں نے بتایا کہ انھیں کچھ عرصہ قبل ایک ہی بار تین سے چار بوتلیں خون لگوانے کی ضرورت پڑی تھی تاہم وہ انھوں نے نشتر کے اندر ہی سے لگوایا تھا۔ ’ڈائلیسز سینٹر کے اندر ہی وہ خون کے سیمپل لے جاتے ہیں اور پھر سینٹر کے اندر ہی بستر پر خون لگ جاتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے کبھی کسی پرائیویٹ لیبارٹری وغیرہ سے ٹیسٹ نہیں کروائے یا استعمال شدہ سرنج سے انجیکشن وغیرہ نہیں لگوایا۔ ان میں ایچ آئی وی تشخیص ہوگئی ہے،؟ پھر اس سوال پر واپس آتے ہیں کہ اگر نشتر اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق ان کے سینٹر میں تمام تر ہدایات پر مکمل عمل ہو رہا تھا تو ان خاتون اور ان جیسے دوسرے افراد میں ایچ آئی وی کیسے پہنچا؟ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نشتر اسپتال ملتان کے ڈائلیسز سینٹر میں ایچ، آئی، وی، کے پھیلاؤ کا معاملہ سینٹر میں سوئیوں یا سرئنجوں کے دوبارہ استعمال کا نہیں ہے۔ یہاں ہوا یہ کہ ممکنہ طور پر کوئی پروٹوکول مریض آیا۔ یعنی کوئی ایسا مریض جس کو کسی بااثر شخصیت یا جان پہچان کے کسی شخص نے سینٹر پر بھیجا اور کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اسے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اس کا ڈائلیسز کر دیں۔ اس لیے اسے چیک نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر اس طرح ایسے مریضوں کی ابتدائی سکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے وائرس نشتر اسپتال کے ڈائلیسز میں داخل ہوا۔ اس کے بعد کیونکہ سینٹر میں انفیکشن کنٹرول اور مشینوں کے استعمال کے درست طریقہ کار میں کوتاہی ہو رہی تھی تو وائرس سینٹر کے اندر مریضوں میں پھیلا۔ تاہم یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر نشتر اسپتال کے ڈائلیسز سینٹر میں مبینہ طور پر کوتاہی ہو رہی تھی تو صوبائی حکومت اس کو چیک کرنے اور درست کروانے میں ناکام کیوں ہوئی؟ اس طرح کا واقعہ ہونے سے پہلے اس کو درست کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا ایسا کرنے کا کوئی نظام موجود ہے اور اگر ہے تو وہ اس نے کام کیوں نہیں کیا ؟ اور کیا حکومت اس انفیکشن سورس کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میرا اس تحقیقی رپورٹ کو شائع کرنے کا مقصد پاکستان کے دیگر اسپتالوں کو آگاہی فراہم کرنا ہے کہ اگر عملہ سستی غفلت نا کرے اور کسی خاص شخصیت سے مرغوب نہ ہو تو یہ مسئلہ بہت آسانی سے حل ہو سکتا ہے۔ ہر مریض کے ڈائیلسز سے پہلے
اسکریننگ کی جا سکتی ہے اور اس میں پانچ منٹ درکار ہوتے ہیں ایک مریض کے لئے۔ اسکریننگ کی قیمت لگ بھگ 70 روپے ہوتی ہے۔ جبکہ ڈائیلسز سنٹر پر ہر چھ ماہ بعد اسکریننگ کا رواج ہے اگر کوئی مریض ایک ماہ بعد پازیٹیو ہو جاتا ہے تو وہ پانچ ماہ تک ان مشینوں پر لگتا رہتا ہے اور انفیکشن کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح کے کئی سوالات ہیں ؟ جس پر تحقیق جاری ہے اور اس پر بھی تحقیق جاری ہے کہ کیا شوگر یا بلڈ پریشر ہی گردوں کے فیل ہونے کا سبب بنتے ہیں؟؟ یا پھر کچھ اور اسباب بھی ہیں؟؟